بیگم کلثوم نواز، جبر اور جمہوریت


عروج اور زوال کی کہانی ہمیشہ کہیں نہ کہیں جنم ضرور لیتی ہے، نا صرف جنم لیتی ہے بلکہ ہمارے سامنے سبق آموز کئی داستانیں چھوڑ جاتی ہے۔ برسوں اقتدار میں رہنے والے اور آج مصائب میں گھرے شریف خاندان کی رہائش گاہ جاتی امرا پہ کھڑا کئی منظر دیکھ کر دنگ ہوں۔ شہر سے دور اس بستی جاتی امرانے شریف خاندان کی وجہ سے خاص شہرت پائی ہے۔ یہی گھر ہے جہاں ایک آمر کے سامنے والی ڈٹ جانے والی سادہ لوح مگر بہادر خاتون کلثوم نواز کی میت کو لایا گیا ہے۔ یہاں کے بارے میں عام طور پرکہا جاتا ہے یہ ایک محل ہے لیکن مجھے یہ زرعی فارم لگا ہے جو بہت وسیع ہے اور جہاں دنیا جہاں کی ہر سہولت میسر ہے۔ اس کے ایک حصے میں چار دیواری کر کے اندر چند مکانات بنادیے گئے ہیں۔ یہاں سب بھائی اور ان کے خاندان آبادد ہیں۔ اس گھر کی در و دیوار افسردہ اور غمگین تھیں۔ جاتی امرانے اس سے زیادہ تکلیف کبھی نہیں دیکھی۔

اس جگہ گزرے ہوئے تین دنوں میں ہر سیاسی پارٹی سے لوگ آئے ہیں، کارکنوں کو بیتاب دیکھا ہے وہ اپنے قائد کے غم میں برابر شریک ہونا چاہتے تھے مگر ان کی رسائی مشکل بنا دی گئی۔ اس سارے منظر نامے میں کئی دل تکلیف میں آئے تھے جب بیگم کلثوم کے بارے میں دکھ دینے والی زبان استعمال کی گئی تھی۔ کسی ایک نے دل بڑا کے کے معافی بھی مانگ لی بہت سے ایسے ہیں جنہیں خدا نے شرمندہ ہونے کی توفیق نہیں دی۔ سیاست کو کس گھٹیا پن کی طرف دھکیل دیا گیا سوچ کر خوف آتا ہے۔ یہاں بیماروں پہ تہمتیں لگائی جاتیں ہیں۔ میں وہ سب یاد نہیں کرنا چاہتا، شاید یہ مناسب موقع نہیں۔

آج مجھے اس عظیم خاتون کو یاد کرنا ہے جسے 12 اکتوبر کے دن نے بدل کر رکھ دیا تھا۔ دنیا نے بیگم کلثوم کا یہ مزاحمتی روپ بھی دیکھا جس نے اس وقت کے آمروں کی نیند حرام کر دی تھی۔ وہ شوہر کی محبت میں چار دیواری سے باہر آئیں اور اسی کی محبت میں چار دیواری میں واپس چلی گئیں۔ بیگم کلثوم نواز 12 اکتوبر کے سیاہ دن کے بارے میں لکھتی ہیں۔

’ایک عجیب سی بے کلی، انجانے اضطراب اور سمجھ میں نہ آنے والی بے سکونی کے باعث پریشان کن اندیشوں اور خدشات نے دل و دماغ کو گھیر رکھا تھا اور شاید آنے والے عجیب لمحات نے اپنے سیاہ پردوں کو پھیلانا شروع کردیا تھا۔ 11 اکتوبر کی صبح 8 بجے میاں نواز شریف اسلام آباد جانے کے لئے گھر سے نکلے تو جانے کیوں میں انہیں خالی خالی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ یوں گھر سے جانا تو ان کا معمول تھا۔ میں بظاہر ان کو رخصت کرنے کے لئے دروازے پر کھڑی تھی لیکن میرے دل و دماغ پر وسوسوں کا قبضہ تھا، میں دیکھ رہی تھی کہ میاں نواز شریف قرآن پاک کے نسخے کے نیچے سے گزرکرجارہے ہیں جو میں نے دروازے کے اوپر اس لئے رکھا ہوا تھا کہ گھر سے نکلنے والا ہر فرد کلام اللہ کے سائے میں سے گزرکرجائے اور آج یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ اس اچانک خیال نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔

ہاں یہ کیسا عجیب خیال تھا کہ جب کوئی انسان اپنے گھر سے نکلتا ہے تو اسے پتہ نہیں ہوتا کہ وہ پھر دوبارہ کب اور کتنی مدت کے بعد ملے گا؟ اس خیال نے میری روح تک کولرزاکے رکھ دیا۔ میں نے زور سے سرجھٹک کر اس پریشان کن خیال سے دامن چھڑایا، اسی اثناء میں میاں نواز شریف خدا حافظ کہہ کر روانہ ہوچکے تھے۔ مجھے یہ خیال کیوں آیا؟ اس وقت اس کی کوئی توجیہہ نہ کرسکی تھی اور اب سوچتی ہوں شاید میرے رب نے آنے والے لمحات سے مجھے خبردار کردیا تھا اور اگلے ہی روز یہ تمام وسوسے، اندیشے اور خدشات ایک بھیانک حقیقت بن کر سامنے آگئے۔

12 اکتوبر 1999ء کی شام تک وقت کے بے کیف لمحات ایک ایک کرکے گزرتے رہے، ٹیلی ویژن پر شام کے وقت خبریں سن رہی تھی کہ اچانک نیوز ریڈر کی تصویر غائب ہوگئی اور مجھے احساس ہوا کہ شاید کوئی گڑبڑ ہے۔ میں نے فوراً اسلام آباد وزیراعظم ہاؤس فون کیا، آپریٹر نے میری آواز پہچان کرکہا اچھا ابھی ملاتا ہوں لیکن کچھ دیر بعد نواز شریف صاحب نے خود مجھے فون کیا اور کہا ’گھبرانے کی کوئی بات نہیں، تاہم اصل صورتحال یہ ہے کہ یہاں (وزیراعظم ہاؤس میں) آرمی آگئی ہے اور اس نے Take Over (قبضہ) کرلیا ہے‘

ایک دن جب بیگم کلثوم نواز کو ان کے سسر میاں شریف مرحوم کے پاس جاتی عمرہ جانے سے روکا گیا تو انہوں نے میجر سے کہا‘تم روک سکتے ہو تو روک لو، گولیاں چلانا چاہتے ہو تو شوق پورا کرلو‘

انہوں نے طے کر لیا تھا جو بھی ہو اس کا خندہ پیشانی سے سامنا کریں گی۔ بیگم کلثوم کو یقین تھا کہ ملک میں اس دفعہ جو مارشل لاء لگا ہے یہ تاریخ کا آخری مارشل لاء ہوگا۔ خدا ان کے یقین کو سلامت رکھے اور ہمیں آمریت کے جبر سے محفوظ رکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).