ٹیسٹ ٹیوب، سروگیسی اور اب سور کا دل!


اگر آپ کی ملاقات کسی ہم جنس پرست مرد سے ہو اور وہ آپ کو یہ بتائے کہ اس کا ’خاوند‘ رات کو دیر سے گھر آتا ہے، اسے وقت نہیں دیتا اور بچوں کو بھی نہیں سنبھالتا تو آپ کا رد عمل کیا ہو گا؟ ایک مرتبہ امریکہ میں مجھے اسی قسم کے بندے سے پالا پڑا تھا جس کی یہ گفتگو سن کر میں چکرا کر رہ گیا تھا۔ اس مرد رعنا کی شادی کو چار سال ہوئے تھے، دو بچے تھے، اس کا شکوہ یہ تھا کہ خاوند اس سے بیزار ہو چکا ہے، گھر پر بالکل توجہ نہیں دیتا، اٹھے بیٹھے طعنے دیتا ہے، لہذا اب وہ اس سے علیحدہ ہونے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔

اس دکھی مرد کی باتیں سن کر میں نے اسے مومن کا شعر انگریزی میں ترجمہ کر کے سنایا کہ ’ہر وقت ہے دشنام ہر اک بات میں طعنہ، پھر اس پہ بھی کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا‘ اور کہا کہ تمہارے خانگی معاملات پر تو بعد میں بات کریں گے، پہلے یہ بتاؤ کہ تم دونوں کے بچے کیسے پیدا ہو گئے؟ اس پر وہ زیر لب مسکرایا اور کہنے لگا کہ شادی کے بعد ہم نے ایک Surrogate Mother (جس کا ترجمہ غالباً ’قائم مقام ماں‘ ہی کیا جا سکتا ہے ) کی خدمات حاصل کی تھیں۔

اسے بچے پیدا کرنے کا بہت شوق تھا، کافی لا ولد جوڑوں کے لیے وہ یہ کام سر انجام دے چکی تھی اور اس کے پیسے بھی نہیں لیتی تھی، بس ہم نے بھی اس سے درخواست کی، اس نیک بی بی نے ہم پر احسان کیا اور نو ماہ بعد جڑواں بچے پیدا کر کے ہماری گود میں دے دیے۔ تم کیا سمجھے تھے؟ میں یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دنیا میں ہم جنس پرستوں کے بچے بھی ہوسکتے ہیں۔ ٹیسٹ ٹیوب بے بی قسم کی چیزیں تو پاکستان بھی پہنچ چکی تھیں، مگر یہ ’سروگیسی‘ اتنی عام بات نہیں تھی اور وہ بھی یوں ’وایا بٹھنڈہ‘ ۔

اس واقعے سے میرے دماغ میں بہت سے مذہبی اور اخلاقی سوالات پیدا ہو گئے۔ ہم جنس پرستی کی اجازت تو شاید کسی بھی مذہب میں نہیں مگر سروگیسی کو کہاں لے کر جائیں۔ یہ کام اگر کوئی عام شادی شدہ جوڑا کرے تو اس صورت میں بچے کی ماں کون ہوگی، وراثت کی تقسیم کیسے ہوگی؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے واضح جواب موجود نہیں۔ آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے اگر سر سید احمد خان کو بتایا جاتا کہ مستقبل میں ٹیسٹ ٹیوب بے بی ٹیکنالوجی کی مدد سے لا ولد جوڑوں کو اولاد مل سکے گی اور پھر ان سے اس کی شرعی یا اخلاقی حیثیت کی بابت پوچھا جاتا تو سر سید جیسا لبرل بھی غالباً اسے حرام قرار دیتا۔

آج حال یہ ہے کہ شدید مذہبی لوگ بھی اولاد کی خواہش میں ٹیسٹ ٹیوب بے بی تو کیا سروگیسی کروانے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ لیکن اب تو بات اس سے بھی آگے نکل چکی ہے۔ انسان کے سینے میں سور کا دل لگا دیا گیا ہے اور سنا ہے کہ اس ’نیک‘ کام میں مسلمان ڈاکٹر کا بھی حصہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسانی جان بچانے کی خاطر کیا یہ اقدام جائز قرار دیا جا سکتا ہے، کیا اس کے بعد مریض نارمل انداز میں زندگی گزارے گا یا اس میں درندگی پیدا ہو جائے گی، کیا دل محض گوشت کا لوتھڑا ہے یا واقعی جذبات اور احساسات کا مرکز بھی ہے اور اگر ایسا ہے تو سور کے دل میں جو جذبات ابھرتے تھے کیا اب وہی جذبات اس انسان کے دل میں جنم لیں گے؟

اس بحث میں پڑنے سے پہلے ضروری ہے کہ سور سے جان چھڑا لی جائے کیونکہ یہ لفظ ایسی کراہت پیدا کر دیتا ہے کہ بحث کا رخ کسی اور جانب مڑ جاتا ہے۔ مگرمچھ کی کھال کے جوتے ہم پہن سکتے ہیں، ریچھ کی کھال سے بنی ہوئی جیکٹ پہن کر اپنے بچے کو لپٹا سکتے ہیں، شیر کی کھال اپنے ڈرائنگ روم کی زینت بنا سکتے ہیں مگر سور کا نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگا لیتے ہیں حالانکہ حرمت کے اعتبار سے یہ تمام جانور ایک ہی جیسے ہیں، سب ہی حرام ہیں۔

اسی لیے بہتر ہے کہ کچھ اور فرض کیا جائے۔ سو فرض کرتے ہیں کہ کسی جوڑے کے ہاں دس سال بعد بڑی منتوں مرادوں سے بچہ پیدا ہوتا ہے، بچہ بے حد پیارا ہے، والدین خوشی سے پاگل ہو جاتے ہیں، دادا اور دادی کو نئی زندگی مل جاتی ہے، یہ بچہ ان کی آنکھوں کا تارا بن جاتا ہے، مگر کچھ عرصے بعد پتا چلتا ہے کہ بچے کے دل میں سوراخ ہے اور اس کی جان بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اسے کوئی نیا دل لگا دیا جائے۔ ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ سائنسی ترقی کی وجہ سے ممکن ہے کہ بچے کو کسی شیر کے بچے کا دل لگا دیا جائے۔

والدین فوراً اس آپریشن کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور بچے کو شیر کا دل لگا دیا جاتا ہے، بچے کی جان بچ جاتی اور سب ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ اس صورت میں بھی کیا اسی کراہت کا اظہار کیا جائے گا جو ایک انسان کو سور کا دل لگانے پر کیا جا رہا ہے؟ یا اس بچے کے والدین فخریہ اسے گود میں اچھال کر کہتے پھریں گے کہ یہ تو شیر کا بچہ ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ میرے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں۔ میں تو صرف محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوتی جا رہی ہے، یہ تمام واقعات ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہے ہیں مگر ہم سے ہضم نہیں ہو رہے، اندازہ لگائیں کہ آج سے سو دو سو سال بعد سائنس نہ جانے ہمارے ساتھ کیا کرے گی۔ فی الحال تو CR آئی ایس پی آر ٹیکنالوجی اس قابل نہیں ہوئی کہ انسان کے جنیاتی نظام میں وہ جوہری تبدیلی کر سکے جس کی مدد سے ذہین فطین اور customisedبچے پیدا کیے جا سکیں لیکن اس ٹیکنالوجی کی مدد سے سائنس دانوں نے جنیاتی تدوین کو ضرور ممکن بنا دیا ہے۔

آسان الفاظ میں یوں کہیے کہ جینز میں خرابی کی وجہ سے جو بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اب ان بیماریوں کو جینز کی ایڈیٹنگ کی بدولت روکا جا سکتا ہے۔ فرض کریں کہ کسی انسان کو سرطان ہو جائے اور اس کا علاج اس جنیاتی تدوین کے عمل سے ہی ممکن ہو مگر علاج کرنے والا پرلے درجے کا ملحد ہو جس کے سینے میں سور کا دل ہو تو کیا ایک صالح مسلمان کو اس سے علاج کروانا چاہیے؟

کل کو اگر سائنس نے کسی نابینا کو بھیڑیے کی آنکھیں لگا دیں اور وہ انسان دیکھنے کے قابل ہو گیا تو کیا اس صورت میں بھی وہی دلائل کار آمد ہوں گے جو سور کے دل کے سلسلے میں دیے جا رہے ہیں؟ ان باتوں سے یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ میں سور کے دل لگوانے کے عمل کو درست سمجھ رہا ہوں، میں بھی برادرم خورشید ندیم کی طرح پریشان ہوں کہ اگر سائنس اسی طرح دندناتی رہی، اور یقیناً ً ایسا ہی ہو گا کیونکہ سائنسی عمل کو روکنا نا ممکن ہے، تو پھر کون سا علم الکلام ان سوالوں کا جواب دے گا!

اس پورے معاملے میں ایک بات بے حد دلچسپ ہے کہ انسانی جسم نے کس سہولت کے ساتھ سور کے دل کو قبول کر لیا ہے۔ گویا تمام جانوروں میں سے سور ہی ملا جس کا ملاپ انسان کے ساتھ آسانی سے ممکن ہوا۔ تاہم مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ اس جراحی پر اتنی حیرانی کا اظہار کیوں کیا جا رہا ہے۔ میں کم از کم ڈیڑھ درجن انسانوں کو جانتا ہوں جو سراپا سور ہیں مگر بظاہر انسان لگتے ہیں۔ ان کے دل تو کیا دماغ اور دیگر اعضا اور حرکتیں بھی بالکل اس مکروہ جانور جیسی ہیں۔

ایسے میں اگر کسی شریف آدمی نے جان بچانے کے لیے صرف دل تبدیل کروا لیا تو کون سی قیامت آ گئی۔ داغ دہلوی کا شعر ہے ’تمہارا دل مرے دل کے برابر ہو نہیں سکتا، وہ شیشہ ہو نہیں سکتا یہ پھر ہو نہیں سکتا۔‘ اگر داغ کی محبوبہ کا دل سور کا ہوتا تو یقیناً ً یہ شعر سننے کے بعد اس نے بریک اپ کرلینا تھا! اخلاقیات کا تو پتا نہیں، لیکن شاعری اب بدلنی پڑے گی۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 487 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments