کراچی کی سڑکوں کے سپرمین


ہوا کے دوش پر اڑنے والے جانباز نڈر اور دلیر ہمارے موٹر سائیکل بردار۔ ہمیں کبھی بھی موٹر سائیکل بردار بہادر اور دلیر نہیں لگتے نہ کبھی ہم انہیں پھرتیلے تیز طرّار سمجھتے اگر جو یہ ہمیں حیرت مبتلا نہ کرتے۔ یقین جانیئے جب ہم نے اپنی سوچ کا زاویہ بدلا تو کراچی میں ہم نے ان موٹر سائیکل بردار سے زیادہ بہادر، دلیر، پھرتیلے، نڈر اور جانباز کسی کو بھی نہ پایا۔ ان کی بہادری اور دلیری کی انتہا یہ ہے کہ یہ لوگ پولیس اور کانسٹیبل حضرات سے بھی نہیں ڈرتے۔ بات تو یہ ہے کہ صاحب جسے موت کا خوف نہیں اسے کسی کا خوف نہیں۔

آپ نے سڑکوں پر ان حضرات کے کمالات یقیناً دیکھے ہوں گے اور یقیناً انہیں برے کلمات سے بھی نوازہ ہو گا مگر ہم آپ کو ان کے کچھ کمالات بتاتے ہیں اور ساتھ میں تصویر کا دوسرا رخ بھی بتاتے ہیں آپ بھی یقیناً ہماری بات سے اتفاق کریں گے۔

ہم نے اکژ چوراہوں پہ دیکھا ہے جہاں سیدھی سڑک پر گاڑیاں چلی چلی جا رہی ہیں اور اس کے مخالف سمت کی گاڑیاں اس انتظار میں ہلکے ہلکے آگے بڑھتی ہیں تاکہ جگہ تنگ ہو اور انہیں راستہ ملے مگر راستہ ہے کہ ملتا نہیں ٹریفک ہے کہ رکتا نہیں۔ ایسے میں ہم نے دیکھا ہے اسی بھیڑ میں صرف موٹر سائیکل والے ہی ایسے بہادر اور دلیر ہوتے ہیں جو زن سے سڑک پار کر جاتے ہیں اور کتنی ہی گاڑیاں پیچھے سے چرچراتی ہیں ڈرائیور حضرات بڑبڑاتے ہیں اور رکشے والے کڑکڑاتے ہیں۔ اب آپ ذرا ایمان داری سے سوچئے ایسا کر کے کتنی رکی ہوئی گاڑیوں کو راستہ مل جاتا۔

ہم نے تو اکثر یہ بھی دیکھا ہے کہ وقت کی پابندی کا احساس سب سے زیادہ انہیں ہی ہوتا ہے وہ الگ بات ہے کہ قسمت کی ستم ظریفی ان کو وقت پر پہنچنے نہیں دیتی بلکہ اس میں ان کا تو کوئی قصور نہیں ہوتا بلکہ ہمیں لگتا ہے کہ وقت کو ہی بہت جلدی ہوتی ہے بھاگنے کی۔

یہ تجربے اور مشاہدے کی بات ہے کہ جتنے بھی موٹر سائیکل بردار ہیں بچے، جوان، بوڑھے ( جی ہاں بوڑھے بھی ) جب بھی وہ موٹر سائیکل پر بیٹھتے ہیں اور اسے چلاتے ہیں تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ زمین پر بائک چلارہے ہیں بلکہ وہ زمین کو ہی آسمان سمجھنے لگتے۔

ان موٹر سائیکل بردار وں میں بڑی یکجہتی ہوتی ہے یہاں کسی نے موٹر سائیکل والے کو ٹکر ماری وہاں ہزاروں کی تعداد میں زن زن زن کر کے موٹر سائیکل والے جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور خواہ غلطی ان کے بھائی برادر ہی کی کیوں نہ ہو وہ مارنے والے کو ہی برا بھلا کہتے ہیں۔ او ر آپ تو جانتے ہیں کہ گاڑی والے کب گاڑی والے کا ساتھ دیتے ہیں۔ کتنی ہی گاڑیاں آس پاس سے پی پاں پوں کرکے نکل رہی ہوتی ہیں مگر مجال ہے کہ کسی گاڑی نے روک کر اپنے گاڑی والے کا ساتھ دیا ہو ایسی یکجہتی تو ہمیں صرف موٹرسائیکل برداروں میں ہی نظر آتی ہے۔

ایک دفعہ ہم بھی ان کی یکجہتی کا شکار ہوتے ہوتے بچے بس بچت اس طرح ہو گئی کہ گھر والوں نے سکھایا تھا بیٹا جو ڈر گیا بس سمجھو وہ ہی گیا۔

ہوا کچھ یوں کہ ہم سیدھی سڑک پر پچاس کی رفتار سے جا رہے تھے۔ ہمیں سڑک کے بائیں طرف مڑنا تھا ہم نے اشارہ دیا اور رفتار ذرا کم کی بس جناب اس ’ذرا‘ نے ہی ہمیں مروا دیا۔ جیسے ہی ہم نے رفتار ہلکی کی گاڑی کو ایک دھکہ ملا ہماری نظر فوراً بیک ویو مرر پر پڑی دیکھتے ہیں ایک بائیک والا گر رہا ہے اور اس کا ساتھ دینے کے لیے دو تین اور لڑھک گئے۔

صنفِ نازک کا دل ویسے ہی کمزور ہوتا ہے اندر سے ہم بھی ڈر گئے۔ گاڑی کو روکا اور سڑک کے کنارے لگایا اب کیا دیکھتے ہیں کہ ہماری گاڑی کا بمپر ٹوٹ کر سڑک بوس ہو گیا ہے۔ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ یہ کیا ہوا؟

ایک دم سے ایک بزرگ ہمارے پاس آئے اور لگے ہم پر برسنے ’ گاڑی چلانے آتی نہیں اور آپ سڑک پہ آگئں؟ ‘
لو جی ڈانٹ اور وہ بھی بیچ سڑک پہ گھر پہ کبھی ابّا جی نے نہ دانٹا اور یہ صاحب بیچ سڑک پہ ہمیں سنارہے ہیں ساتھ میں د و تین بائیک والے بھی تشریف لے آئے۔

ہمیں ان کی یکجہتی کا علم تھا اور دور سے ہم نے دیکھ لیا تھا کہ جو لڑکا گرا ہے وہ اٹھ کے کھڑا ہو گیا ہے۔ ہمیں لگا کہ یہ سب مل کر ہم سے کہیں ہر جانہ نہ مانگ لیں ہم نے فوراً گاڑی کی چابی نکالی اور اپنی مٹھی میں دبا لی۔

اس کے بعد دوسرا کام ہم نے یہ کیا ان صاحب کو ایسی سنائی کہ ان سمیت سارے ہی حیران پریشان ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔ گیارہ بارہ سال گاڑی چلانے کا رعب بھی الگ جھاڑا اور انہیں غلط بائیک چلانے پر لیکچر بھی جھاڑا۔

سارے سمجھ گئے کہ یہاں دال نہیں گلے گی تو بائیک لے کر بھاگ گئے۔ ہم نے صد شکر ادا کیا کہ کانسٹبل نہیں پہنچا اگر وہ پہنچ جا تا تو ہمارا کیا ہوتا ہمیں تو رشوت دینے کا تجربہ بھی نہیں ہے ہم تو دکان دار سے منہ مانگی رقم میں چیزیں خریدنے کے عادی ہیں اور یہ کانسٹبل حضرات تو مانگتے بھی بہت زیادہ ہیں۔ اور بائیک والے تو۔ ہم نے کہا نا یہ بڑے ذہین اور پھرتیلے ہوتے ہیں کبھی تو رشوت دے دیتے ہیں اور کبھی غچہ۔

بہر حال اس دن ہم نے ان کی یکجہتی کو دل سے تسلیم کر لیا کاش ہماری قوم میں بھی اس طرح کی یکجہتی نظر آئے۔

اب ہم جتنی بھی انگریزی فلمیں دیکھتے ہیں جس میں بائیک والے ہیلمٹ پہن کے اپنی بائیک کے کمالات دکھا رہے ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر ہنسی آتی ہے یہ تو ہمارے ملک میں پانچ، چھ سال کا بچہ بھی کر لے اور وہ بھی بغیر ہیلمٹ کے۔ ویسے بھی ہمارے یہاں ہیلمٹ پہننا بزدلوں کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔

بائیک چلاتے وقت موبائیل پر پیغام(میسجز) لکھنا، فون سننا، فون کرنا، اور یہ سب کرتے ہوئے غلط سمت میں بائیک بھی چلانا۔ خود سات سال کا ہو کر دو سال کے بچے کو بائیک پر بٹھا کر ایک پہیے پر بائیک چلانا وہ بھی بغیر سائیلینسر کے۔ ایسے کمالات کبھی بھی آپ نے کسی انگلش فلموں میں نہیں دیکھے ہوں گے۔ اگر دیکھے بھی ہیں تو وہ صرف نئی ٹیکنالوجی کا کمال ہے۔

جگہ کتنی ہی تنگ کیوں نہ، ہو سڑک پر راستہ بند ہی کیوں نہ ہو، ٹریفک جام ہی کیوں نہ ہو، بائیک برادران اپنا رستہ خود بناتے ہیں۔ ہم بس ایک بات کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ان بائیک والوں میں ابھی اتنی جرأت نہیں ہوئی کہ وہ گاڑیوں پر چڑھ کر اپنا راستہ بنا لیں۔

ویسے بھی ہم پہلے ہی ان کی بہادری سے متاثر ہیں اگر انہوں نے یہ بھی شروع کر دیا تو ہم بھی گاڑی چھوڑ کر بائیک ہی چلانا شروع کر دیں گے۔

ثمینہ صابر
Latest posts by ثمینہ صابر (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).