بنتِ پاکستان!


تطہیرفاطمہ کی کہانی بھی دیگر بہت سی پاکستانی بچیوں کی کہانی ہے، جن کے ماں باپ کو ایک بے جوڑ شادی کے ذریعے باندھ دیا جاتا ہے۔ اس تعلق کے نتیجے میں جو اولاد دنیا میں آتی ہے وہ اس بے جوڑ شادی کا بھگتان، ماں باپ سے بھی زیادہ بری طرح بھگتتی ہے۔

تطہیر فاطمہ ایک ایسی لڑکی ہے، جس کے ماں باپ میں طلاق ہوئی اور اسے اس کی ماں نے پالا۔ پالنے کا لفظ یہاں بہت وسیع معنی اختیار کر جاتا ہے۔ ایک ایسا گھرانا جہاں ماں باپ کے درمیان ہم آہنگی ہو، باپ مشفق اور ماں کا احترام کرنے والا ہو اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام دے، وہاں ماں کا بچوں کو پالنا، فقط گھر داری تک محدود ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو بچوں کی تعلیم اور تربیت کی بھی بہت سی ذمہ داریاں والد ہی اپنے کندھوں پہ اٹھاتے ہیں۔ لیکن وہ گھر جہاں کسی وجہ سے ناہمواری ہو یا باپ اور ماں کے درمیان طلاق یا علیحدگی ہو جائے وہاں بچوں کو پالنا ایک بہت کٹھن عمل ہے۔ مغرب میں اس کے لیے ایک اصطلاح ’سنگل پیرنٹ‘ وضع کی گئی ہے۔ زیادہ تر یہ مائیں ہی ہوتی ہیں جو بچوں کی ذمہ داری لیتی ہیں۔ اس کی وجہ قدرتی طور پہ بچوں کا ماں سے زیادہ قریب ہونا اور پرورش کے لیے ان پہ انحصار کرنا ہے۔

طلاق کو ایک مکروہ عمل کہا جاتا ہے لیکن زندگی حرام کرنے کی نسبت اگر ایک مکروہ عمل کر لیا جائے تو سودا برا نہیں۔ دو لوگ جو ایک دوسرے کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتے اگر اپنے راستے الگ کر لیں اور یہ فیصلہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق اور خاص طور پہ اپنے بچوں کے حقوق کا خیال رکھیں تو کیا ہی اچھا ہو۔

تطہیر فاطمہ نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں اپنا نام 'تطہیر بنت پاکستان' لکھا ہے

                                                                                        تطہیر فاطمہ نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں اپنا نام ‘تطہیر بنت پاکستان’ لکھا ہے

دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ اکثر طلاق کے موقع پہ شوہر بیوی پہ بد کرداری کا اور بیوی شوہر پہ خرچ نہ دینے کا الزام لگاتی ہے۔ گویا معاشرتی طور پہ جتنا بھیانک عمل عورت کی بدکاری ہے اتنا ہی بھیانک شوہر کا کفالت نہ کرنا بھی ہے۔ کسی بھی صورت میں جب طلاق ہو جاتی ہے تو بچوں کا خرچ جب تک کہ وہ بالغ نہیں ہو جاتے، اٹھانا، باپ کا فرض ہے علاوہ ازیں مہر کی رقم اگر وہ پہلے ادا نہیں کی گئی بھی بے چوں و چرا ادا کر دینی چاہیے۔

ہم، الحمدللہ! بڑے اچھے مسلمان ہیں اور اکثر اس کا مظاہرہ بھی کرتے رہتے ہیں لیکن جوں ہی ایسی صورتِ حال درپیش آ تی ہے، مہر اور نان نفقہ گول کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ اگر دیا جاتا ہے تو وہ بھی قسطوں میں اور بدمزگی کے ساتھ۔ چلیے، وہاں تو ماں کسی نہ کسی طرح دیسی محاوروں کے زور پہ، محنت مشقت کر کے بچوں کے اخراجات پورے کر لیتی ہے لیکن مسئلہ وہاں کھڑا ہوتا ہے جہاں فائلوں کے پیٹ بھرنے کے لیے کاغذات چاہیے ہوتے ہیں۔

ہمارے ہاں، کنبے کا سربراہ، باپ ہوتا ہے۔ طلاق کے بعد اگر بچے ماں کے پاس ہوں تو انہیں اٹھارہ سال تک کی عمر تک خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاسپورٹ اور ویزے کے لیے باپ کا تعاون درکار ہوتا ہے۔ اکثر معاملات میں باپ یہ تعاون کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ میں ایک ایسی بچی کو بھی جانتی ہوں جو اپنے باپ کی ایسی ہٹ دھرمی کے باعث، کیمبرج کے امتحان نہ دے پائی کیونکہ اس کا پاسپورٹ نہیں بن پایا۔ اٹھارہ سال سے کم عمر بچے اگر ماں کے پاس ہوں تو انہیں بیرونِ ملک جانے کے لیے باپ کی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ اجازت بھی اکثر باپ نہیں دیتے۔

بسا اوقات ایسے بچے یہ سوچنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس کی نسبت اگر وہ یتیم ہوتے تو زندگی آسان ہوتی۔ ایک فیصلہ جو آپ نے اس لیے لیا کہ زندگی پر سکون ہو جائے، اسے اپنی ہی اولاد کے لیے سزا کیوں بنا دیا جاتا ہے؟ ماں باپ اپنے جھگڑے میں اولاد کو فریق کیوں بنانا چاہتے ہیں؟

ہم اپنے بڑوں سے ایسے جدی جھگڑوں کے قصے سنتے تھے کہ جس میں کوئی باپ اپنی اولاد کو ماننے سے انکار کر دیا کرتا تھا تاکہ اسے جائیداد سے بے دخل کر دیا جائے۔ ایسی اولاد، مقدمہ جیتتی تھی یا ہارتی تھی، اس کی نسلوں کے ساتھ،’ چھوٹی لائین’ کا لفظ، نسب نامے کی طرح چسپاں ہو کے رہ جاتا تھا۔ صدیاں سال، گزرنے کے بعد بھی کسی نہ کسی کو کٹنا پا سوجھتا تھا اور ان بے چاروں کے پرکھوں کی قبریں تک اکھیڑ دی جاتی تھیں۔

ایسے مقدمات یقیناً آ ج بھی زیرِ سماعت ہوں گے۔ قانون کا احترام اپنی جگہ لیکن میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ کسی روز کوئی بہادر اولاد اٹھ کے اپنے باپ کو اپنا باپ ماننے سے انکار نہ کر دے۔ آخر آج وہ موقع آ گیا۔ قانون نہیں مانتا کہ تطہیر فاطمہ، بنتِ پاکستان ہو لیکن کاش اس قسم کے باپوں کے ساتھ بھی کوئی ‘چھوٹی لائین’ کا لفظ لگا دے اور یہ جس محفل میں جائیں ایک کھس پھس مچ جائے، ’وہ دیکھو، یہ وہ باپ جا رہا ہے، جس نے اپنی اولاد کے راستے کھوٹے کیے اور انہوں نے اسے اپنی ولدیت سے خارج کر دیا، یہ ایک ۔۔۔۔ باپ ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).