ایم اے قوی صاحب کے کاندھوں پر ڈرنے کے لیے کوئی بوجھ نہیں تھا


تقریباً ایک سال قبل 19 جون 2017ء کومیرے عزیز دوست عبدالسلام سلامی نے اپنے بھائی ایم اے قوی کا ایک ای میل مجھے بھیجا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ اکثر ان کے میل بھیجتے رہتے تھے، جن میں پاکستان، تعلیم، یورپ میں مختلف واقعات اور اسرائیل کی خبروں کے ساتھ ان کے اپنے خیالات بھی ہوتے تھے۔ لیکن اس دفعہ آنے والی میل بہت غیر معمولی تھی۔
میں نے اس میل کو دو دفعہ پڑھا اور دونوں بھائیوں کے بارے میں سوچنے لگا۔ یہ میل کسی ایک شخص کو مخاطب کرکے نہیں لکھی گئی تھی بلکہ ایک طرح کا اطلاع عام تھا ان تمام لوگوں کے لیے جو قوی صاحب کوجانتے تھے۔ انہوں نے لکھا تھا :

”میری زندگی کا سفر اپنے آخری مراحل میں داخل ہوگیا ہے۔ چھ سال پہلے میرے ایک پھیپھڑے میں سرطان کی تشخیص ہوئی تھی۔ اب چھ سال میں یہ کینسر میرے دوسرے پھیپھڑے تک بھی پہنچ گیا ہے۔ پانچ ہفتے قبل میں نے محسوس کیا کہ میری صحت یکایک تیزی سے خراب ہورہی ہے۔ 6 جون کو میں بڑی مشکلوں سے سفر کرتا ہوا لندن پہنچ گیا تاکہ انگلینڈ میں ہونے والے بہت ہی اہم الیکشن میں ووٹ ڈال سکوں جس کے نتائج مستقبل کے یورپ پر بہت زیادہ اثر اندازہوں گے، ساتھ ہی میں اپنے کینسر کے ڈاکٹر سے بھی ملنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور بتایا کہ میرا ایک پھیپھڑا مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے جبکہ دوسرے پھیپھڑے میں بھی انفیکشن بری طرح سے پھیل گیا ہے۔ پانچ دن کے بعد جب میں واپس یہاں پہنچا ہوں تو مکمل طورپر گیسٹ ہاؤس تک محدود ہوکر رہ گیا ہوں۔

ابھی تو مجھے کسی قسم کا درد نہیں ہے لیکن بہت جلد اس کا بھی آغاز ہوگا کیونکہ مجھے سانس لینے میں شدید تکلیف ہورہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ میرا خاتمہ قریب ہے جو میرے سانس کے بند ہونے کی صورت میں ہوگا۔ ڈاکٹر ماذن یا ان کی بیوی جے سیکا میرے تجہیز و تدفین کے انتظامات کریں گے۔ میں نے انہیں کہہ دیا ہے کہ میرے مردہ جسم کو واپس لندن نہ بھیجا جائے میرے مرنے کے بعد ڈاکٹر مادن یا جے سیکا تدفین کے انتظامات کے بارے میں خبر کردیں گے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جو اُس کی طرف سے آتا ہے اسی کی طرف واپس چلا جاتا ہے۔ بہترین خواہشات کے ساتھ قوی۔ ‘‘

سلامی کے ذریعے سے ہی میں قوی صاحب سے ملا تھا اور ملنے کے فوراً بعد سے ہی میں ان کی سرگرمیوں کا مداح ہوگیا تھا۔ وہ لندن کے سماجی اور سیاسی حلقوں میں متحرک تھے۔ ساتھ ہی وہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی فلسطینیوں کی حمایت اور ان کے مسائل کے بارے میں آواز اٹھاتے رہتے تھے۔ وہ مستقل طورپر پاکستان اور دنیا کے دوسرے مسائل پر انٹرنیٹ پر لکھتے رہتے تھے۔ اکثر وہ اپنی میل اور تحریریں مجھ سے بھی کبھی کبھی شیئر کرتے تھے۔ سلامی صاحب بھی ان کی میل مجھے بھیجتے رہتے تھے، ان کی ہر تحریر دلچسپ اورحقائق پر مبنی ہوتی تھی۔ وہ خاص طور پر پسماندہ ممالک میں تعلیم اور اس کی اہمیت سے متعلق لکھتے تھے۔

پہلی دفعہ میں انہیں اس وقت ملا جب پاکستان میں پرویز مشرف کے اقتدار کا طوطی بول رہا تھا۔ میں لندن جارہا تھا اور میں نے سلامی صاحب سے ان کا فون نمبر لے لیا تاکہ ان سے ملاقات ہوسکے۔ میں کورائی ڈن میں منظر بھائی اور شبانہ بھابھی کے گھر پر ٹھہرا ہوا تھا اور وہاں سے ہی میں نے بدھ کے دن انہیں فون کیا تاکہ ان سے ملاقات ہوسکے۔ وہ میرے فون کا انتظار کررہے تھے کیونکہ سلامی نے انہیں میرے لندن جانے کی خبردیدی تھی۔

انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ جمعہ کو بارہ بجے نائٹ برج اسٹیشن پر مل سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ جمعہ کی نماز نہیں پڑھتے ہیں لیکن اگر میں جمعہ کی نماز پڑھنے جاؤں گا تو کسی اور وقت ملاقات ہوسکتی ہے۔ میں نے بتایا کہ میں بھی جمعہ کی نماز نہیں پڑھتا ہوں لہٰذا بارہ بجے ان سے ضرور ملوں گا۔

جب میں نائٹ برج کے اسٹیشن پر پہنچا تو وہ پہلے سے وہاں موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پاکستانی ہائی کمیشن جارہے ہیں جس کے سامنے وہ ہر ہفتے پابندی سے پاکستان میں آمریت کے خلاف مظاہرہ کرتے ہیں یہ کام وہ گزشتہ کئی سالوں سے پابندی سے کررہے ہیں۔ وہ مظاہرے کے بعد میرے ساتھ کھانا کھانا چاہتے تھے۔ اس وت میری ہمدردیاں پرویز مشرف کے ساتھ تھیں لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ میں ان کے مظاہرے میں جاؤں گا۔ میں نے یہ بھی سوچا کہ یہ ایک اچھا موقع ہے، یہ جاننے کا کہ قوی صاحب جیسے پڑھے لکھے پاکستانی پرویز مشرف کی حکومت اور پاکستان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔

پاکستانی ہائی کمیشن کی عمارت زیادہ دور نہیں تھی۔ طالب علمی کے زمانے میں کئی دفعہ اس عمارت میں جانا ہوا تھا۔ پچھلے سال اخباروں میں خبر آئی تھی کہ حکومت پاکستان بیچ لندن میں موجود اس خوبصورت تاریخی عمارت کو بیچنے کا منصوبہ بنارہی ہے۔ میں بس امید ہی کرسکتا ہوں کہ ہمارے حکمراں اس قسم کے احمقانہ فیصلوں سے اجتناب کریں گے اور یہ عمارت بچ جائے گی جس کی بڑی تاریخی اور سماجی اہمیت ہے۔ لندن کے اس علاقے میں اتنی بڑی عمارت اب نہیں مل سکتی ہے۔

اس وقت بارش نہیں ہورہی تھی مگر قوی صاحب کے پاس ایک چھتری تھی اور ایک بڑا سا پوسٹر تھا جس پرلکھا ہوا تھا ”پاکستان میں آمریت کا خاتمہ کرو اور جمہوریت بحال کی جائے۔ ‘‘ انہوں نے اپنا چھاتا مجھے دے دیا اور وہ پوسٹر لے کر ہائی کمیشن کی عمارت کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ ہم دونوں وہاں پر پورے ایک گھنٹہ کھڑے رہے۔ اس دوران کوئی بھی ان کے ساتھ آکر کھڑا نہیں ہوا۔ کئی پاکستانی شکل کے لوگ گزرے مگر انہوں نے ہم دونوں کوکوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ میں نے محترمہ ملیحہ لودھی کو عمارت سے نکلتے ہوئے دیکھا، انہوں نے ہم دونوں کو دیکھا اور میں نے محسوس کیا کہ ان کے چہرے پر ہمارے لئے رحم اور افسوس کے احساسات نمایاں تھے۔ میرا یہ مشاہدہ غلط بھی ہوسکتا ہے۔ میں نے قوی صاحب کو اپنے احساسات سے آگاہ کیا۔

قوی صاحب نے بتایا کہ ہر ہفتے اس ایک گھنٹے کے احتجاجی مظاہرے کے دوران ہائی کمیشن کا عملہ مجھے دیکھتا ہے اور ان کے چہرے پر اس قسم کے جذبات نمایاں نظر آتے ہیں۔ بعض تو بڑی نفرت اور غصے سے بھی دیکھتے ہیں اور جملے کستے ہوئے جاتے ہیں۔ لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ وہ اپنا کام کررہے ہیں اور میں اپنا فرض ادا کررہا ہوں۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3