جرمنی میں ننھے بچوں کا والدین کے خلاف احتجاج


ویلیمز ورڈز ورتھ نے بالکل ٹھیک کہا تھا
“Child is the father of man”

ویسے تو یہ کہاوت حالاتِ حاضرہ میں بہت سے معنوں میں درست ہے لیکن یہاں، میری مراد گزشتہ روز ہیمبرگ میں ہونے والے سات سالہ ایمل کے احتجاج سے ہے۔ یہ مظاہرہ ہیمبرگ کی سڑکوں پر ننھے مگر حساس و سمجھدار فرشتوں کی طرف سے اپنے ہی ماں، باپ کے خلاف ریکارڈ کروایا گیا جس میں آج کل کے ایک سنگین المیے کی نشاندہی کی گئی۔ جی ہاں! یہ اعتراض اپنے ننھے کھلونے نظر انداز کر کے موبائل فون پر کھیلنے سے متعلق تھا۔

بد قسمتی سے بہت سے جدید ممالک میں ٹیکنیکل جدت پسندی نے ایسے کئی قابلِ افسوس واقعات سے ملوایا ہے جن میں انسان دوستی سے زیادہ مشینی دوستی کو ترجیح دی جاتی ہے لیکن یہاں ہیمبرگ میں اس مشینی وفاداری کی ننھی نشاندہی، خود والدین کے لیے کئی طرح کے سوالات کھڑے کرتی ہے۔ بحیثیت ایک استاد مجھے کئی سالوں سے بچوں کی تربیت کے حوالے سے والدین تک مختلف پیغامات پہنچانے پڑتے ہیں لیکن میری پریشانی میں، نہ موصول ہونے والا تعلم، مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ ایسے والدین سے اگر قسمت سے ملاقات یا ٹیلیفونک بات چیت ہو بھی جائے تو ان کی حد درجہ بیزاری مجھے حیرت کے سمندر میں ڈال دیتی ہے۔

خیر، استاد کا احترام تو ایک طرف، والدین کا اس طرح کا رویہ، جیسا کہ اُن ننھے بچوں کی طرف سے کہا بھی گیا، سب سے بڑھ کر بچوں میں چڑچڑے پن، جابجا شکایتی انداز، اشتعال انگیزی اور سب سے بڑھ کر مایوسی کو جنم دیتا ہے اور ایسے ممالک میں جہاں زیادہ تر والدین، آدھا دن کام پر گزارتے ہوں، بچوں میں مسلسل خوف، اکیلے پن اور بے اعتمادی کی فضا پیدا کرتا ہے۔ بارہا انٹرنیٹ پر مضحکہ خیز ویڈیوز میری نظروں سے گزری ہیں جن میں ایک شیر خوار گرتے ہوئے یا کسی گھریلو حادثے میں اچانک پھنستا دکھائی دیتا ہے لیکن اُنہیں، ویڈیوز میں موجود مادر محترم، سمارٹ فون میں گُم ہونے کے باعث سنبھال نہیں پاتی۔

مگر گزشتہ روزہ دلچسپ اور سچا مظاہرہ دیکھ کر، مجھے، بلا شُبہ، ورڈز ورتھ کی بات ایک بار پھر سے عملی طور پرمحسوس ہونے لگی ہے، یعنی خوشی اس بات کی ہے کہ آج دنیا میں زیادہ فکر اس بات کے بارے ہے کہ تیسری پیڑھی، معاشرتی رویوں کی لڑی میں اخلاقیات جیسے موتی پرونے سے عاری ہے لیکن ان ننھے فرشتوں کا اپنے بڑوں کو ایسا شفاف آئینہ دکھانا ایک خوشگوار صبح کی طرف اشارہ ہے۔

اس ڈیجیٹل مرض کا کوئی گھریلو اوپائے نہ پا کر بے بس ننھے بچے ہیمبرگ کی سڑکوں پر اس لیے ہی نکل کھڑے ہوئے ہیں کہ شاید تربیت اور توجہ کی عظیم ذمہ داریوں سے خود کو زبردستی بری الزمہ سمجھنے والے مگر سمارٹ ورلڈ کی جدید دوڑ میں خود کو آگے سے آگے لے جانے والے والدین ایک لمحہ رُک کر اس پیغام کی طرف توجہ دیں جو انہیں ان کے اپنے گھر کے اندر موصول نہیں ہو سکا! افسوس اور بے بسی کا کون سا مقام ہے جہاں 7، 8 سالہ بچوں کو اپنے ہی سائبان کو یاد دِلانا پڑے کہ
“ ہمارے ساتھ کھیلیے، سمارٹ فون کے ساتھ نہیں! “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).