کلثوم نواز، باؤ جی اور گڑیا


کسی نے کیا خوب کہا کہ کلثوم نواز نے ایک بار پہلے آمریت کے ہاتھوں جیل کی تاریک کوٹھڑی میں قید کئے گئے اپنے شوہر سابق وزیر اعظم نواز شریف کو باہر نکالا تھا اور اب دوسری بار بھی دو ماہ سے اڈیالہ جیل میں قید اپنے باؤ جی کو باہر نکالنے کی وجہ وہی بنی ہیں۔ تب تو وہ اپنے شوہر کو بچا کر اپنے ساتھ سعودی عرب لے گئی تھیں لیکن اس بار وہ اپنے باؤ جی اور اپنی گڑیا کو آخری دیدار کرانے کے بعد وہاں جا چکی ہیں جہاں سے کوئی لوٹ کے نہیں آیا کرتا۔ گیارہ ستمبر نے نوازشریف اور مریم نواز کو وہ روگ دیا ہے جو نہ صرف جیل میں بلکہ عمر بھر کیلئے ان کے ساتھ رہے گا، ایک کسک پچھتاوا بن کے ان کے دلوں میں ہمیشہ رہے گی کہ کاش وہ ہوش میں کلثوم نواز سے مل لیتے، ان کے ہلتے ہوئے ہونٹوں سے کان لگا کر ان کی سرگوشی سن لیتے، نواز شریف کو یہ ملال رہے گا کہ تقریباً پانچ دہائیوں سے ہر دھوپ چھاؤں میں ساتھ کھڑی رہنے والی شریک حیات کےآخری دنوں میں وہ انکے پاس وقت گزار لیتے اور مریم کا دل بوجھل رہے گا کہ سایہ بن کر شفقت نچھاور کرنیوالی ماں کی آخری گھڑیوں میں وہ ان کے پاؤں دبا لیتی۔

نواز شریف کیلئے جہاں ہارلے کلینک کے بستر پہ چھوڑ کر آنے والی اہلیہ کو تابوت میں دیکھنا ایک بڑے صدمے سے کم نہیں جسے وہ باؤ جی کا بتا کر آنکھیں کھولنے کیلئے بھی نہیں کہہ سکتے تھے وہاں مریم نواز کا اس ماں کو میت کی صورت میں وصول کرنا یقیناً ایک قیامت جو اس کے بہتے آنسوئوں کو دیکھ کر یہ بھی نہیں کہ سکتی تھیں کہ گڑیا تمہارے آنسو تو ہر وقت آنکھوں پہ دھرے رہتے ہیں اور نہ وہ انہیں یہ جواب دے کر ان کی ڈھارس بندھا سکتی تھی کہ امی اب آپ کی گڑیا بڑی ہو چکی اسےاب رونا نہیں آتا۔

تاریخ کتنی ظالم شے ہے جو کسی نہ کسی شکل میں خود کو دہراتی ہے ، مریم نواز نے اپنی والدہ کے زیر استعمال اشیاء کو ملنے پر ویسے ہی بوسہ لیتے ہوئے ان کی خوشبو محسوس کی ہو گی اور اس جبر کے ذمہ داران کے بارے میں خود سے ویسا ہی عہد کیا ہوگا جیسا لاڈلی پنکی نے پھانسی پہ چڑھائے جانیوالے اپنے عظیم باپ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی اشیاء وصول کرتے وقت کیا تھا۔ اس اذیت کا اظہار شہید بے نظیر بھٹو نےاپنی کتاب میں ان الفاظ کے ساتھ کیا تھا۔ میں چھوٹے جیلر کے سامنے بے بس کھڑی تھی ، میرے ہاتھوں میں بچے کھچے سامان کی ایک چھوٹی سی پوٹلی تھی اور بس ، انکے پسندیدہ عطر کی خوشبو ابھی تک انکے کپڑوں سے آ رہی تھی، میں نےان کی قمیض کو بھینچ کر اپنے ساتھ لگا لیا اور عین اسی وقت اچانک مجھے کیتھلین کینیڈی کی یاد آ گئی جس نے ریڈ کلف میں اپنے سینیٹر والد کے قتل کے بعد اسکا لباس پہن لیا تھا۔

والد کی المناک موت نے بینظیر بھٹو کو اس راستے پہ چلنے پہ مجبور کر دیا جس میں انہوں نے جمہوریت کو زندہ رکھنے کیلئے اپنی جان تک وار دی۔ صوم و صلوۃ کی پابند اور گھر کی چار دیواری کو دنیا سمجھنے والی کلثوم نواز کا بھی سیاست سے دور کا واسطہ نہیں تھا لیکن پرویز مشرف کی آمریت نے انہیں آہنی اعصاب کی مالک وہ خاتون بنا دیا کہ جس نے اپنے مجازی خدا کی رہائی اور ان کی سیاسی جماعت کی بقا کیلئے پاکستانیوں سمیت دنیا بھر کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ امریکہ سمیت برطانیہ، یورپی ممالک دولت مشترکہ اور سارک ممالک نے انہیں آمرانہ حکومت کے خلاف اپوزیشن کا کردار تنہا ادا کرنیوالی بہادر خاتون قرار دیا۔ جمہوریت پہ شب خون مارنے والے پرویز مشرف کے جن آمرانہ ہتھکنڈوں نے گھر گرہستی میں خوش رہنے والی کلثوم نواز کو ایک نیا روپ دیا انکا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’’جبر اور جمہوریت‘‘ میں کیا ہے۔ لکھتی ہیں۔۔

“12 اکتوبر 1999ء کو گڑ بڑ کے احساس اور اچانک سرکاری ٹی وی سے نیوز ریڈر کی تصویر غائب ہونے پر جب انہوں نے وزیر اعظم ہاؤس میں ٹیلی فون کیا تو نواز شریف اور بیٹے حسین نواز سے بات کر کے انہیں باور ہوگیا کہ وزیر اعظم ہاؤس پہ قبضہ ہو چکا ہے، وہ ماڈل ٹاؤن لاہور والی رہائشگاہ پہ تھیں جس کے ٹیلی فون کاٹ دئیے گئے، باوردی مسلح دستے دندناتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے ، انہوں نے ٹھڈے مار کر دروازے کھولے،ملازمین کو بری طرح زدوکوب کیا اور مار کر گھر سے نکال دیا، جو ملازم بچے رہائشگاہ کے پچھلے حصے میں ہمارے ساتھ تھے انہیں میں نے اپنے ساتھ روک لیا اور دروازوں کو کنڈیاں لگوا دیں،ایک آفیسرکی آواز سنائی دی کہ کوئی شخص اندر سے باہر نہیں نکلے گا”۔

کلثوم نواز مزید لکھتی ہیں کہ ہم اپنے ہی گھر میں قید ہو کر رہ گئے تھے ، اپنا گھر جہاں سکون اور عافیت کا احساس ملتا ہے، ہمارے لیے زندان میں تبدیل ہو چکا تھا، ایک ایسی قید جس کی کوئی مدت مقرر نہ تھی، مجھے اپنے سے زیادہ اپنی والدہ کی فکر لاحق تھی جو سخت علیل تھیں ، صرف ایک ماہ قبل ہونے والی والد کی وفات اور بیماری نے انہیں پہلے ہی نڈھال کر رکھا تھا۔علیل والدہ اور چھوٹی بیٹی اسماء کے علاوہ بڑی بہن بھی محبوس ہو گئی تھیں ،13 اکتوبر کی صبح پہرے پہ مامورافسر سے کہا کہ علیل والدہ اور بہن کو ان کے گھر جانے دیں لیکن اس نے رعونت سے انکار کر دیا، میں نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی نکالو اور پھر افسر سے کہا کہ نہ صرف یہ اپنے گھر جائیں گی بلکہ میں اور بیٹی بھی میرے ساس سسر میاں شریف کے پاس رائیونڈ جائیں گی کیونکہ وہ وہاں اکیلے ہیں، افسر نے کہا آپ نہیں جا سکتیں تو میں نے اسے جواب دیا روک سکتے ہو تو روک لو، گولیاں چلانا چاہتے ہو تو شوق پورا کر لو، میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اگر یزید کے دربار میں جنت کی مالک پاک ہستیاں بے آسرا ہو کر آواز حق بلند کر سکتی ہیں تو آج کیوں نہ ہم ان کی سنت کو زندہ کر لیں، مجھے یقین تھا کہ ملک میں اس دفعہ جو مارشل لا لگا ہے یہ تاریخ کا آخری مارشل لا ہو گا۔

کلثوم نواز نے لکھا کہ اسکے بعد وہ بیٹی کیساتھ رائیونڈ پہنچ گئیں اور انہیں ایسا لگا کہ کسی میدان جنگ میں آ گئی ہیں، پہلی دفعہ اینٹی ٹینک ہتھیار اور طیارہ شکن گنز دیکھیں، گھر میں داخل ہوئیں تو رقت آمیز منظر تھا ہر فرد کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں جو آنسو رکے تھے طوفان بن کر ابل پڑے، کئی دن ایسے گزر گئے نہ کسی کو کھانے کی پروا تھی نہ سونے کی خواہش، بچوں کو اسکول جانے سے روک دیا گیا تھا، سخت پابندیاں تھیں، دروازوں اور کھڑکیوں کے پردے تک ہٹوا دئیے گئے تھے، دوربینوں سے مسلسل نگرانی کی جاتی تھی، ایک دوسرے کو دیکھ کر آنسو نکل آیا کرتے تھے، بچوں کی پریشانی کے ساتھ یہ فکر لاحق رہتی کہ نجانے نواز شریف، شہباز بھائی اور بیٹے حسین نواز کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہو، میں بیٹی مریم اور اسماء کی طرف دیکھتی تو ان دونوں کی نگاہوں میں باپ کیلئے تشویش کے سائے نظر آتے،ان کی آنکھوں سے برسنے والے آنسوؤں میں ایک ہی سوال ہوتا، ابو کیسے ہونگے؟ پھر وہ لمحہ آ گیا جب مجھے فیصلہ کرنا پڑا کہ اب رونے دھونے کی بجائے عمل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

یہ تھے وہ حالات جنہوں نےنہتی کلثوم نواز کو اتنا طاقت ور بنا دیا کہ وہ آمریت کے سامنے ڈٹ گئی اور اپنے شوہر کو رہا کروا کے ہی دم لیا۔ بطور اہلیہ اور ماں کلثوم نواز تو اپنا فرض ادا کر کے رخصت ہو چکیں لیکن جس باؤ جی اور گڑیا کو آخری وقت میں ان سے دور رکھا گیا اب بطور نواز شریف اور مریم نواز ان کی سیاست کس رخ پہ ہوگی یہ اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).