عوامی سیاست کے خیمے میں مُلا کا اونٹ کیسے داخل ہوا؟


برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد ان کی علمی، تکنیکی اور انتظامی برتری نے مذہبی پیشواؤں کے علمی تبحر، سیاسی بصیرت اور انتظامی اہلیت کا پول کھول دیا۔ مذہبی پیشواؤں نے صدیوں سے علم، حکمرانی اور تقسیمِ وسائل پر آسمانی احکامات کی من مانی تشریح کا قفل لگا کر انسانی امکان کا راستہ مسدود کر رکھا تھا۔ ان تبدیلیوں نے مذہبی پیشواؤں میں ماضی کے جاہ و حشم کے احیا کی خواہش بیدار کی۔ یورپی نوآبادکاروں کی آمد نے مقامی پیشواؤں کے مفادات تہ وبالا کر دیے۔

جدید سائنسی انکشافات، نظریات، ایجادات کے نتیجے میں عوام کے ذہنوں پر مذہبی پیشواؤں کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی۔ مذہبی پیشواؤں نے جدید فکر اور صنعتی تہذیب پر تنقید نیز تاریخی حقائق کی تاویل و تنسیخ کے ذریعے اپنا اثر و نفوذ بحال کرنا چاہا۔ یورپی حملہ آوروں کی فوجی، سیاسی اور انتظامی کامیابیاں، جدید فکری رجحانات اور سائنسی طریقہ کار کی مرہونِ منت تھیں۔ چنانچہ مقامی مذہبی پیشواؤں میں جدیدیت کے خلاف ردِعمل پیدا ہوا۔

جدید تعلیم اور صنعتی پیداوار کے نتیجے میں نئے معاشرتی ڈھانچے سامنے آئے۔ قدیم تہذیبی اقدار کا زور ختم ہو گیا۔ دوسری طرف نئے نئے مسائل منظر عام پر آئے۔ خواندگی اور متبادل سماجی ارتقا کی رفتار علوم اور معیشت میں آنے والی تبدیلیوں سے کہیں سست تھی۔ چنانچہ قدیم اور جدید دنیا کے عبوری عہد میں پیدا ہونے والے مسائل سے گھبرا کر پیوستہ مفادات رکھنے والے بہت سے حلقوں میں قدیم فکری سانچوں اور سماجی ڈھانچوں سے رغبت پیدا ہونے لگی۔

جب مسلمانوں میں جدید تعلیم یافتہ طبقہ ابھرا تو اس نے بھی ہندو تعلیم یافتہ طبقہ کے اتباع میں اپنے سیاسی حقوق کی بات کرنا شروع کر دی اور 1906ءمیں اپنی سیاسی جماعت مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ اس طرح سے مسلمانوں میں سیاست اور مذہب کے راستے علیحدہ علیحدہ ہو گئے۔ سیاسی رہنمائی کی ذمہ داری نئے تعلیم یافتہ طبقے نے اٹھا لی جبکہ علما مذہبی معاملات کے ذمہ دار رہے۔ چنانچہ اس زمانے میں جو بھی سیاسی مسائل تھے، مثلاً شملہ وفد، مسلم لیگ کا قیام، بنگال کی تقسیم، میثاق لکھنو یا اردو ہندی تنازع، ان سب میں علما کو باہر رکھا گیا اور مسلمانوں کی سیاسی قیادت نے ان مسائل کا خالص سیاسی اور طبقاتی مفادات کی روشنی میں حل نکالنے کی کوشش کی۔

1907ءمیں اہل تشیع مسلمانوں نے آل انڈیا شیعہ کانفرنس کے نام سے اپنی تنظیم کا اعلان کیا۔ 1914 ءمیں سنی علماء نے جمعیت الہند کے نام سے جماعت بنائی جسے پانچ برس بعد جمیعت علمائے ہند کا نام دیا گیا۔ مولانا آزاد نے بھی 1914ء ہی میں دارالارشاد کی بنا ڈالی۔ سوال یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ کے نام سے مسلمانوں کی جماعت موجود تھی تو علما نے اپنی جماعتیں کیوں بنائیں؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ دینی علوم میں درک رکھنے کے دعویدار اصحاب جبہ و دستار کو انگریزی دان طبقے کی قیادت قبول نہیں تھی۔

برطانوی ہند میں اواخر انیسویں صدی سے روایتی علما نے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کی مخالفت کی ہے۔ روایتی علما کی تعلیم اور مہارتیں جدید علوم سے عاری ہیں چنانچہ یہ حضرات عصر حاضرکی پیچیدگیوںکو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ علم کو جامد سمجھتے ہیں۔ معاشرتی تحرک سے نابلد اور اس کے نتیجے میں اقدار میں آنے والی ناگزیر تبدیلیاں تسلیم کرنے سے گریزاں ہوتے ہیں۔ انہوں نے ڈٹ کر سرسید احمد خان کی مخالفت کی۔ آج سبھی کو اعتراف ہے کہ سرسید کے علی گڑھ کالج (بعد ازاں یونیورسٹی) کے تعلیم یافتہ مسلمان نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود نہ ہوتی تو شاید پاکستان کی تحریک کامیاب نہ ہو سکتی بلکہ پورے ہندوستان میں مسلمان تعلیم اور معاش میں پسماندہ رہ جاتے۔

بظاہر سرسید کی مخالفت مذہبی بنیادوں پر کی گئی لیکن درحقیقت مذہبی پیشوا کو یہ احساس کمتری چین نہیں لینے دیتا کہ وہ آج کی دنیا سے بچھڑ چکا ہے۔ اس کے علمی نظریات اور سماجی رویے بری طرح پٹ چکے ہیں۔ کل تک ریلوے انجن کو ’دجال‘ اور شیطانی چرخا قرار دینے والے آج ٹھسے سے قیمتی گاڑیوں میں براجمان ہوتے ہیں۔ جہازوں میں اڑتے پھرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو غیر ملکی تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں۔ ٹیلی فون کو شیطان کی آواز قرار دینے والے ٹیلی فون پر اپنے مسلک کی تبلیغ کرتے ہیں۔ لاؤڈ سپیکر کو بدعت قرار دینے والے لاؤڈ سپیکر پر دن رات وعظ کرتے ہیں۔

مسجدوں میں ایئر کنڈیشنر نصب کیے جاتے ہیں۔ طالبان جہادی عامتہ الناس کے پاس ٹیلی ویژن یا کمپیوٹر دیکھنے کے روادار نہیں ہیں لیکن خود اپنے ٹیلی ویژن چینلزاور ریڈیو (عموماً غیر قانونی )کھول رکھے ہیں۔ دہشت گردی کی موجودہ مہم میں پیغام رسانی ابلاغ کا کام بنیادی طور پر برقیاتی ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ ہی کے ذریعے آگے بڑھایا گیا ہے۔ کل تک تصویر کشی کو حرام قرار دینے والے اخباروں کے دفاتر میں دھمکی آمیزپیغام بھیجتے ہیں کہ ان کی تصاویر نمایاں طور پر شائع کی جائیں۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاست کا رخ موڑنے میں تحریک خلافت نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ اس تحریک میں مختلف فریق اپنے اپنے مقاصد کے ساتھ شریک ہوئے۔ مہاتما گاندھی ایک طرف تو اس بے سروپا تحریک کی مدد سے کانگرس کی تنظیمی قوت اور احتجاجی استعداد کا امتحان کرنا چاہتے تھے دوسری طرف ایک بظاہر ’اسلامی‘ تحریک میں شریک ہو کر بلا امتیاز مذہب پورے ہندوستان کے متفقہ رہنما کے طور پر اپنی حیثیت مستحکم کرنا چاہتے تھے۔ ادھر مسلمان علما جو علی گڑھ تحریک اور تقسیم بنگال کے مسئلے پر ہزیمت اٹھا کر کسی قدر پس منظر میں چلے گئے، ایک دور از کار مسئلے پر پھر سے اپنی اشتعال انگیز خطابت کو سان پر رکھنا چاہتے تھے۔ کیا یہ امر تعجب انگیز نہیں کہ ہندو مذہبی پیشوا تحریک خلافت سے لاتعلق رہے لیکن کانگرس اس تحریک میں پیش پیش تھی۔

قائد اعظم محمد علی جناح اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال جیسے روشن خیال اور بین الاقوامی سیاست سے باخبر رہنماؤں نے اس تحریک میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ چنانچہ کہنا چاہیے کہ تعلیم یافتہ اور پیشہ ورانہ مسلمان طبقے کی بجائے مذہبی رہنماؤں یعنی علما کو مسلمانوں کا رہنما بننے کا موقع مل گیا۔ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ ”تحریک خلافت میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ایک ایسے مسئلے پر ابھارا گیا جس کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں تھی اور جو اپنی موت آپ مرنے والا تھا“۔ حمزہ علوی لکھتے ہیں کہ ”تحریک خلافت نے مسلم لیگ کو کمزور کر دیا اور علما کو سیاست میں لا کر انہیں اپنا علیحدہ مقام بنانے کا موقع دیا۔ سیاست اور مذہب کے اس ملاپ سے برصغیر میں مسلمانوں کی سیاسی ذہنیت بری طرح متاثر ہوئی اور ان میں سیاسی بوجھ اور سیاسی معاملات کو سیاسی نقطہ نظر سے دیکھنے کی صلاحیت ختم ہو گئی۔ وہ ہر مسئلہ کو سیاست کے بجائے مذہبی نقطہ نظر سے دیکھنے لگے۔ اس طرح مسلمان سیاسی طور پر پسماندہ ہوتے چلے گئے“۔

چودھری خلیق الزمان جیسے رہنما نے بھی تحریک خلافت میں علما کے اشتراک کے نقصانات کو محسوس کرتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ ”وہ (تحریک خلافت کے رہنما) علما کے ساتھ اشتراک کر کے درحقیقت آگ سے کھیل رہے ہیں۔ مذہبی رہنما پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنے ساتھ بہا لے جائیں گے“۔

دوسری طرف یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد یہی چودھری خلیق الزمان سرد جنگ کے تناظر میں ”اسلامستان“ کا جھنڈا اٹھائے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے بار بار دورے کرتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).