چودہ برس بعد بھی – دو جنازے اور دو بیٹوں کی شرکت سے محرومی


جمعہ کی شام، بیگم کلثوم نواز کو اپنے سسر، میاں محمد شریف مرحوم کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اللہ ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ ان کے درجات بلند کرئے۔ ان کے پیاروں کو صبر دے۔ چودہ برس قبل، اس چھوٹے سے قطعہ اراضی میں میاں محمد شریف کی پہلی قبر بنی تو ان کے بیٹے ایک ڈکٹیٹر کی زنجیر رعونت میں جکڑے، کوسوں دور پڑے تھے۔ چودہ برس بعد بیگم کلثوم نواز کا جسد خاکی قبر میں اتارا جا رہا تھا تو ان کے بیٹے، جمہوریت اور عدل کی طلائی بیڑیوں میں جکڑے، سات سمندر پار پڑے تھے۔ یہاں کچھ نہیں بدلا۔

میں نے کوئی تینتیس برس قبل اپنے باپ کو موت کی آغوش میں جاتے دیکھا۔ گیارہ سال پہلے اپنی ماں کی موت کا ایسا زخم کھایا کہ اس سے آج بھی لہو رستا ہے۔ مجھے سردیوں کی وہ بوجھل اور دلگرفتہ سی شام آج بھی یاد ہے جب ہم نے اپنی ماں کو قبر میں اتارا تھا۔ میں دیر تک مٹی کے ڈھیر کے سرہانے بیٹھا رہا تھا۔ میرے آس پاس بیسیوں لوگ تھے لیکن میں لق و دق صحرا کی دہکتی ریت پر برہنہ پا کھڑ اتھا۔ یکا و تنہا۔ ماں دیکھتے دیکھتے بہت دور چلی گئی تھی۔

آج بھی جب میں اس گھر میں جاتا ہوں جہاں ماں نے زندگی کا بیشتر وقت گزارا اور جہاں سے اس کا تابوت اٹھا تو میں خود کو ایسے بے وزن محسوس کرنے لگتا ہوں جیسے خلا میں ہوں۔ بہن مجھ سے چھوٹی ہے۔ شاید اس گھر کے در و دیوار کا اثر ہے کہ اس نے ممتا کی وراثت سنبھال لی ہے۔ ماں کی سی شفقت و محبت سے ملتی ہے۔ میں اسے یا کسی اور کو احساس دلائے بغیر اس چارپائی پر لیٹ جاتا ہوں جہاں ہمیشہ ماں لیٹا اور سویا کرتی تھی۔ میں نے نہ جانے کتنے کالم ماں کی پائنتی، ان کے پاوں سے لگ کر بیٹھے لکھے۔ میں بستر کی دھیمی دھیمی حرارت میں ماں کے ہاتھ کا لمس محسوس کرتا ہوں۔ اور جب اٹھ کر جانے لگتا ہوں تودیوار جاں جیسے ٹوٹنے لگتی ہے۔ بہن مجھے چھوڑنے گلی کے دروازے تک آتی ہے لیکن مجھے کبھی پیچھے پلٹ کر دیکھنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔

پھر میں نے بھائی کی موت دیکھی۔ وہ عمر میں مجھ سے بہت چھوٹا تھا۔ ماں مری تو وہ ہر روز اس کی قبر پہ جا بیٹھتا۔ پھر اس نے سامان سمیٹا اور اسی قبرستان میں، ماں باپ کی قبروں سے ذرا ہٹ کے مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔ موت کا وار بڑا کاری ہوتا ہے۔ بچھڑ جانے والوں کا دکھ گیلی لکڑی کی طرح سلگتا ہی رہتا ہے۔ پھر ہر موت کے ساتھ کوئی نہ کوئی کہانی جڑی ہوتی ہے۔ کبھی کوئی کہانی حرف تسلی بن کر دل کے زخموں پر مرہم رکھتی ہے اورکبھی کوئی کہانی آخری سانس تک کانٹا سا بن کر دل میں کھٹکتی رہتی ہے۔

وہ نوجوان مجھے اکثر یاد آتا ہے جس کی والدہ کے انتقال پر میں فاتحہ پڑھنے گیا تو وہ زار و قطار رونے لگا۔ ماں کی موت سے کہیں زیادہ اسے اس بات کا غم تھا کہ وہ تلاش رزق میں ملک سے باہر کیوں چلا گیا تھا۔ ”سر کتنا بد نصیب ہوں میں۔ ماں نے آخری سانس لی تو میں اس کے سرہانے نہ تھا۔ میں یہاں مزدوری کر لیتا۔ روکھی سوکھی کھا لیتا۔ فاقے کر لیتا۔ ۔ ۔ “ وہ پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ موت بھول بھی جائے تو کہانیاں نہیں بھولتیں۔

سیاست دان بہت برے ہوتے ہیں۔ کرپٹ، بد عنوان، چور، ڈاکو، غدار، سکیورٹی رسک۔ لیکن وہ بہر حال گوشت پوست کے انسان ہوتے ہیں۔ ان کی رگوں میں بھی لہو دوڑتا اور ان کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے۔ ایسی سب برائیاں، ساری خرابیاں، تمام غلط کاریاں ان کے ساتھ نتھی کر دیں جن کا تصور کیا جا سکتا ہے، لیکن وہ انسان تو ہوتے ہیں۔ اور ایسا بھی نہیں کہ بے مہار طاقت اور بے پناہ قوت و حشمت کے سارے پیکر اتنے معصوم و پاکباز ہیں کہ ان کے لباس سے فرشتوں کے پروں کی مہک آتی ہے۔ کبھی کوئی میزان عدل سجے، کھوٹے کھرے کی سچی پہچان رکھنے والی عدالت لگے تو پتہ چلے کہ کون کیا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں مٹی کے سارے قرض سیاستدانوں ہی نے چکائے۔ وہ بھی جو، ان پہ واجب بھی نہ تھے۔

جمعہ کی سہ پہر، میں بیگم کلثوم کی نماز جنارہ میں شریک، حد نظر تک پھیلے مجمع کو دیکھ رہا تھا۔ ان گنت مانوس چہرے دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن میری نگاہیں ان دو چہروں کو تلاش کر رہی تھیں جو شمال مغربی یورپ کے ایک جزیرے میں قید ہو کر رہ گئے تھے۔ حسن اور حسین، ہمیشہ کو رخصت ہو جانے والی ماں کے بیٹے تھے۔ ان کے جرائم کی فہرست کافی طویل تھی۔ لیکن ان کا سب سے بڑا، نا قابل معافی جرم یہ تھا کہ وہ محمد نواز شریف نامی شخص کے بیٹے تھے۔ ایمبولنس میں رکھے تابوت میں سوئی ماں کی روح کو بھی یقینا ان کی تلاش ہو گی۔

کوئی چودہ برس قبل، اکتوبر 2004 میں، خاندان کے بزرگ، میاں محمد شریف کا انتقال ہوا تو خاندان جدہ میں جلا وطنی کے روز و شب گزار رہا تھا۔ پاکستان بے ننگ و نام ڈکٹیٹر کی گرفت میں تھا۔ ہر آئین شکن ڈکٹیٹر کی طرح اسے بھی ڈر تھا کہ نواز شریف وطن آگیا تو اس کا قلعہ محفوظ نہیں رہے گا۔ خدمت شعار بیٹوں کی آزرو تھی کہ وہ باپ کی میت لے کر پاکستان آئیں۔ اس کے تابوت کو کندھا دیں۔ اس کے جسد خاکی کو قبر میں اتاریں۔ پاکستان کی مٹی اور ہوا سے رنگ و بو پانے والے سرخ گلابوں کی چادر چڑھائیں۔

سعودی عرب میں متعین پاکستانی سفیر، ایڈمرل (ر) عبدلعزیز نے، مشرف سے ہدایات لیں۔ وہ سرور پیلس پہنچے۔ تعزیت کی۔ نواز شریف نے کہا۔ ”ہم والد صاحب کی میت کے ساتھ وطن جانا چاہتے ہیں۔ انہیں سپرد خاک کر کے پاکستان سے آجائیں گے“۔ شریف النفس سفیر نے شرمسار سے لہجے میں کہا۔ ”حکومت پاکستان نے مجھے اطلاع دی ہے کہ آپ، شہباز شریف اور بیگم کلثوم پاکستان نہیں آسکتے“۔ سب کچھ خندہ پیشانی سے برداشت کر لینے اور عرضیاں گزارنے سے گریز کرنے والے نوا ز شریف نے کہا۔ ”براہ کرم آپ مشرف صاحب سے بات کریں۔ انہیں کہیں کہ وہ انسانیت کے ناطے فراخ دلی کا مظاہرہ کریں۔ خدارا ایسی روایتیں نہ ڈالیں“۔ ایڈمرل نے معذوری ظاہر کی اور چلے گئے۔

پھر بھی غم گسار خاندان پورا دن منتظر رہا کہ شاید پتھر کے دل پگھل جائیں لیکن اندھی طاقت اور رعونت کے خمیر میں گندھی آمریت میں لچک پیدا نہ ہوئی۔ سعودی حکام نے پوچھا۔ ”اسلام آباد سے کیا اطلاع آئی۔ خادم الحرمین کا خصوصی طیارہ آپ کے لئے تیار ہے“۔ انہیں بتا دیا گیا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ”اسلام آباد“ پر ایک ایسا شخص قابض ہے جو اسلام کی انسانی اقدار سے نا آشنا ہے اور جسے رحمت دو عالم ﷺ کے اس ارشاد گرامی کی بھی کوئی خبر نہیں کہ ”ایمان، تحمل اور فراخدلی کا نام ہے“۔

میاں محمد شریف کے بیٹوں، پوتوں، اہلیہ، بیگم کلثوم نواز اور خاندان کے دیگر افراد نے حرم کعبہ میں تہجد کی نماز ادا کی۔ اللہ کے گھر کا طواف کیا۔ مسافر کی میت خانہ کعبہ کی دیوار کے ساتھ رکھ دی گئی۔ رمضان کا مہینہ تھا اور صحن حرم زائرین سے چھلک رہا تھا۔ فجر کی نماز کے بعد امام کعبہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور پھر اس کے چاہنے والے اس کے سفید رنگ تابوت کو پاکستان جانے والے طیارے کے حوالے کر کے اپنی قیام گاہ کو لوٹ گئے۔ لوٹ تو گئے لیکن ان کے دل، ان کے دماغ اور ان کی روحیں، سفید رنگ تابوت سے لپٹی رہیں۔ کم لوگوں کو علم ہے کہ حسین کی معصوم بیٹی، زینب، چار ماہ کی مختصرسی عمر میں چل بسی۔ بوڑھے پڑدادا نے اس کی میت کو گود میں اٹھایا اور جدہ کے قبرستان میں دفنا دیا۔ پاکستان آنا کسی کے لئے ممکن نہ تھا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2