الیکٹرانک میڈیا سے سوشل میڈیا تک


ہمارے ہاں کسی بھی معاملے میں بامقصد مکالمے کی گنجائش پہلے ہی بہت کم ہے، جو کہ اب سیاسی وسماجی انارکی فضاء میں مزید کم ہوتی جا رہی ہے۔ کیا ہی خوب کہا گیا ہے۔ فراز صحن چمن میں بہار کا موسم۔ نہ فیض دیکھ سکے نہ ہی ہم دیکھیں گے۔ ہمارا قومی بحران ریاست، حکومت اور سیاست کی منڈی سے پھیل کر سماجی، فکری، تہذیبی اور اخلاقی بحرانوں تک محیط ہو چکا ہے۔ مزید المیہ یہ ہے کہ یہ بحران یہاں تک الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے سوشل میڈیا تک گھر کر چکا ہے۔ میڈیا کے سہارے معاشرت اور سماج کے پہلو نمایاں ہوتے ہیں ۔ لیکن درست معاملات ، معلومات کے فقدان اور ہمارے ہاں رائج طرز فکر نے اس المیے کو مزید بڑھاوا دیا ہے، جب کہ کاروبار حکومت اور دنیا پر مسلط اجارہ داریوں سے عدم واقفیت نے فکرو خیال کے تصورات کو گڈ مڈ کر دیا ہے ، جس کے نتیجے میں ہر کس وناکس صاحب رائے کے منصب پر فائز اپنی ہی سوچ میں غلطاں خود کو ”سند” مانے ہوئے ہے۔

یہی وہ بنیادی طرز خیال ہے، جس نے معاشرے کو انارکی اور انتہاپسندی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا ہے۔ پھر یہ بھی ہمارے طرز فکر کی کج روی ہے کہ ہم نے انتہا پسندی وغیرہ کا مصداق محض ایک طبقے تک ہی محدود مان لیا ہے، حالانکہ انتہاء پسندی کا مصداق ہر وہ طرز فکر ہے جو کسی دلیل اور سند کو خاطر میں لائے بغیر اپنی رائے پر نہ صرف قائم رہے بلکہ دوسروں پر بھی اس کو مسلط کرنے کی کوشش کرے، جب کہ ہر ایک کو صاحب رائے کے منصب پر فائز کرنا ہی اصلاً استحصالی نظام کا سب سے بڑا مغالطہ ہے۔ جس میں اس نے الجھا کر اپنی جانب سے توجہ پھیردی ہے۔ اب کوئی بھی اس مسلط زدہ نظام کے متعلق سوچنے یابات کرنے کے بجائے خود ساختہ خیالوں کو منوانے میں مصروف ہو چکا ہے۔یہاں تک کہ اپنی فکری غلطیوں کو تسلیم کرنے یا اس کو صحیح سمت کی جانب گامزن کرنے کے لئے سوچنا بھی گوارا نہیں ، کیونکہ ہمارے فکروخیال تو راستی پر ہی قائم ہیں ، اختلاف کی گنجائش ہمیں کبھی دکھائی نہیں دیتی، ایسے میں دلیل اور حقیقت کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟

یہ وہ بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے معاشرہ سچ سے تہی دامن ہوچکا ہے ، کیونکہ حقائق سے منہ موڑ کر ہم نے اپنے اپنے سچ وضع کر لئے ہیں اور ان کے علاوہ کسی حقیقت کو قبول کرنے میں ہمیں شدید تامل ہے ۔ اسی طرح ہمارے حکمرانوں کا اپنا سچ ہے اور عوام کا اپنا، پھر اپنے سچ کو منوانے کے لئے چاہے کتنے ہی حقائق کیوں نہ ٹھکرانے پڑیں ہم کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ جس کا لازمی نتیجہ توقعات کے خلاف ہی آتا ہے ۔ یہ دراصل ایک فکری اور تہذیبی بحران ہے ‘جس کا سب سے نمایاں اثر الیکٹرانک میڈیا کے راستے معاشرے کے ہر فرد میں سرایت کر رہا ہے، الیکٹرانک میڈیا نے ٹاک شوز کے نام جو شور شرابے اور ہو ہو ہا ہا کار کا بازار گرم کر رکھا ہے، جن کا مقصد قوم کو سوائے الجھاوؤں اور حقائق سے دور کرنے کے اور کچھ نہیں، کیونکہ میڈیا کے بھی اپنے اپنے مقاصد اور ڈیوٹیاں ہیں جنہیں وہ بھر پور طریقے سے نبھا رہا ہے، لیکن ہمارے سادہ لوح عوام بڑی آسانی سے اس کے نرغے میں الجھ کر اپنی رائے قائم کرتے ہیں، اور اسے درست بھی تسلیم کرتے ہیں۔

معلوم تاریخ میں اس سے قبل کبھی نوع انسانی کو اتنے بڑے پیمانے پر جھوٹ کے شکنجے میں نہیں الجھایا گیا جتنا آج کے جدید دور میں میڈیا کے ذریعے جھوٹ نے پنجے گاڑھے ہیں۔ کسی مسئلے کو لے لیں۔ جھوٹ کے اس بازار میں آپ کو سچ کا شائبہ تک نہ ملے گا۔ خوفناک سچائیوں سے توجہ ہٹانے کے لئے تسلسل کے ساتھ جھوٹ سننے کو ملتے ہیں ‘ جن کے نتیجے میں قوم کو مایوسیوں کی دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے، اسی طرح سوشل میڈیا کا معیار کتنا پست ہے، اخلاقی حدود و قیود سے آزاد تبصرے، مرنے والوں کی تصویریں ‘ چاہے وہ حادثات کا شکار ہوئے ہوں یاطبعی طور پہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہوں، انہیں پھیلا کر ہمدردی سمیٹنے اور ریٹنگ بڑھانے کی کوششیں کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر ڈالنے کی ریت شاید ہمارے یہاں کچھ زیادہ ہے ، ویسے تو اس فعل کو دنیا بھر میں صحافتی اخلاقیات کے منافی سمجھا جاتا ہے، مگر ہمیں کون سمجھائے کہ ہم تو زندہ لوگوں کو چھوڑ کر مرنے والوں کی خبرگیری کے عادی ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک اور مرض بھی شدت سے پایا جاتا ہے، وہ ہے مجالس ومحافل کی کھانے کی تصاویر کو بھی سوشل میڈیا کی زینت بنایا جاتا ہے ۔ طرح طرح کے کھانوں سے سجے ٹیبل کی تصاویر سے آپ کیا پیغام دے رہے ہیں؟

سوشل میڈیا کی اخلاقیات کہاں پہنچ چکی ہیں ہم سب دیکھ رہے ہیں ، یہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کا کمال ہے، جس نے معاشرے کی یہ ذہنیت تخلیق کی ہے ،جب کہ مقامی صحافت تو اس سے بھی ابتر صورتحال سے دوچار ہے ، بس ایک بھیڑ چال ہے ‘ ایک دوسرے کے پیچھے بنا سوچے سمجھے سر جھکائے سب چلے جارہے ہیں ، کہاں جارہے ہیں؟ اس کی فکر کسے ہے اور کیوں ہے؟ یہ سوچنے کی شاید ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ پھر اس میں لکھنے والوں کی بھی کوئی رہنمائی نہیں، اسی طرح آزادی اظہار کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ گالم گلوچ اور بے ہودہ گوئی اختیار کر کے اخلاقیات کا بھی جنازہ نکال دیں۔ اختلاف رائے یا کسی کے طرز عمل سے اختلاف کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی کی رائے کو دلیل سے درست یا غلط ثابت کرنے کے بجائے اخلاقی پستی کے مظاہرے پر اتر آئیں ۔ تو ان حالات میں نتائج اخذ کرنا مشکل نہیں کہ کون کس سمت راہنمائی کر رہا ہے، کون پستیوں میں گر رہا ہے اور قوم کو کس جانب ہانکا جارہا ہے؟ سچائی کی تلاش کے لئے ہمیں کس کو کسوٹی بنانا ہے؟ معیارات کا تعین کیسے کرنا ہے؟ صحافت کی دنیامیں کس کو آئیڈیل بناناہے؟ ہمارا مطالعاتی انتخاب کیا ہونا چاہئے؟ یہ سب وہ باتیں ہیں جن کا انتخاب ہی ہمیں اور ہماری صحافت کو معیار سے روشناس کرا سکتا ہے۔

سیاسی انارکی کی فضاء میں بامقصد مکالمے کی بات جو کہ موجودہ سیاسی کشمکش اور تناؤ میں مزید خطرات سے دوچار ہو چکی ہے۔ کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے یہاں کے سیاسی ماحول اور اس کی کشمکش کا معاشرتی و سماجی زندگیوں پر گہرا تاثر قائم ہو چکا ہے۔اور جسے مزید بڑھاوا دینے کے لئے رہی سہی کمی ٹی وی ٹاک شوز پوری کررہے ہیں ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ جیسے ہمارے سیاستدانوں کے رویے اور ان کے جھگڑے اوپر کی سطح پر ہیں ویسے ہی ان کا عکس نچلی سطح پر بھی ہے ، مرکزی قیادتوں سے لے کر مقامی قیادت تک اور مقامی قیادتوں کی اندرونی چپلقشوں سے لے کر کار کنوں تک سب ہی اس کے نرغے میں ہیں ۔ مگر یہاں ظلم یہ ہے کہ نچلی سطح پر وہ تاثرات اپنے اندر نفرت کے جذبات اور غصے سے بھرے ہوئے ہیں ، جو فکر و خیال کی وسعت وترقی کے لئے سم قاتل ہیں ۔ ایسے میں صحافت کے شہ نشینوں کے الیکٹرانک میڈیا پر غیر ذمہ دارانہ تبصرے اس پر مزید جلتی کا کام کر رہے ہیں ۔ غیر شائستہ ، پھبتیاں کسنے اور اہانت آمیز طرز گفتگو کے حامل تبصرے عوامی سوچ سمجھ کے زاویوں کو منفیت کی جانب دھکیلنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔یوں ہم معاشرے کو مزید بحران سے دوچار کر رہے ہیں ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).