میں فیس بک ہوں مجھے بدنام مت کرو


میر ا نام فیس بک ہے جبکہ مجھے سماجی رابطے کی ایک مشہور ویب سائٹ بھی کہا جاتا ہے۔ میں چونتیس سالہ امریکی نوجوان مارک ذکر برگ کی ایجاد ہوں۔ مارک میرا محسن ہے کیونکہ مارک ہی کی خداداد صلاحیتوں کی برکت سے آج میرا استعمال دنیا کے کونے کونے میں ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں مفید اطلاعات کے پھیلاو، تفریح اور علم کے حصول کے لئے میں ایک موثر ذریعہ بن چکا ہوں۔ پل پل بدلتی خبروں کے رَسیا لوگ مجھے آن کرتے ہی دنیا کے ہر کونے میں پیش آنے والے نت نئی خبریں پڑھ اور سن لیتے ہیں۔

علم کے پیاسوں کے لئے تو میں کسی دریا سے کم نہیں ہوں۔ کیونکہ مختلف زبانوں کی کتابوں، جریدوں اور اخبارات سے چیدہ چیدہ معلومات میں نے اپنے اندر سموئے رکھے ہیں۔ سیر و تفریح کے طور پر بھی بے شمار لوگ میرا سہارا لیتے ہیں کیونکہ فطرتی مظاہر کے ہزاروں لاکھوں موویز، کلپس اور خوبصورت تصاویر میرے اوپر اپ لوڈ پڑے ہوئے ہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ میرے ہی دم قدم سے آج کل کاروباری لوگ بھی بڑے مزے میں ہیں۔

ایک زمانے میں ان لوگوں کو اپنی دکانداریاں مشتہر کرنے کے لئے ٹیلی ویژن، اخبارات اور جریدوں کا سہارا لینا پڑتا تھا لیکن اب میرے آنے سے یہ لوگ صرف چند روپوں کی ایم بیز کے ذریعے سینکڑوں اشتہارات میرے اوپر ڈال کر ہزاروں روپے خرچ کرنے سے جان چھڑا لیتے ہیں۔ لطف کی بات تو یہ بھی ہے کہ میں نے آب وگِل کے اس جہاں میں عُشاق کا کا م بھی نہایت آسان بنا دیاہے۔ یہ بے چارے ایک زمانے میں اپنے پیاروں کی تصاویر کے لئے زندگی بھر ترستے رہتے تھے لیکن میرے آنے سے اب ان لوگوں نے بھی سکھ کا سانس لے لیا ہے۔

یہ لوگ اب نہ کسی قاصد اورپیامبرسے اپنے معشوق کے خال وخد اور نشست وبرخاست کے بارے میں سوالات کرتے ہیں اور نا ہی چپکے سے ہاتھوں میں کیمرے لیے کُو بہ کُو پھرتے ہیں بلکہ گھر بیٹھے بیٹھے بات بن جاتی ہے۔ وہ یوں کہ ان حضرات کے دل والے حسینائیں بنفس نفیس میرے اوپر اپنی اپنی خوبصورت تصاویر سجالیتی ہیں۔ بلکہ اب تو مارک صاحب کی محنت سے میں مزید ترقی کرچکاہوں اور جن حضرات کا مطلق تصاویر سے گزارا محال ہوتا ہے تو میں انہیں اپنا محبوب براہ راست بھی دکھا دیتا ہوں۔

یہ سب لوگ مجھے استعمال کرتے ہیں اور مارک صاحب کے ساتھ ساتھ مجھے بھی دعائیں دیتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا کی سات ارب آبادی میں سے دو ارب سے زیادہ لوگ میرا استعمال کرتے ہیں اور مجھے اپنا بہترین ساتھی سمجھتا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود میں آج کل تھوڑا بہت پریشان بھی ہوں اور میری پریشانی ہی کی وجہ سے مارک صاحب بھی کافی پریشان لگتے ہیں۔ کیونکہ میرا استعمال جنوبی ایشیاء کے ایک ایسے ملک میں بھی ہوتا ہے جہاں لوگ مجھے استعمال کرتے وقت کسی بھی ضابطہ اخلاق کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔

اس ملک کی بیس کروڑ آبادی میں ڈھائی کروڑ سے زیادہ لوگ مجھ سے جنون کی حد تک پیار کر کے مجھے استعمال کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ میری بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔ یہاں تو کچھ لوگوں نے میرا چہرہ اتنا بدنما کردیا ہے کہ مقدس ترین ہستیو ں کے بارے میں مغلظات بکنے کے لیے میرا استعمال کرتے ہیں۔ کتنی افسوس کا مقام تو یہ بھی ہے کہ یہ لوگ آقائے دوعالم ﷺ جیسی مبارک ذات کی شان میں بے ہودہ باتیں لکھ لکھ کر میرے اوپر اپ لوڈ کرتے ہیں۔ آپ یقین کرلیں، جس د ن بھی میرے اوپر اللہ کے ر سول ﷺ کے بارے میں ایسی بیہود ہ مغلظات یہ لو گ شیئر کرتے ہیں اسی دن میں پورا دن شرم سے پانی پانی رہتا ہوں۔

میرا نام تک بدل جاتا ہے۔ فیس بک یا ”چہرے کی کتاب ‘‘ جیسے خوبصورت نام کی بجائے لو گ مجھے ایک غلیظ نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس ملک میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی تو نہیں کرتے، لیکن پھر بھی میرے استعمال میں فاش فاش غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ میرے ذریعے معاشرے میں نفسیاتی امراض پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔ ویسے تو پہلے سے ہی اس ملک کے لوگوں سے ان کے جابر حکمرانوں نے چمڑی اتار دی ہے، لیکن جب تھوک ک ے حساب سے میرے اوپر خون آلود تصاویر بھی دیکھ لیتے ہیں تو ان میں خوف کی شرح اور بڑھ جا تی ہے۔

اگرچہ اس ملک میں میرے صارفین کی تعداد میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہورہی ہے لیکن پھر بھی میں اور میرا باس مارک ذکر برگ صاحب خوش نہیں ہیں۔ کیونکہ یہاں تو ایک ہی فرد متعدد افراد کے مختلف ناموں کے ساتھ ایک سے زیادہ اکاونٹس ہیں، یہ فرضی اکاونٹس و ہ اکثر اوقات منفی سرگرمیوں اور دوسروں کو بلیک میل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں تو میں ہر کسی کے لئے ہائید پارک بن چکا ہوں جہان ہر کوئی اپنی پسند کی زبان استعمال کرتا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے بھی قا صر ہوں کہ یہاں کے پڑھے لکھے لوگ بھی ا س حمام میں اکثر اوقات برہنہ پائے گئے ہیں حالانکہ یہ اناڑی اور اَن پڑھ لوگوں کا کام ہے۔

بڑے بڑے سیاسی رہنماوں کی تصاویر کو لڑکیوں کے ساتھ مختلف پوز میں ایڈٹ کر کے میرے چہرے پر ڈال دیا جاتا ہے حالانکہ مارک صاحب کی نیت تھوڑی ایسی تھی کہ میرے اوپر ہر قسم کا کوڑا کرکٹ ڈال دیا جائے۔ دیگر افراد کی ٹائم لائن پر فحش تصاویر ٹیگ کرنا، بے ہودہ ا ور ٹوٹے پھوٹے اشعار لکھ کر اس کے ساتھ مرزا غالب، اکبت الہ آبادی، ذوق، مومن، اقبال اور فیض جیسے لوگوں کانام لکھ دینا اورغیر مستند باتیں یہاں تک کہ غلط قرآنی آیات اور ا حادیث نبوی ﷺ کو شیئر کرنا معمول کی بات بن گئی ہے۔

میں نہیں سمجھتا کہ فارغ لوگوں سے زیادہ ان لوگوں نے اپنی زندگیاں میرے اوپر مغلظات بکنے کے لئے صرف کردی ہیں جو اپنے آپ کو درجہ اول کے تعلیم یافتہ اور کام کے لوگ سمجھتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ لوگ کب تک مجھے اور مارک صاحب کے احسانات کے اوپر تھوکتے رہیں گے؟ میں نہیں جانتا کہ ان لوگوں کو میرے اوپر رحم کب آئے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).