ایک مولوی کا اعتراف جرم


\"uzairجج: گواہوں کے بیانات اور تمام شواہد کی روشنی میں یہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ آپ جرم کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس جرم کی پاداش میں آپ کو عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔ آپ اپنی صفائی میں کچھ کہنا پسند کریں گے؟

مولوی: میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے کچھ کہنے کا موقع دیا۔ ایک بات میں واضح کر دوں کہ میں ان تمام الزامات کو قبول کرتا ہوں جو مجھ پر ثابت ہوئے۔ اس کے علاوہ میں ان الزامات کو بھی قبول کرتا ہوں جو آپ کی معزز عدالت مجھ پر ثابت نہ کر سکی۔

اس لئے اب جو میں کہنے والا ہوں اس کوخدارا میری صفائی نہ سمجھا جائے۔ مجھے آپ کی دی ہوئی ہر سزا بھی منظور ہے۔ بس سمجھیے میں اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہوں۔ ایک غبار سا ہے برسوں سے میرے دل پر اس کو جھاڑنا چاہتا ہوں شاید میرے بعد کے آنے والے میرے جیسےلوگوں کا کچھ بھلا ہوجائے۔

جج صاحب آپکے علم میں ہوگا کہ کسی زمانے میں مولوی کی بڑی عزت ہوا کرتی تھی۔ ہوتی بھی کیوں نا۔ کیونکہ اسلامی قانون کے ماہر کو مولوی کہا کرتے تھے۔ اور یہی وجہ ہے کہ پچھلے دور میں آپ کے عدالتی نظام میں بھی کام کرنے والے بہت سے وکلا اپنے نام کے ساتھ مولوی لکھا کرتے تھے۔ حالانکہ وہ کسی مذہبی ادارے سے فارغ التحصیل نہیں تھے۔ اور اب یہ دور آ گیا ہے کہ ہر جگہ ہمارا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔ طرح طرح کے لطیفے ہمارے بارے میں زبان زد عام ہیں۔ اور تو اور سوشل میڈیا پر ’مولبی‘ ، ’مولوی چُرا‘ ، ’بھینسا‘ وغیرہ کے نام سے بہت سارے پیج بنے ہوئے ہیں جہاں پر لوگ مختلف طریقوں سے ہم سے نفرت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ میں یہ مانتا ہوں کہ اس نفرت کے کافی حد تک ہم خود ذمہ دار ہیں۔ لیکن کیا کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آخر میں یا میرے جیسے اور میرے ساتھی ایسےکیوں بن گئے ہوں۔ حضور آپ کا تعلق تو سائنسی اندازِ فکر اپنانے والے طبقے سے ہے۔آپ تو سنا ہے کہ علت اور معلول کے نظریے کے قائل ہیں آپ تو ہر نتیجے کے پیچھے وجہ ضرور ڈھونڈتے ہیں۔ گستاخی معاف لیکن آپ سمیت کسی بھی سائنسی فکر کے دعوے دارفرد نے وجہ ڈھونڈنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔

آپ کی اجازت ہو تو میں اپنی ناقص رائے کے مطابق کچھ وجوہات بتانا چاھتا ہوں۔

سب سے بڑا ظلم اس نظام نے، جس کے تحت آپ کا عدالتی نظام بھی چلتا ہے، یہ کیا کہ تعلیم کو روزگار کے ساتھ نتھی کردیا ۔ جس کی وجہ سے تعلیم ایک کاروبار بنا۔ لو گ ظاہر ہے کہ معاشرے کی متعین کردہ ڈگر پر چلتے ہیں۔ اس لئے لوگوں نے علم کی خاطر علم حاصل کرنے کی بجائے روزگار کی خاطر علم حاصل کرنا شروع کیا۔ اور اس کے لئے ہر جائز اور ناجائز طریقے استعمال ہونا شروع ہو گئے۔ یہاں تک کہ ایک صوبے کے سربراہ کو یہ بھی کہنا پڑا کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو چاہے نقلی۔ چلیں میں آپ کی بات مان لیتا ہوں کہ کسی بھی کام کے لئے مطلوبہ مہارت درکار ہوتی ہے۔ اور پوری دنیا میں کسی بھی کام کرنے کے لئے درکار مطلوبہ مہارت اس شعبے کی تعلیم سے آتی ہے۔ اور کام کے معیار کے مطابق اجرتیں طے ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے اب دنیا کی مخالف سمت میں چلنا بھی تو بیوقوفی ہے۔

دنیا میں ترقی یافتہ اقوام سماجی علوم پر فوکس کرتی ہیں اور اپنی ضروریات کے مطابق سماجی ماہرین پیدا کرتی ہیں۔ جس سے آگے سماجی ادارے وجود میں آتے ہیں اور پھر وہی ادارے سائنسی علوم کو ترقی دیتے ہیں اور سماج میں سائنسی ماہرین کے لئے عملی میدان کو تشکیل دیتے ہیں۔ تاکہ ان کی سائنسی مہارتوں سے فائدہ حاصل کرکے سماج کو ترقی کی نئی بلندیوں پر پہنچایا جائے۔ ہمارے ہاں یہ گنگا الٹی بہتی ہے۔ سماجی علوم پر کوئی توجہ نہیں اس لئے سماجی اداروں کا حال آپ کے سامنے ہے۔ جس کی وجہ سے سائنسی تعلیم کی حالت بھی ابتر ہے۔ مذہب چونکہ ہمارے معاشرے کی ایک ٹھوس حقیقت ہے اور اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے مذہبی تعلیم بھی سماجی علوم کا ایک اہم حصہ ہے۔

باقی سماجی علوم کا حال بھی کچھ خاص نہیں لیکن جو ظلم ہمارے ساتھ ہوا اس کا اندازہ شاید بہت سارے لوگوں کو نہیں ہوگا۔ معاشیات کے قانونِ طلب اور رسد کے مطابق بازار کا کاروبار چلتا ہے۔ روزگار کو آپ کے نظام نے عصری تعلیم کے ساتھ منسلک کردیا۔ اور عصری اداروں کی سرپرستی بھی کم یا زیادہ اسی نظام نے کی۔ جہاں تک ہماری تعلیم کا تعلق ہے۔ تو نہ تو اسے سرپرستی مل سکی اور نہ ہی ہماری تعلیم روزگار کمانے کا ذریعہ بنی۔ جس کی وجہ سے مذہبی تعلیم معاشرے میں فیل ہوگئی۔ عصری علوم کی طلب ایسے بڑھی کہ لوگ اپنی حیثیت سے بھی بڑھ کر فیسیں دینے کو تیار ہوگئے۔ اور معاشرے کا ذہین طبقہ عصری تعلیم کی طرف راغب ہوگیا۔ حضورِ والا میرا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے۔ میرا باپ محنت مزدوری کرتا تھا۔ میرا بڑا بھائی ذہنی لحاظ سے مجھ سے بہتر تھا اس لئے اپنا پیٹ کاٹ کر اسے شہر کے ایک پرائیویٹ سکول میں داخل کرایا گیا۔ میرے باپ کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ مجھے بھی سکول میں داخل کراتے۔ اس لئے مجھے گاوں کے مدرسے میں ڈالا گیا۔ اللہ جنت نصیب کرے میرا باپ مجھ سے کہتا تھا کہ تو تو ہمارے لئے جنت کا سبب بنے گا۔ ہمارے قاری صاحب کوئی فیس نہیں لیتے تھے۔ کھانا پینا بھی وافر مقدار میں مل جاتا تھا۔ اس سے زیادہ اور کیا چاہیے تھا۔ میرا گھر اور یہ سماج میری فکر کرنے سے آزاد ہوگیا۔ میں اور میرے کچھ ساتھی ٹوکریاں اور بالٹیاں اٹھائے صبح شام گھر گھر جاتے اور قاری صاحب اور مدرسے کے باقی طلبہ کے لئے روٹی اور سالن اکھٹا کرتے۔ کبھی کبھار ڈانٹ بھی پڑھ جاتی تھی لیکن کھانا وافر مقدار میں مل جاتا۔ لیکن اس سے ایک بہت بڑا نقصان ہوا جج صاحب کہ بچپن سے مانگتے مانگتے ہماری عزتِ نفس مجروح ہوگئی۔ مدرسہ بھی گاوں کے چودھری صاحب نے بنا کر دیا تھا۔ قاری صاحب کہتے تھے کہ چودھری صاحب ہی کی وجہ سے ہمارا دانہ پانی چل رہا ہے۔ اس لئے ان کی بہت عزت کیا کرو۔ قاری صاحب ویسے تو جمعہ کے خطبے میں ہر کسی کے خلاف کچھ نہ کچھ ضرور بول دیتے لیکن مجال ہے کہ چودھری صاحب کے خلاف ایک لفظ بھی نکالتے ہوں۔ نکالتے بھی کیسے، محسن جو تھے ہمارے۔ مدرسے کی تعلیم سے فارغ ہوکر روزگار کی کوئی صورت نہ نکلی تو ہم بھی کسی چودھری صاحب کی تلاش میں نکلے۔ تاکہ ہمارا بھی دانہ پانی بحال ہو جائےکہیں۔ اس سے ہم پر یہ اثر پڑا کہ کسی بھی سرمایہ دار کے خلاف زبان کھولنا مشکل ہوگیا۔ بلکہ ان کے ہر فعل کے لئے ہم جواز فراہم کرنے لگے۔ کیونکہ صاحب آپ کو تو معلوم ہے کہ سماجی اور معاشی طور پر غلام انسان کی کیا رائے ہوسکتی ہے۔ اور پھر ایسے حالات میں کون عقلمند اپنی روزی پہ لات مارتا ہے۔ اس سے ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ لوگ مذہب کو سرمایہ داروں کا محافظ سمجھنے لگے۔

جج صاحب آپ کی اجازت سے ایک اور بات کہنا چاھتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ کا وقت قیمتی ہے لیکن میری گزارش ہے کہ مجھے اپنا بوجھ ہلکا کرنے دیجیئے۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہم اہلِ تشیع کو اپنا بھائی سمجھتے تھے۔ اور وہ ہمیں۔ ہم گلی محلوں میں ساتھ ساتھ کھیلتے ایک دوسرے کے گھر جاتے، نیازیں کھاتے۔ پھر اچانک پتہ نہیں کیا ہوا کہ پورے ملک میں کافر کافر کا کھیل شروع ہوا۔ ہمارے مدرسے کے قاری صاحب اور پاس کی امام بارگاہ کے علامہ صاحب کے کچے گھر پکی اینٹوں کےگھروں میں تبدیل ہو گئے۔ ہم نے بھی قاری صاحب کی معیت میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ قدرت کیسوں کیسوں پر مہربان ہوتی ہے۔ اور مدد نے آنا ہو تو کہاں کہاں سے آجاتی ہے اس کے بعد ہمارے قاری صاحب اورامام بارگاہ کے علامہ صاحب کے تیور بدلنے لگے۔ قاری صاحب نے ہم سے توبہ کرائی کہ خبردار آئیندہ کسی شیعہ لڑکے کیساتھ کھیلے کودے۔ یہی بات ہمارے شیعہ دوستوں کو بھی ان کے علامہ صاحب نے سمجھائی تھی۔ تب سے ہماری دوستی دشمنی میں تبدیل ہوگئی۔

اس کے بعد نجانے کیوں روس سے ہمارے اسلام کو شدید خطرہ لاحق ہوا۔ ہمیں جہاد کے نام پر مسلح تربیت دی گئی۔ پہلی مرتبہ جب میں نے راکٹ لانچر چلانا سیکھا تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ کہ میرے جیسا ناکارہ پرزہ جسے زندگی کے ہر موڑ پر دھتکار ملی ہے۔ اتنا کارآمد ہے کہ راکٹ لانچر بھی چلا سکتا ہے۔ اس کے بعد تو یوریا کھاد جیسی بے ضرر چیز سے وہ بم بنانا سیکھے کہ آپ کی یونیورسٹی کا انجنیئر بھی دنگ رہ جائے۔ یہ سب عرب مجاہدین کی دین ہے۔ حضور عرب بہت اچھے لوگ ہیں انھوں نے ہمارے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ حالانکہ روس تو ان کے گرم پانیوں تک بھی نہیں پہنچنا چاہتا تھا۔ امریکہ نے بھی ہمارے مردِ مومن کو کہہ دیا تھا کہ ڈالرز اور اسلحے کی فکر نہ کرو۔ ہم اور آپ تو خدا کے ماننے والے ہیں۔ بس خدا کے منکر روس کا کام تمام کرنا ہے۔ روس بھی ختم ہوا لیکن جہاد جیسے مقدس فریضے کے نام پر ہماری مسلح جدوجہد کے لئے نئے نئے محاذ کھلتے گئے۔ اور امریکہ اور سعودیہ سے نصرت بھی برابر جاری رہی۔آج میں سوچتا ہوں کہ بغیر کسی مقصد کے تو کوئی کسی کی آنکھ میں کچھ پڑ جائے، وہ بھی نہیں نکالتا پتہ نہیں امریکہ اور سعودی عرب ہم پر کیوں اتنے مہربان تھے۔ اور آج ایسا کیا ہوا کہ اتنے ناراض ہوگئے کہ ہم اچانک مجاہد سے دہشت گرد بن گئے۔ اور نجانے کیوں ہمارے سب سے بڑے دشمن ہندوستان کے دوست بن گئے ہیں اور اتنے گہرے کہ ہندو مودی کے ساتھ عرب خواتین کی سیلفیوں پر بھی عربوں کوکوئی اعتراض نہیں۔ اور نہ ہی انکے سخت گیر مفتیوں کی طرف سے کوئی فتویٰ آیا ہے۔ اور تو اور ہماری برادری کے کچھ لوگ جو کشمیر کو ہندووں کی مرمت کرکے آزاد کرانا چاہتے ہیں، وہ بھی خاموش ہیں۔

صاحب ہم تو ان پڑھ جاہل ہیں لیکن آپ کے نظام کے پڑھے لکھے اربابِ اختیار نے بھی ہمیں نہیں روکا بلکہ الٹا ہمیں تھپکیاں دیتے تھے کہ ماشااللہ دین کی بڑی خدمت ہو رہی ہے۔

ایک گلہ مجھے اپنے سیکولر دوستوں سے بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ میں مانتا ہوں کہ ہم شدت پسند ہیں اور اس کی وجوہات بھی میں بیان کر چکا ہوں آپکے سامنے۔ لیکن یہ دوست تو ایسے حالات سے دوچار نہیں ہوئے۔ انکو تو اچھا ماحول اور اچھی تعلیم ملی۔ انکو تو ہم سے ہمدردی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ لیکن یہ بھی ہماری طرح دوسری انتہا کے شدت پسند ہیں۔ یہ بھی ہمارا تمسخر اڑانے، ہمیں گالیاں دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

ا س کے علاوہ ایک گلہ مجھے اپنے اشتراکیت پسند دوستوں سے بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ آپ دوست تو ماشااللہ پسے ہوئے طبقات کی بات کرتے ہیں۔ یقیں مانیے کہ میرا اور میرے جیسے کروڑوں دوستوں کا تعلق اسی پسے ہوئے طبقے سے ہے۔ جن کے گھر میں آج بھی دو وقت کے لئے چولہا نہیں جلتا۔ ٹھیک ہے ہم میں بھی کچھ لوگ ہیں جنھوں نے بڑی بڑی جائیدادیں بنائی۔ لیکن خدارا سب کو ایک آنکھ سے دیکھنا بند کریں ۔ ہمارے حق میں آواز اٹھانا تو درکنار، آپ تو ہمارے مذہب کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ جو کہ ہم سے بھی برداشت نہیں ہوتا۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہماری وجہ سے ہمارا مذہب بدنام ہو رہا ہے۔

جج صاحب آخر میں آپ کی عدالت کی وساطت سے اتنا کہنا چاہتا ہوں۔ کہ کیا صرف ہم گنہگار ہیں یا اس گناہ میں یہ نظام یہ سماج بھی پورا کا پورا شریک ہے۔ کیا اس گناہ میں صرف مجھے یا میرے جیسے میرے بھائیوں کو سزا ہوگی یا اس نطام کو بھی ہوگی۔ کیا ہمارے وہ مذہبی رہنما جنہوں نے ہمیں اس آگ میں جھونک دیا تھا ان پر بھی کوئی کیس چلے گا یا ہم جیسوں کو سزا دے کر ملک کے وسیع تر مفاد کی خاطر ان کو بغلگیر کر لیا جائے گا۔ چلیں مان لیتے ہیں آپ بھی مجبور ہیں اسی نظام کا حصہ ہیں۔ ان کو سزا نہیں دے سکتےتو کوئی مسئلہ نہیں لیکن آپ اس نظام کو اتنا تو کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں بھی لکھنے پڑھنے کا اتنا ہی حق دیا جائے۔ جتنا باقی لوگوں کو حاصل ہے۔ ہماری بھی سرپرستی کی جائے تاکہ ہمارا کوئی بھائی آئندہ سیدھی راہ سے بھٹکے نا۔ ہمیں بھی جینے کا حق دیا جائے، روزگار کے مواقع دیے جائیں تاکہ ہمارے اندر بھی قومی سوچ پیدا ہو اور ہم بھی اس معاشرے کی کوئی خدمت کر سکیں۔ یقین مانیں جج صاحب اس ملک کے غریب آپ کے اگلے کئی جنموں کے لئے دعا مانگیں گے۔ نہیں تو ان پھانسیوں، ان اپریشنوں سے کوئی خاطر خواہ نتائج کی امید نہ رکھیں۔ کیونکہ پسے ہوئے طبقات ایندھن کی مانند ہوتے ہیں اور ایندھن کی اس ملک میں کوئی کمی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments