ٹوٹی ہوئی دیوار – دوسری قسط


وقت : صبح آٹھ بجکر 30 منٹ
تاریخ:7 نومبر، 2015
مقام : کابل، افغانستان

‘اگر مذہب سیاست ادب رسوم و رواج فراڈ نہ ہوتے تو کیا انسان فراڈ ہوتا؟ ’
ڈاکٹر واحدی نے کمنٹ لکھ کر کچھ دیر ہی پلک جھپکی تھی کہ اسکرین پر دوسری طرف سے ثانیہ کا جوابی کمنٹ موصول ہوگیا۔
مگر ہم کس طرح اس کا تمام تر الزام مذہب، سیاست، ادب اور رسوم و روج پر دھر سکتے ہیں؟ ہم یہ کیوں نہ کہیں کہ انسان خود ہی سب سے بڑا فراڈ ہے اور اُس نے انہیں ڈھنگ سے برتا ہی نہیں اور الزام اُن پر دھر رہا ہے‘؟
ڈاکٹر واحدی کی انگلیاں پھر سے کمپیوٹر کی کی بو رڈ پر تیزی سے ناچنے لگی

ثانیہ بد قسمتی سے یہ تمام مصنو عی عناصر آپس میں قدرتی طورپر جڑے ہوئے ہیں کہ صدیوں کے ارتقائی عمل میں یہ انسانوں کے تصورات میں اپنے ادوار اور اپنی شکل و صورت اور خصلت و عادات کے لحاظ سے انسانی تہذہب کی ترجمانی کرتے رہے ہیں۔ دیکھیں ادب اور مذہب کا چولی دامن کا ساتھ ہے کہ ہر دورِ انسانی میں ’ اعلی ترین‘ ادب الہامی حکائتوں اور دیو مالائی قصوں کہانیوں سے ماخوز ہے۔ صدیوں سے انسانی معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی دونوں ہی صورتوں میں اخلاقیات کا سارا بیڑا ان ہی دو عناصر نے اپنی پیٹھ پر لادا ہوا ہے اور پھر سیاست ہے جو اپنے حقیقی معنوں میں محض طاقت کے خاطر جوڑ توڑ کا کام کرتی ہے۔

اب رہی بات رسوم و رواج اور کلچر کی تو وہ تو رنگ و نسل کی ترجمانی کے نام پر تقسیم کا ایک ایسا مقدس انداز ہے جو انسانوں کو مغربی اور مشرقی جیسی مصنوعی جغرافیائی تقسیم یا ہندو اور مسلمان جیسی تہذیبوں میں توڑ کر نفرتوں کی بنیاد پر بانٹنے کا نام ہے۔ انسانوں کی صدیوں کی تہذیبی شناخت میں ان اجزائے ترکیبی نے سوائے نفرتوں، ، تقسیموں اور اپنی اعلی و ادنی ترین حالت میں خون ریزی کے سوا کیا نوازا ہے؟ آج کا انسان اپنی ’تہذیب یافتہ خون آلود ’ فطری صورت میں ان ہی عناصر سے تعمیر ہوا ہے۔ دیکھے ادب کا جہاں تک تعلق ہے اُن عام انسانوں کوجن سے کوئی بھی معاشرہ تخلیق پا تا ہے یا تعمیر ہوتا ہے، کی سمجھ میں تو آتا نہیں کیونکہ ادب میں تو صرف ’اعلی ذہن‘ کے انسانوں کا عمل دخل ہی رہا ہے تو یوں کہیے کہ ادب بھی ذہانت یا انٹیلیکٹ کے نام پر انسانوں کی تقسیم ہی کرتا ہے۔

سیاست صرف اور صرف ’ شاطر ترین ذہنوں ’کو فیض پہنچاتی ہے اورمذہب عام ذہنوں کو سلانے کے خاطر ان شاطر ذہنوں کا ہتھیار ی فلسفہ ہے۔ باقی بچ گئے رسوم و رواج تو وہ ایک مصنوعی غرور کی صورت عام انسانوں کو خیرات کی صورت میں با نٹ دیے جاتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ان تمام عناصر کی یہی اصل روح ہے۔ انہیں کسی نے مصنوعی طور پر بنایا یا بگاڑا نہیں ہے کہ یہی ان کی فطرت ہے کیونکہ یہ سب انسانی فطرت کے ارتقاعی سفر میں استعمال ہونے والے عناصر بھی ہیں، بائی پرو ڈکٹ بھی اور اینڈ پرو ڈکٹ بھی۔ دیکھیے ثانیہ آپ میری بات سے مکمل اختلاف رکھیں مگر جس وقت آپ انسانی تاریخ کا مطالعہ انتہائی غیر جانبداری سے کر یں گی، حتی کہ انسانی شکل سے بھی نہیں بلکہ کوئی اور حیوان بن کر تو آپ کو اس انسانی بھیڑیے کے سارے کمالات سمجھ میں آجائیں گے کہ کس طرح اُس نے اِن ہتھیاروں کو تیار کیا اور پھر کس طرح اپنے خون آلو د دانتوں کو ان ’ہی کے رومال سے صاٖ ف کیا

چند ہی لمحوں میں ثانیہ کا جوابی کمنٹ ڈاکٹر واحدی کی اسکرین پر تھا،
ہوسکتا ہے آپ درست ہو ڈاکٹر صاحب مگر آپ اسے ثابت نہیں کرسکتے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں انسانوں کی خون ریزی میں کسی حد تک کمی ان عناصر کی وجہ سے بھی ہوئی ہے۔ کیا غیر مذہبی لوگوں نے دنیا میں کچھ کم خون بہایا ہے؟

واحدی نے جوابی کمنٹ پڑھے اور کن انکھیوں سے اسکرین پر ٹائم دیکھا اور بحث کو سمیٹتے ہوئے لکھا،
‘ممکن ہے آپ درست ہو ثانیہ مگر ہمیں اس کے حتمی فیصلے تک جانے کے لیے ان عناصر کا مطالعہ فلسفے اور تاریخ کی روشنی میں کرنا ہوگا۔ آپ کے یہاں رات کے دس یا گیارہ بج رہے ہیں آپ کو سونا ہوگا اور مجھے بھی یونیورسٹی جا نا ہے اس لیے اب اجازت دیجیے۔ ‘

انگریزی میں‘بائی فار ناؤ‘ پلک جھپکنے سے پہلے ہی ثانیہ کی طرف سے موصول ہو گیا اور ڈاکٹر واحدی نے بھی فیس بُک کو سائین آف کر دیا۔ کمپیوٹر ٹرن آف کرکے ڈاکٹر واحدی نے دونوں ہاتھ پھیلا کر اپنی گردن کو پیچھے سے پکڑ کر اسٹر یچ کیا اور پھر میز پر بکھرے ہوئے کاغذوں کو سمیٹ کر میز کے ایک کارنر کی طرف کردیا اور پھر قریبی پڑے ہوئے سیل فون کو اُٹھا کر ناظر عزیزی کا نمبر ملانے لگا۔

‘ہاں۔ میں بس نکل رہا ہوں، دس منٹ میں تمھاری طرف ہونگا۔ تم بس تیار ملنا ’ ’ یہ کہہ کرڈاکٹر واحدی نے فون بند کیا اوراپنا بیگ اُٹھا کر گلے میں ڈالا اور پھر ایک طائرانہ نظر کمرے کے چاروں طرف ڈالی جیسے کوئی کھوئی ہوئی چیز ڈھونڈ رہا ہو۔ کتابیں کمرے میں چاروں جانب بکھری ہوئی تھی، کچھ بیڈ اور کچھ فرش پر، بیڈ کی چادر سمٹی ہوئی تھی اور مڑے ہوئے تکیے پر ابھی تک اُس کی کہنی کا گڑھا نظر آرہا تھا جو رات بھر اُس کے کبھی بغل میں تو کبھی ہاتھ کے نیچے دبا رہا تھا۔

واحدی کی ہمیشہ سے عادت تھی کہ کرسی میز کی جگہ رات بھر بستر پر لیٹ کر پڑھتا تھا اور پھر کالج سے واپس ہوکر بستر پر بے سدھ گرجاتا تھا۔ عموماٌ رات دس یا گیارہ کے بعد سے اُس کا پڑھائی کا سیشن شروع ہوتا تھا جو صبح تین یا چار بجے تک نان اسٹاپ چلتا تھا۔ اُس کے بعد وہ کمپیوٹر پر میل چیک کرتا اور سونے سے پہلے اپنے بلاگ پر کچھ کمنٹس لکھتا تھا۔ اگلی صبح اگر چھٹی ہو یا پھر کلاس دیر میں ہو تو یونیورسٹی جانے سے پہلے آ دھا ایک گھنٹہ فیس بُک پر بحث و مباحثہ بھی انجوائے کر لیتا تھا۔

اُس کے نوجوان دوستوں میں کینیڈا سے ثانیہ، لاہور سے زبیر، امریکہ سے عذرا، شہریار، لندن سے شکیل رضا، خاور اور جرمنی سے عبید طاہر و غیرہ شامل تھے جو اکثر و بیشتر اُس سے علمی بحثوں میں الجھ بھی جاتے تھے مگر اُن سب میں ایک بات عموماٌ یکساں تھی کہ وہ سب اُس کی عمر اور عزت و مر تبے کا خیال رکھتے ہوئے گفتگو کرتے تھے اور کبھی بھی غیرمعیاری بات چیت نہیں کرتے تھے۔ اُن سب کی گفتگو عموماٌ علمی نوعیت کی رہتی تھی۔ اچانک واحدی کی نظر ’ہیریٹک ’ نامی کتاب پر پڑی، جسے وہ آج اپنی کلاس میں متعارف کرانا چاہ رہا تھا۔ صومالی نژار ڈچ امریکن رائٹر آیان ہرشی علی کی اِس نئی کتاب نے اُسے اسقدر متاثر تو نہیں کیا تھا مگر اُس کی کچھ عادت سی تھی کہ جب بھی وہ اپنا پالٹیکل سائنس کا لیکچر ختم کرتا تو کوئی نئی کتاب یا کم از کم نیا آرٹیکل کسی انٹر نیشنل پولیٹیکل میگزین سے چن کر آخری پانچ دس منٹ میں اپنے طا لب علموں سے ضرور ڈسکس کرتاتھا۔

اُس کا خیال تھا کہ اس طرح طالب علموں میں پڑھنے کا نہ صرف شوق پیدا ہوتا ہے بلکہ ذہن بھی نئی افکار کے لیے کھلتا ہے۔ واحدی کا ٹیکسٹ بُک پڑھانے کا انداز بھی اور استادوں سے مختلف تھا وہ اپنے شاگردوں سے سوال کرنے کے بجائے اُنہیں الٹا اکساتا تھا کہ وہ اُس سے اور آپس میں سوالات کریں اور پھر جوابات سے مزید سوالات اور پھر ان جوابات سے مزید سوالات یوں اُس کی کلاس میں ڈا ئلو گز کا نہ ختم ہونے والا دلچسپ سلسلہ چلتا رہتا اورکم و بیش پوری کلاس اس بحث میں شامل رہتی تھی۔ اس دوران واحدی کی حتی ا لامکان کوشش رہتی کہ طالب علم اُس کی کلاس میں قلم کا استعمال کم سے کم کریں، ہاں کلاس کے بعد اُنہیں اجازت تھی کہ وہ کلاس کے بعد اپنی یادداشت کو استعمال کریں اور جو کچھ بھی نیا علم اُنہیں ملا ہو اُسے تحریر میں لے آئیں۔ واحدی نے کتاب کندھے پر لٹکے ہوئے بیگ میں اُڑسی اور کمرے سے نکلنے سے قبل دیوار پر لگے قدآدم آئینے میں خود کو دیکھا۔

اُس کے سر کے سفید و سیاہ بال اُسکی خشخشی داڑھی کے بالوں کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔ اُس کی چمکدار نیلی آنکھوں، افغانی ناک نقشے اور کشادہ پیشانی پر کچھ کچھ بکھرے ہوئے بال اُس کی شخصیت کا حصہ تھے۔ کمرے سے نکل کر وہ گیراج کی طرف بڑھ گیا جونہی گاڑی گھر سے نکل کر سڑک پر آئی، کابل کا کھنڈر شہر پندرہ سال کے جنگی زخموں کو بدن پر سجائے اُس کے چاروں جانب بکھرا ہوا تھا۔ اُس نے ایکسیلیٹر پر پاؤں کا وزن بڑھایا اور خود کوبے ہنگم ٹریفک کے جال میں پھنسا لیا۔

منصور سٹی ٹاور والی سڑک تک اُس کے گھر کا سارا راستہ کچاتھا، جگہ جگہ سے سڑک ٹوٹی ہوئی تھی اور گٹر وں کے ابلنے سے زمین تالاب بن چکی تھی بس ایک چھوٹی سی پگڈنڈی تھی جو کبھی پکی سڑک تھی اور اب جس کے کناروں پر چھابڑی دوکانیں تھیں۔ کہنے کو یہ راستہ صرف دس منٹ کا تھا مگر ہمیشہ گاڑیوں، ٹھیلوں والوں، راہگیروں اور خچروں کے ہجوم کی وجہ سے کھنچ کرتیس سے چالیس منٹ تک کا ہوجاتا تھا مگر جونہی تحصیلات عالی سلام کاسائن بورڈ اُسے نیلے رنگ کی عمارت کے ماتھے پر لگا دور سے دکھائی دیتا تو وہ ایک گہرا سانس لیتا کیونکہ وہ پگڈنڈی پھر سے سڑک بن جاتی تھی۔ یہاں سڑک نسبتا کشادہ تھی اور دو طرفہ بھی اور پھر دونوں کے درمیان پکا فٹ پاتھ تھا جس کے درمیان کہیں کہیں پیڑ پودے بھی تھے جو دیکھنے میں خوشنما لگتے تھے، گو کہ زیادہ تر پودے محض جھاڑیوں کی صورت میں تھے اور اُن کے رنگ بھی خزاں رسیدہ تھے۔

سڑک کے اطراف کے مکانات مخصوص افغانی کلچر کے تھے یعنی کہیں بالکل کچی مٹی کے مکانات تھے جن کی کھڑکیاں روشن دانوں کی طرح اس قدر چھوٹی تھی کہ دور سے سوائے اندھیرے کہ کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا البتہ جو بڑے گھر، یا، کوٹھیاں تھیں اُن کی دیواریں اونچی اور کانچ کے رنگ برنگے ٹکڑوں سے ٹائلز کی طرح سجی ہوئی تھی۔ ایسے گھروں کی کھڑکیاں اور دروازے کہیں سبز اور سرخ رنگ کے تھے تو کہیں نیلے یا آسمانی۔ مرکزموی رفتگی انوژن کے سائن بورڈ کے قریب بسوں کا اڈا تھا جہاں ہمیشہ رش رہتا تھا مگر اُس کے فو راٌ بعد سڑک کے دونوں جانب جابجا انگریزی زبان میں سائن بورڈز بھی لگے ہوئے تھے اور فلیٹس یا اپارٹمنٹ بلڈنگز کی تعمیرکئی سالوں سے زور شور سے جاری تھی۔

اپنے گھر سے ان نئی بلڈنگوں تک پہنچتے پہنچتے واحدی کا دماغ گاڑیوں کے شور سے کم مگر تاریخ کی ارتقائی سرگوشیوں سے زیادہ گونجتا تھا۔ ایسے میں اُس کو لگتا جیسے ٹریفک کی اس ساری بے تر تیبی میں وہ بھی اور افغانیوں کی طرح تاریخ کی بے رحم شا ہراہ پر وقت کے ایک ایسے انجان لمحہ میں پھنس گیا ہے جہاں سے منزل کا تعین ناممکن ہے۔ اپنے گھر کی کچی پگڈنڈی سے نئی اپارٹمنٹ بلڈنگوں کے راستے پر سفر کرتے ہوئے واحدی کا ذہن پانچ سو سال قبلِ مسیح کے چندر گپت موریا کے ہندو یا بدھا افغانستان سے ہوتا ہوا تین سو قبلِ مسیح کے سائرس دی گریٹ اور سکندر اعظم کے زو راسٹرین افغانستان میں آپہنچتا اور پھر جب تک مرکزموی رفتگی انوژن کا سائن بورڈ اُسے نظر نہیں آتا۔

وہ یونہی 642 سنہ ہجری کے بعد کے اسلامی افغانستان میں وقت گزارتا ہوا انیسویں صدی تک آپہنچتا اور جب اُسے نئی اپارٹمنٹ بلڈنگز کے قریب انگریزی سائن بورڈ نظر آتے تو اُسے لگتا جیسے وہ امان اللہ اور ظاہر شاہ کے مارڈرن افغانستان میں آگیا ہے مگر جونہی اُس کے بعد جو گرد مٹی پرانی عمارتوں کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے اُڑ اُڑ کر اُس کی آنکھوں میں آتی تو وہ گاڑی کے شیشے چڑھا کر سوچتا لو بھئی طالبانی دود شروع ہوا۔ اس سے قبل کہ اُسے پچھلے پندرہ سالوں کے حامد کرزائی اور اشرف غنی کے دور میں جھانکنے کی فرصت ملتی اُسے اکثر ناظر عزیزی مل جاتا جو کسی نہ کسی دوکان کے سائے میں کھڑا اخبار پڑھ رہا ہوتا تھامگر آج اُسے ناظر عزیزی کہیں نظر نہیں آیا۔ کچھ دیر ادھر ادھر نظر دوڑانے کے بعد بلا خر اُس نے موبائل جیب سے نکالا اور ناظر عزیزی کا نمبر ڈھونڈنے لگا مگر اس سے قبل کہ وہ اُسے فون کرتا دوسری طرف سے اُسی کی کال آگئی۔

‘ یار میں یو نیورسٹی میں ہوں، یہاں کچھ گڑ بڑ ہے تم یا تو ابھی و ہیں رُک جاؤ یا پھر کسی دوست کے یہاں چلے جاؤ۔ اور ہاں، جب تک میں نہ کہوں یونیورسٹی نہ آ نا۔ ‘ ’
‘خیر تو ہے۔ ؟ ’ واحدی نے پر یشان ہوکر کہا مگر اتنی دیر میں فون لائین کٹ چکی تھی۔ واحدی نے حیرت سے فون کو کچھ دیر تک دیکھا اور پھر کندھے اچکا کر واپس اُسے جیب میں رکھ دیا اور گاڑی کو ریورس گئیر میں ڈال کر کچھ لمحے مخالف سمت میں گاڑی چلائی اور پھر گھما کر سامنے ہی کے
رستوران کے سامنے اُسے بھی اور گاڑیوں کے ساتھ پارک کردیا۔
ناول ٹوٹی ہوئی دیوار۔ تیسری قسط اگلے ہفتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments