”پرانے پاکستان” کے ایک بوسیدہ شہری کی ”متروک” وصیت


میرے بچو! ’پرانے پاکستان‘ کا ایک بوسیدہ شہری، جو اداس نسلوں کے تسلسل کی آخری کڑی ہے، عمر رواں کی بے اعتبار سانسوں کی مالا جپتے جپتے جسے کہولت نے آ لیا ہے۔ نئے پاکستان کے قیام پر تمہیں وصیت کرتا ہے۔ یاد رکھنا کہ تم اس ملک کے شہری ہو جس ملک میں علیل قائداعظمؒ کی ایمبولینس خراب ہو جایا کرتی ہے اور یہاں آئین بنانے والے سولی چڑھ جایا کرتے ہیں جبکہ مقبول عوامی قیادتیں کبھی جلاوطن، کبھی سکیورٹی رسک، کبھی نا اہل اور کبھی سرراہ قتل کر دی جاتی ہیں۔ کبھی نہ بھولنا کہ یہاں کی جمہوریت میں فاطمہ جناح، اعتزاز احسن اور نواب زادہ نصراللہ خان جیسے صدارتی امیدواروں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی اور ’ہار‘ ہی ان کا مقدر ہوتی ہے۔

یاد رکھنا کہ اس پاک سرزمین میں حکیم محمد سعید، صلاح الدین یوسف، حسن ناصر، غلام حیدر وائیں، سلمان تاثیر، مشعل خان اور قطب رند جیسے لوگ تاریک راہوں میں مر جایا کرتے ہیں۔ یہاں ساحر لدھیانوی، جوگندر ناتھ منڈل، ڈاکٹر حمیداللہ، قرۃ العین حیدر، استاد بڑے غلام علی خان، جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر عبدالسلام اور عاطف میاں جیسے لوگ ملک چھوڑ جایا کرتے ہیں۔ جی ایم سیداور ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے لوگوں کو نظربند رکھا جاتا ہے۔

میرے بچو! یہاں اہل اور اہل دل بیوروکریٹ خودکشی کر لیا کرتے ہیں۔ اور دیکھو زندگی میں کبھی بھی با اصول افسر نہ بننا کیونکہ اس مملکت خداداد میں فرض شناس افسروں کو سیاسی مگرمچھوں کے ڈیرے پر حاضرہو کر معافی نہ مانگنے کے جرم میں کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے۔ ہمیشہ خیال میں رہے کہ یہاں شہرخوباں کی مرصع و مسجع شاہراہ دستور پر سولہ سنگھار کیے جھانجھریں چھنکاتے سبز آئین میں آرٹیکل 19 کی شمولیت کے باوجود دستاویزات کو ’مقدس‘ اور اداروں کو ’حساس‘ رکھا جاتا ہے اور جس مملکت میں بعض ادارے ’حساس‘ ہو جائیں وہاں کے عوام ’بے حس‘ہو جایا کرتے ہیں۔ اس دھرتی پر حیدر بخش جتوئی، رسول بخش پلیجو، جام ساقی جیسے انقلابی محکوم عورتوں سے مفلوک بچوں تک سب کو سیاسی بیداری کے دائرے میں لانے کی کوشش میں حاشیوں پر دھکیلے جاتے ہیں۔

فیض احمد فیض، سید سجاد ظہیر، عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری، ولی خان، حسن ناصر، نذیر عباسی، حمید بلوچ، نواب نوروز خان، باچا خان، اکبر بگٹی جیسے لوگوں کو ’غدار‘ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں سید سبط حسن، علی عباس جلالپوری، شوکت صدیقی، سعادت حسن منٹو، ساغر صدیقی، حبیب جالب، شہاب دہلوی، استاد حسین بخش ڈھڈی، جاذب انصاری، پٹھانے خان، ساغر نقوی، ڈاکٹر اخترتاتاری، خاک اوچوی اورجانباز جتوئی جیسے فلسفی، شاعر اور آرٹسٹ کسمپرسی، خستہ حالی اور‘قحط دوا‘ کے ہاتھوں خاموشی سے موت کے گھاٹیوں میں اتر جاتے ہیں۔

اور سلمیٰ فیصل، منظور حسین منظراوچوی، تاج محمد راجپوت، ہمراز سیال اوچوی، موسیٰ سعید اوراستاد سخاوت حسین خان جیسے نابغہ روزگارگم نامی کے صحرا میں جیتے جی مر جاتے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا۔ جان لو کہ اب سے کئی برس بعد لوح تاریخ پر پاکستان کی عظمت مولانا فضل الرحمن، مولانا خادم حسین رضوی اور حافظ سعید احمد سے جلا نہیں پائے گی بلکہ پاکستان استاد عبداللہ خان ملک کی شہنائی، استاد میاں شوکت حسین کے طبلے اوراستاد رئیس خان کے ستار سے پہچانا جائے گا۔

میرے بچو! یہاں ہیڈ راجگاں میں محکمہ جنگلات کے گارڈ پر جاگیردار ٹمبرمافیا کی طرف سے کیے جانے والے غیرانسانی تشدد کے معاملے پر قانون تین سال تک مصلحت کی قبا اوڑھ کر خواب خرگوش کے مزے لیتا ہے اور پھر جھرجھری لے کر جاگتا ہے۔ یہاں ہسپتال میں ’بیمار‘ شرجیل میمن کے کمرے سے شراب کی بوتلوں میں ’شہد‘ نکلتا ہے۔ اور‘ نئے پاکستان‘کے ’معمار‘عالی مرتبت ’خاندانی‘ممبران اسمبلی کے خلاف سرکاری امور میں سیاسی مداخلت کرنے اور من پسند افراد کے تبادلے کروانے پر دباؤ ڈالنے سے متعلق چیف سیکرٹری، عدلیہ اور الیکشن کمیشن کو شکایت کرنے والے‘دو ٹکے کے‘ ڈپٹی کمشنروں کے خلاف پیڈا ایکٹ کے تحت کارروائی کر کے ’تبدیلی ’ پر مہر لگائی جاتی ہے۔

اس سے بڑھ کر اسلامی دور کا نمونہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ نئے پاکستان کی فضاؤں میں ہیلی کاپٹر بھی صرف 55روپے فی کلومیٹر خرچہ کرتے ہوئے اڑنے لگے ہیں۔ جناب وزیر اعظم جب اپنے عالی نسب کتے کے ساتھ بنی گالہ سے ہیلی کاپٹر میں بیٹھتے ہیں تو ان کا سکیورٹی سٹاف تو سڑک کے راستے گاڑیوں میں وزیر اعظم ہاؤس ’یونیورسٹی‘ کی سمت دوڑنے لگتا ہے لیکن ریاست مدینہ کا ورد کرنے والے جناب وزیر اعظم کا کتا ہیلی کاپٹر کے مزے لے رہا ہوتا ہے۔

اے میرے بچو! قائداعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ‘ پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہوگا‘۔ ان کے فرمان پر ہم نے اس طرح عمل کیا کہ نوزائیدہ ریاست کو نظریاتی چولہ پہنا کر اس کو اسلام کی تجربہ گاہ بنا دیا۔ یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ یا مقامات مقدسہ کے متبرک ناموں کو ہوٹلوں، دوکانوں، سکولوں، مدارس اور مساجد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسلام کی اس تجربہ گاہ کے ہر شہر میں تمہیں بسم اللہ ہوٹل، مدینہ کلاتھ ہاؤس، الجنت رابڑی، غزالی کلینک، ابن سینا پبلک سکول اور فارابی کالج جیسی اسلام کی‘ نشانیاں‘ ضرور نظر آئیں گی البتہ اسلام کہیں بھی نظر نہیں آئے گا۔

حسن نثار سچ ہی تو کہتا ہے کہ اسلام کا قلعہ دراصل اسلام کا ’قلع قمع‘ ہے۔ ہمارے دین کی آفاقی تعلیمات میں صفائی کو نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے لیکن جب تم عملی زندگی میں آؤ گے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ ریا کاری، منافقت، قبضہ گیری، چمچہ گیری، جھوٹ، نا انصافی، ظلم، لاقانونیت، رشوت، عصبیت، کفرسازی، منشیات، گدی نشینی اور جہالت سے لے کر گندہ پانی، جعلی دودھ، غلیظ خوراک، گدھوں کے گو شت کی ترسیل تک اسلام کی اس انوکھی تجربہ گاہ میں ’ہاتھ کی صفائی ’ کوہی مکمل ایمان کا درجہ حاصل ہے۔

میرے پیارے بچو! دنیا کے اس عظیم سلامی ملک کی  3.6 فیصدآبادی غیر مسلم اور اقلیت ہے لیکن پورے ملک میں 3.6 فیصد آبادی کا کوئی فرد گریڈ 22 کا آفیسر نہیں۔ یہاں فوج، نیوی، ایئرفورس، پولیس، عدلیہ، پی اے ایس اور فارن سروس کی پہلی قطار میں بھولے سے بھی کوئی غیر مسلم نہیں ملے گا۔ ہمارے ملک کا ہر غیر مسلم انجینئر، ڈاکٹر، آئی ٹی ایکسپرٹ اور سائنس دان ہمارے ہی خوف سے باہر چلا جاتا ہے اور پھر پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھتا۔ گزشتہ 70برسوں میں یہاں غیر مسلموں کی کوئی نئی عبادت گاہ نہیں بنی۔ قیام پاکستان کے وقت یہاں یہودیوں، ہندوؤں اور سکھوں کی جو عبادت گاہیں رہ گئیں ہم مسلمانوں نے ان پر قبضہ کر کے وہاں شاپنگ مال اور ان کے قبرستانوں پرمکانات بنا دیے۔

یہاں اقلیتی لڑکیوں کو زبردستی مسلمان بنا کر ان سے نکاح کیا جاتا ہے۔ ہماری مسلمانی دیکھو کہ اقلیتوں کو جہازوں کا پائلٹ بنا کر جنگوں میں تو جھونکا جا سکتا ہے۔ ان سے علاج تو کرایا جا سکتا ہے لیکن ملک کے مفاد میں اگر ان کو اکنامک ایڈوائزری کونسل کا ممبر بنا کر ان سے مشورے لئے جائیں تو اس قوم کی حمیت و غیرت جاگ اٹھتی ہے۔ سو میری بات غور سے سنواے میرے پیارے بچو! میں چشم تصور سے اس عظیم اسلامی مملکت کے سبزہلالی پرچم کا اقلیتوں کے لئے مخصوص سفید حصہ سکڑتے سکڑتے ختم ہوتے یاخاکم بدہن سرخ رنگ میں ڈھلتے دیکھ رہا ہوں۔ عدم برداشت اور مذہبی ٹھیکیداری سے پاکستانی پرچم کا سفید حصہ ایک ایسی کھڑکی میں تبدیل ہوگیا ہے جہاں جلدیا بدیر ہر اقلیتی شہزاد مسیح اور اس کی حاملہ بیوی شمع کو چھلانگ لگانی پڑتی ہے۔

میرے بچو! زندگی میں کبھی بھی یہ سوچ کر صحافی مت بننا کہ تمہارا دادا اور تمہارا باپ ایک صحافی تھے جو صحافت کو ’پیغمبرانہ پیشہ‘ سمجھتے تھے۔ توجہ سے سنو کہ تمہیں اپنے ہاں کے ’پیغمبرانہ پیشے‘ کا حال سناؤں۔ اب صحافت کی غیر معمولی اہمیت اور حکمرانوں کی مجبوریوں سے فائدے اٹھانے کے لئے اس پیشے میں طرح طرح کے گھس بیٹھئے آ گئے ہیں۔ یہاں کوئی چرب زبان انگوٹھا چھاپ راتوں رات صحافی بن سکتا ہے اور سرکار دربار میں قبول بھی کر لیا جاتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران صحافت قبضہ مافیا کے گھر کی ایسی لونڈی بنی کہ اس مقدس پیشے کی رہی سہی عزت کا جنازہ بھی نکل گیا۔ اس صحافتی قبضہ مافیا کی دیکھا دیکھی یہاں ہر زور آور بوئے سلطانی کی بقا کے لئے کالم نویس اور تجزیہ نگار بن جاتا ہے۔

کسی کاروباری شخص کے پاس اگر کچھ فالتو رقم بچ جاتی ہے تو وہ اخبار نکال لیتا ہے یا پھر حسب توفیق چینل شروع کر کے اس کا ایڈیٹر اور تجزیہ نگار بن جاتا ہے۔ یہاں کالا دھندا کرنے والے، قلم سے آزار بند ڈالنے والے اور گھر میں اپنے بیوی بچوں کے کپڑے ’پریس‘ کرنے والے بغیر کسی ڈگری یا مہارت کے نہایت آسانی سے ’پریس رپورٹر‘ بن جاتے ہیں اور بعدازاں جس کی چاہیں پگڑی اچھالتے پھریں کوئی قانون، کوئی ضابطہ ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ سو کہاں کی صحافت، کہاں کی پیغمبری؟ سو بھوکوں مر جانا لیکن صحافی بن کر انسانی زخموں کی تجارت کبھی بھی مت کرنا۔

میرے بچو! تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ انصاف، قانون اور اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والے اس عظیم اسلامی ملک میں انصاف کے حصول کے لئے انسان کے پاس حضرت نوح علیہ السلام کی عمر، حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر اور قارون کی دولت لازمی ہونی چاہیے۔ کسی ’کافر‘ نے کہا تھا کہ‘ انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے‘لیکن ہمارے اسلام کی اس تجربہ گاہ کی زیریں عدالتوں میں تقریباً 19لاکھ، ہائی کورٹس میں تین لاکھ جبکہ سپریم کورٹ میں 38 ہزار مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ یہاں وکیلوں کی فیسوں کے ساتھ ساتھ عدل کے ایوانوں کی ہر سیڑھی پر کوئی نہ کوئی خرچہ ہے جس کے بغیر آگے نہیں جایا جا سکتا۔

تمہیں اس ملک میں مظہر حسین خواجہ نامی وہ ’خطرناک مجرم‘ تو ضرور ہی یاد ہو گا جو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں 19سال تک قید کی زندگی کابوجھ اٹھاتا رہا اور جو جیل میں ہی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کرطبعی موت مر گیا۔ اس کی وفات کے دو سال بعد عزت مآب عدالت عظمیٰ اسے تمام الزامات سے ’باعزت ’ بری کر دیتی ہے۔ تمہیں اوچ شریف کا وہ غریب سید زادہ حسین جہانیاں بھی نہیں بھولا ہو گا جو گزشتہ 50سال سے عدالتوں کے دھکے کھا رہا ہے مگر اس کی چند ایکڑ اراضی کا کیس حل نہیں پایا، سول کورٹ سے شروع ہونے والا اس کا کیس سپریم کورٹ تک پہنچ کر اب دوبارہ سول کورٹ میں پہنچ چکا ہے۔

اس کا باپ پیشیاں بھگتاتے بھگتاتے دنیا چھوڑ گیا اور اب وہ ہر ماہ 90 کلومیٹر کا سفر طے کر کے سستے اور فوری انصاف کے حصول کا لطف دوبالا کرنے خان پور جاتا ہے۔ تم خوش قسمت ہو کہ‘عہد نثار’ میں زندہ ہو۔ ‘نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں‘ ہم جیسی تیرہ بخت مخلوق کی زندگی ہمیشہ شرمندگی اور درندگی کے درمیان پھنسی رہتی ہے۔ کسی بھی مایوس انسان کے لئے عدالت ہی امید کی آخری کرن ہوتی ہے لیکن یہاں ہمارے قابل احترام منصف مقننہ، مقتدرہ اور سیاست سمیت تمام شعبوں کے اتالیق ہیں اور دہائی دیتے ہیں کہ ہمیں لوک داستانوں کے ’بابا‘ کا افسانوی مقام دیا جائے۔ کاش نئے پاکستان کے فضیلت مآب منصفوں کو وقت ملے کہ وہ باقی اداروں کو ٹھیک کرنے کے بعد اپنے اداروں پر بھی توجہ دے سکیں۔

اور اے میرے بچو! ہمیشہ ذہن میں رکھنا کہ اس ملک میں عام آدمی ایک ایسا ایندھن ہے جسے طاقت ور اوراس سے زیادہ پڑھے لکھے عزیز ہم وطن اپنے وقتی فائدے اور عیاشیوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں غریب آدمی کو کبھی بحیلہ مذہب کبھی بنام وطن لوٹا جاتا ہے اور وہ بھی مذہب اور وطن کی محبت میں خوشی خوشی لٹتا جاتا ہے۔ یہاں یہ صورت حال ہے کہ جب بڑے لوگ لوٹ مار کرکے بیرون ملک جائیدادیں اور بنک اکاؤنٹس بنا رہے ہوتے ہیں۔ اونچی شہ نشینوں والی‘مقدس‘ بارگاہوں سے ہم جیسے عامیوں کو وطن کی محبت کا جھانسہ دے کر کبھی تو ’قرض اتارو، ملک سنوارو‘ اور کبھی ’ڈیم فنڈ‘کے لئے چندہ دینے کا حکم صادر کیا جاتا ہے۔

یہ حقیقت بھی ہمیشہ تمہارے دل و دماغ پر مرقوم رہے کہ پرویز مشرف، عمران شاہ، عامر لیاقت حسین، شرجیل میمن، خاور مانیکا، نصراللہ دریشک، ذوالفقار علی خان، آصف زرداری اور انور مجید جیسی ’اجلی‘ شخصیات ہی پاکستان کا ’حقیقی ’ اور ’روشن‘ چہرہ ہیں، جن کو ’ماں‘ جیسی ریاست اور باپ جیسی حکومت کے ’دامادوں‘ کا درجہ حاصل ہے۔ ورنہ ہم جیسے حرماں نصیب سیاہ مقدر تو محض تاریخ کا‘ چھان بورا‘ ہوتے ہیں۔ محض اپنے معاشروں کا چلتا پھرتا صدقہ۔ ذلتوں کے مارے لوگ۔ نادرا کے جاری کردہ شناختی چیتھڑے سے زیادہ ہماری کوئی اوقات نہیں۔ کوئی حیثیت نہیں۔ لاریب کہ اس دھرتی پر ہماری نسلیں ہی بے نام ونشان ہیں۔ سو اے میرے پیارے بچو! اپنی اوقات کبھی بھی مت بھولنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).