پاکستان میں خرد افروزی کے معمار: سید علی عباس جلالپوری



سید علی عباس جلالپوری پاکستان کے بلند پایہ مفکر، فلسفی اور تحریک خرد افروزی کے بانی تھے۔ فلسفیانہ تاریخ میں انہیں پاکستان کا ول ڈیورانٹ کہا جاتا تھا۔ ۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسر بھی رہے۔ فلسفہ، تاریخ فلسفہ، تاریخ اور مذہبیات کے موضوع پر اردو زبان میں چودہ سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی یہ کتابیں پاکستان میں عہد خرد افروزی کی نقیب سمجھی جاتی ہیں۔برصغیر پاک وہند میں انہیں فلسفے کا عظیم محقق سمجھا اور مانا جاتا ہے۔علی عباس جلال پوری کا ننھیالی تعلق ڈنگہ، ضلع گجرات سے اور ددھیال جلالپور شریف ضلع جہلم تھا۔ جلالپور شریف کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس شہر کو سکندر اعظم نے بسایا تھا۔

سید علی عباس کا شجرہ نسب 30 واسطوں سے حضرت علی ابن ابی طالب سے منسلک بتایا جاتا ہے۔ والد کا نام سید سیدن شاہ جو ڈنگہ کی عدالت میں منصف کے عہدے پر فائز تھے۔ ان کا ذاتی کتب خانہ تھا، عربی و فارسی میں مہارت رکھتے تھے۔ سنجیدہ اور کم گو انسان تھے۔ سید علی عباس جلالپوری کی والدہ کا نام فضل بیگم، تھا۔ نہایت مدبر، محنتی اور کم گو خاتون تھیں جس کی وجہ سے گھر کا ماحول پرامن رہتا تھا۔

جلالپوری اپنے گھر کے ماحول کے بارے میں کہتے ہیں کہ “خوش قسمتی سے میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جہاں علم و حکمت کا چرچا تھا۔ ہمارے ہاں کم وبیش تمام ادبی رسائل آتے تھے۔ میں ساتویں جماعت میں تھا کہ بچوں کے رسالے ” پھول” کے ساتھ ساتھ ” ہمایوں” ،”زمانہ” وغیرہ میں چھپے ہوئے افسانے بھی پڑھنے لگا تھا۔ ان کے علاوہ خواجہ حسن نظامی، راشد الخیری اور نذیر احمد دہلوی کی کتابیں بھی میری نظر سے گزرنے لگی تھیں۔ اس زمانے میں ایک دن اپنے کتب خانے کو کھنگالتے ہوئے دو نایاب کتب مرے ہاتھ لگیں جن کے مطالعے نے مجھے دنیا و مافیہا سے بے خبر کر دیا۔ ان میں، ایک ” داستان امیر حمزہ” اور دوسری ” الف لیلیٰ،” تھی۔

عباس جلالپوری نے1931ء میں سندر داس ہائی اسکول ڈنگہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور گورنمنٹ انٹر کالج گجرات میں پڑھنے لگے۔ ان کے مضامین میں فلسفہ، انگریزی تاریخ اور فارسی شامل تھے۔ 1934ء میں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے میں داخلہ لیا۔ ان کے اساتذہ میں مسٹر گیرٹ، مسٹر کھنہ، مسٹر ڈکنسن، مسٹر ھیچ اور جناب احمد شاہ پطرس بخاری شامل تھے۔ “راوی” کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ “مسٹر ھیچ میرے ٹٹوریل گروپ کے انچارج تھے۔ انہوں نے مجھے دنیا کی سو بہترین کتابوں کی فہرست دی جس میں ہر موضوع پر کتابیں شامل تھیں، مجھے عام اور کلاسکی کتاب کا فرق یہاں سے معلوم ہوا”

ابھی کالج میں بی اے کی تعلیم حاصل کررہے تھے کہ والد صاحب انتقال فرماگئے۔بی اے کے بعد تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ مزید برآں ان کے سوتیلے رشتہ داروں کا ان کے ساتھ سلوک ناگفتہ بہ تھا۔ جلالپوری آبائی وطن جلالپور شریف چلے گئے۔ خاندان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز عزیز و اقارب کی کمی نہ تھی مگر وہ دیر تک وعدہ فروا پر بہلائے جاتے رہے، غالباً ان کی لیاقت اور خودداری حسد اور بغض کی بڑی وجہ تھی۔ اسی دوران ان کے بچپن کے استاد خدا بخش کشمیری نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ بی ٹی کا کورس کرکے مدرس کے عہدے پر کام کریں اور سلسلہ حصول علم بھی جاری رکھیں۔ اس مخلصانہ مشورے کو پسند کرتے ہوئے جلالپوری نے45-1944ء میں گورنمنٹ سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے بی ٹی کا کورس کیا۔ دوران تعلیم اپنے مہربان بزرگ سید کرم شاہ کے ہاں مقیم رہے۔ یہاں موسیقی کی محافل بپا رہتی تھیں۔ ایک پنڈت جی سے وائلن بجانا بھی سیکھا۔ راگ ایمن، بھیرویں اور درباری خاص طور پر پسند کرتے تھے۔ ملکہ ترنم نور جہاں اگرچہ اس وقت کم سن تھیں مگر گائیکی میں توجہ جذب کر لیا کرتی تھیں۔ ان کا ذکر انہوں نے اپنے مضمون ” یادوں کے چراغ” میں کیا ہے جو ” فنون” کے ایک شمارے میں اشاعت پزیر ہوا۔ خواجہ خورشیدانور ان کے ہم جماعت تھے۔ جلالپوری اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر وہ فلسفی نہ ہوتے تو موسیقار ہوتے۔

بی ٹی کا کورس کرکے بطور مدرس ملازمت کا آغاز کیا۔ پنڈ دادن خان، چکوال، بھوچھال کلاں اور پنڈی گھیب میں خدمات انجام دیں۔ ان کے خطوط میں وہاں کے حالات کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ خطوط ” مکاتیب علی عباس جلالپوری” کے عنوان سے کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں۔ان کی صاحبزادی پروفیسر لالہ رخ بخاری ہیں جو گوجرانوالہ کے گورنمنٹ کالج میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ جلالپوری کچھ عرصہ انسپکٹر اسکولز بھی رہے۔ 1945ء میں شہزادی بیگم سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ انہوں نے دوران ملازمت 1950ء میں اردو میں ایم اے کیا اور بطور لیکچرار ایمرسن کالج ملتان میں تعینات ہوئے۔ یہاں ایک وسیع لائبریری دامن دل کشا کیے ان کو خوش آمدید کہہ رہی تھی۔ فارسی میں پہلے ہی مہارت حاصل تھی چنانچہ ایم اے فارسی کرنے کا ارادہ کیا اور1954ء میں ایم اے فارسی میں قابل رشک کامیابی حاصل کی جس پر گولڈ میڈل کے حقدار ٹھہرائے گئے لیکن ان کا اصل موضوع فلسفہ تھا۔


مشہور زمانہ فلسفی ول ڈیورانٹ کے ساتھ ان کی خط کتابت بھی رہی۔ ان کی تاریخ کی کتاب شائع ہوئی تو جلالپوری نے ان میں اغلاط کی نشان دہی کی، ول ڈیورانٹ نے ان اغلاط کا جائزہ لیا اور اقرار کیا کہ وہ اگلے ایڈیشن میں ان اغلاط کو درست کر دیں گے۔ اس خط کا عکس ” مکاتب علی عباس جلالپوری” میں دیا گیا ہے۔ 1958ء میں جلالپوری نے فلسفے کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ ان کے ایک امتحانی پرچے کو ہندوستان کے پروفیسروں نے چیک کیا کیونکہ پاکستان میں اس کا کوئی استاد موجود نہ تھا۔ اب وہ ایم اے فلسفہ گولڈ میڈلسٹ تھے۔ میونخ یونیورسٹی جرمنی سے انہیں پی ایچ ڈی کے وظیفے کی پیکش کی گئی ۔ شہزادی بیگم نے بھرپور انداز میں انہیں جانے کے لیے مجبور کیا مگر بیوہ ماں اور بیوہ بہن کے چار بچوں کی کفالت ان کے راستے کی بڑی رکاوٹ تھی۔ انہوں نے وطن میں رہ کر اپنا موقف پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ 1956ء میں ان کا تبادلہ گورنمنٹ کالج فار بوائز سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں ہو گیا۔ اس ادارے کا ادبی مجلہ “مہک” انہوں نے اولین سطح پر جاری کیا۔ اپنے تصنیف کردہ ڈرامے سٹیج کروائے۔ “یادوں کے سائے” نامی ڈراما محفوظ رہ گیا ہے۔ منور سعید اور دلدار پرویز بھٹی ان کے طلبہ میں سے تھے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3