ڈیم فنڈ کو 830 روپے کا جبری عطیہ


اچانک کراچی کا سفر درپیش ہوا تو نظر انتخاب ریل گاڑی پر جا ٹھہری۔ سوچا موقع اچھا ہاتھ آ گیا ہے۔ لگے ہاتھوں پاکستان ریلوے کی کارکردگی کا جائزہ بھی ہو جائے گا اور گرین لائن ٹرین جو پاکستان ریلوے کی بہترین ٹرین تصور کی جاتی ہے، میں سفر کرنے کا شوق بھی پورا ہو جائے گا۔

چونکہ سفر کا منصوبہ یکایک طے پایا تھا چناچہ امکان تھا کہ ایک دن کے نوٹس پر گرین لائن ٹرین کا ٹکٹ نہیں کٹا پائیں گے۔ پھر بھی قسمت آزمانے راولپنڈی اسٹیشن سے تین سو گز کے فاصلے پر موجود ریلوے ریزویشن آفس جا پہنچے اور مطالبہ کیا ایک عدد ٹکٹ کا جو راولپنڈی سے کراچی تک کا ہو۔ بکنگ کاؤنٹر کے عقب میں موجود باحجاب دوشیزہ نے ہماری توقع کے عین مطابق ہمیں مطلع کیا کہ اگلے دن کے لیے راولپنڈی سے کراچی کے لیے کوئی ٹکٹ میسر نہیں ہے۔ قریب تھا کہ مایوس ہو کر ڈائیوو بس یا شاہین ایرویز کا قصد کرتے، ذہن نے کام کیا اور باحجاب دوشیزہ سے دریافت کیا کہ کیا لاہور سے کراچی تک کا ٹکٹ کٹ سکتا ہے؟ دوشیزہ نے کی بورڈ پر مخروطی انگلیاں تھرکائیں اور مژدہ جاں فزا سنایا کہ لاہور سے کراچی تک کا ٹکٹ میسر ہے۔ جھٹ پٹ بغیر سوچے سمجھے ہاں میں سر ہلایا اور کرائے کی مطلوبہ رقم دوشیزہ کو تھمائی اور ٹکٹ کٹا لیا۔

اور یہیں سے شامت اعمال کی پکار کانوں میں پڑی۔ صوتی تاثرات اسی دوشیزہ حجاب یافتہ کے تھے۔ قدرے چونک کر محترمہ کے چہرے کی طرف نظر اٹھائی تو وہ بطور شامت اعمال فرما رہی تھیں کہ آپ گرین لائن ٹرین پر لاہور نہیں جا سکیں گے کیونکہ اس پر گنجائش نہیں ہے لہٰذا آپ اگلے روز بذریعہ سڑک یا فضا ٹرین کے مقررہ وقت یعنی 8:30 بجے رات لاہور کے ریلوے اسٹیشن پہنچ جائیں بصورت دیگر ادارہ ذمہ دار نہ ہوگا۔ اور ہم جو اس گمان میں تھے کہ راولپنڈی سے لاہور تک اسی ٹرین میں بیٹھ کر چلے جائیں گے، بھونچکے رہ گئے۔

راولپنڈی سے کراچی گرین لائن ٹرین کا یک طرفہ کرایہ 5610 روپے ہے۔ ہماری بکنگ چونکہ لاہور سے ہوئی تھی اس لیے لاہور سے کراچی کا کرایہ مبلغ 5200 روپے ہم سے طلب کیا گیا جو سکہ رائج الوقت میں ہم نے ادا کر دیا۔ ابھی ہم اسی ادھیڑ بن میں مبتلا تھے کہ اس ناگہانی اطلاع کو کیسے ہضم کریں کہ دوشیزہ باحجاب نے ہمیں ریلوے اسٹیشن جا کر مزید معلومات لینے اور کسی ”با اثر“ شخصیت سے ملنے کا نادر مگر مفت مشورہ بھی دے ڈالا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں، جھٹ تین سو گز کا فاصلہ طے کیا اور ریلوے اسٹیشن پہنچے۔

معلومات کے کاؤنٹر کے عقب میں دو عدد عمر رسیدہ دکھتی خواتین براجمان تھیں جن میں سے ایک خاتون مسلسل ٹیلی فون پر محو گفتگو دکھائی دیں۔ دوسری خاتون نے ہم پر توجہ کی اور ہمارے مسئلے کو ہمدردانہ انداز سے سن کر وہی حل تجویز کیا جو بکنگ آفس کی دوشیزہ باحجاب نے بتایا تھا کہ بذریعہ سڑک یا پھر ہوائی جہاز سے راولپنڈی تا لاہور سفر کریں اور وقت مقررہ پر ریلوے اسٹیشن پر دستیاب ہوں تاکہ گرین لائن ٹرین ہمارے گراں قدر وجود سے خالی نہ چھوٹے۔ پھر ہماری پریشان صورت دیکھ کر خاتون نے ہمیں ڈیوٹی گارڈ سے مشورہ کرنے کا مشورہ دیا۔

چاروناچار پلیٹ فارم ٹکٹ والے کاؤنٹر پر پہنچے تو وہاں تین عدد گارڈ صاحبان بمع ایک نامعلوم افسر کے موجود اور کسی مسئلے پر شعلہ فشاں تھے۔ ان سے مدعا بیان کیا اور حل طلب کیا۔ نامعلوم افسر نے ہمیں اس داخلی گیٹ سے اندر آنے کی ہدایت کی جو کہ وہاں سے کچھ دور تھا۔ اب یہ تو سب کو معلوم ہے کہ پیاسا ہی کنویں کے پاس جاتا ہے چناچہ ایک چکر کاٹ کر پلیٹ فارم پر پہنچے تو وہاں پر ایک نئی نویلی دلہن کی مانند سجی ریل گاڑی موجود تھی۔

معلوم ہوا کہ شیخ رشید احمد کے دور وزارت کی پہلی نئی ٹرین کا افتتاح ہے جو راولپنڈی سے میانوالی کے روٹ پر براستہ ترنول چلے گی۔ وہاں میڈیا بھی موجود تھا۔ فوراً خوش اخلاق شکل بنا کر نمبر ون نجی چینل کو مختصر انٹرویو ریکارڈ کروایا جو خود ہمیں بھی نہیں معلوم کہ کس موضوع پر تھا۔ وہاں سے فارغ ہو کر ان صاحب کو ڈھونڈنا شروع کیا جنہوں نے اندر آنے کا مشورہ دیا تھا۔
وہ صاحب ایک بڑے سے کمرے میں ایک چھوٹی سی میز کے عقب میں تقریباً گم تھے۔ ان کو مسئلہ بتا کر درخواست کی کہ گرین لائن ٹرین میں ہی راولپنڈی سے لاہور سفر کا بندوبست کر دیا جائے تو مہربانی ہو گی۔ انہوں نے توجہ سے مسئلہ سنا اور اگلے روز یعنی جس دن سفر کرنا تھا، ٹرین کے وقت مقررہ سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے اسٹیشن آنے کی ہدایت کی اور دوبارہ میز کے پیچھے گم ہو گئے۔

اس صورت حال میں مزید واہموں اور وسوسوں نے ذہن کو آ گھیرا کہ اگلے دن اگر گرین لائن ٹرین پر بندوبست نہ ہوا تو مبلغ 5200 روپے بھی ضائع جائیں گے اور سفر بھی کھوٹا ہو گا۔ دل میں کئی بار یہ خیال آیا کہ ٹرین کے چکر کو چھوڑ کر بذریعہ ڈائیوو بس لاہور نکل جایا جائے مگر پھر سوچا کہ ڈائیوو کا 1200 روپے کرایہ خرچ کرنے سے بہتر ہے ٹرین میں ہی قسمت آزمائی جائے۔ اگر یاوری کر جائے تو راولپنڈی سے لاہور تک کا 410 روپے کرایہ ادا کر کے سفر ہو جائے گا۔

اسی مخمصے میں فیصلہ یہ کیا کہ وقت سے کم از کم اڑھائی گھنٹہ پہلے اسٹیشن جا کر قسمت آزمائی جائے چناچہ کل یعنی 15 ستمبر کو پونے ایک بجے ہم اسٹیشن پر موجود تھے۔ اتنا پہلے جانے کا مقصد یہی تھا کہ اگر بات نہ بنی تو بذریعہ ڈائیوو بس لاہور پہنچنے کا وقت مل جائے۔ وہی نامعلوم افسر صاحب اپنے اسی کمرے میں اسی میز کے عقب میں گم تھے۔ ان کے ہمراہ کمرے میں ایک نجی چینل کے نمائندے بھی موجود تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی نامعلوم افسر صاحب اپنی نشست سے اٹھے اور تپاک سے مصافحہ کیا اور بتایا کہ انہوں نے ہمارا مسئلہ حل کر دیا ہے۔ ہمیں مارگلہ ریلوے اسٹیشن سے اپنا راولپنڈی تا لاہور ٹکٹ حاصل کرنا ہو گا جو کہ کٹ چکا ہے۔

اسی وقت پلیٹ فارم پر گرین لائن ٹرین آ رکی۔ نامعلوم افسر صاحب نے ہدایت کی کہ اسی ٹرین پر سوار ہو کر مارگلہ ریلوے اسٹیشن اسلام آباد جائیں اور وہاں سے اپنا ٹکٹ وصول کر لیں۔ اس وقت ہمیں اس ٹکٹ کے ملنے کی اتنی خوشی ہوئی کہ ہم بالکل نہ سمجھ سکے کہ ریلوے نے نہایت صفائی سے ہم سے راولپنڈی سے لاہور کا زائد کرایہ کھرا کر لیا ہے۔ خوشی خوشی جا کر اپنا ٹکٹ لیا جس کی مالیت 1240 روپے تھی اور سامان ڈبے میں قرینہ سے لگا کر اطمینان سے بیٹھ گئے۔

وہ تو جب ریل گاڑی مارگلہ سے راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پہنچی اور پھر وہاں سے لاہور کی جانب روانہ ہوئی اور ہم اپنے کیبن میں تنہا ہی بیٹھے رہ گئے تب ہم تھوڑا گھبرائے کہ ٹرین میں تو ایک سیٹ بھی میسر نہیں تھی لیکن اب ہم اس چھ برتھوں والے کیبن میں کسی مغلیہ شہزادے کی طرح تن تنہا براجمان تھے تو یہ کیا ماجرا ہوا۔ ڈیوٹی گارڈ اور ٹکٹ چیکر سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اس کیبن کی بکنگ لاہور سے ہوتی ہے۔ تب ہمیں سمجھ آئی کہ کس قدر ہوشیاری سے ہمارا راولپینڈی سے کراچی تک 5610 روپے کا کرایہ 6440 روپے میں تبدیل کیا گیا اور یوں ریلوے والوں نے 830 روپے کی زائد آمدن حاصل کی جو وہ یقیناً وزیر اعظم اور چیف جسٹس ڈیم فنڈ میں جمع کروائیں گے۔  خسارے میں چلنے والے ریلوے کے وزیر شیخ رشید نے اپنے محکمے کی جانب سے ڈیم فنڈ کے لیے سالانہ 10 کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ہے۔ وہ غالباً ایسے ہی پورے کیے جائیں گے۔

نوٹ: یہ تحریر ٹرین میں بیٹھے بیٹھے لکھی ہے۔ ابھی ہمارا سفر جاری ہے۔ اس سفر میں بھی دلچسپ تجربات ہوئے جن کی تفصیل آئندہ کسی کالم میں بیان کی جائے گی۔ (از گرین لائن ٹرین بوگی نمبر 3)۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad