صدر پاکستان عزت مآب عارف علوی کی سادگی کو سلام۔۔۔


25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد چہار سو تبدیلی موضوع بحث رہتی آئی ہے، کپتان سرکار نے کفایت شعاری مہم کا اعلان کیا وزیراعظم ہائوس کی لگزری گاڑیاں،کھٹارہ ہیلے کاپٹرز اور 8 بھینسیں بھی نیلامی و فروخت کے لیے پیش کی گئیں، سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا کہ غریب ملک کے حکمراں کیسے عیاشیاں کر رہے تھے، عین اس دوراں بنی گالا سے وزیراعظم ہائوس تک عمران خان کی جانب سے ہیلی کاپٹر کے استعمال پر بھی سوالات اٹھنے لگے، جس کے جواب میں وزیراطلاعات و نشریات فواد چودھری صاحب میدان میں کود پڑے اور آئو دیکھا نہ تائو یہ کہہ ڈالا کہ بنی گالا سے پی ایم ہائوس تک بذریعہ روڈ جانے سے ہیلی کاپٹر سستا پڑتا ہے۔

اب کون نہ ہنستا اس موقف پر. تبدیلی کے انتظار میں برسوں سے بیٹھے لوگوں نے جب حکومت وقت کے ترجمان کی زبان مبارک سے ایسی غیرسنجیدہ بات سنی تو حیرت کے ساتھ ساتھ ہنستے بھی رہے پر سامنے بھی فواد چودھری صاحب تھے جو پشیمانی کا اظہار تو کرنے والے نہیں تھے لہذا یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ ہیلی کاپٹر کے کرایہ کی بات انہوں نے نیٹ سے سرچ کر کے کہی تھی۔

چلیں یہ تو تھی فواد چودھری کی بات کپتان کی بہت ساری باتوں کا ذکر کسی اور مضمون میں خصوصی طور پر کریں گے پر یہاں میں پاکستان کے پڑھے، لکھے اور ڈاکٹر صدر عارف علوی صاحب کے بیان پر بات کرنا چاہتا ہوں کہ ایک ریاست کے سربراہ ہونے کے باوجود انہوں نے پروٹوکول نہ لینے کے حوالے سے بچگانہ سی بات کی ہے کہ میں نے منع کیا تھا پر اس کے باوجود انہیں پروٹوکول دیا گیا۔ صدر مملکت اسلام آباد سے کراچی تک تو شیڈولڈ فلائٹ پر عام مسافروں کے ساتھ پنہچے پر ائیرپورٹ سے باہر نکلتے ہی وزیراعلیٰ سندھ اور گورنر کی 30 سے زائد گاڑیوں کا قافلہ ان کے ساتھ ہو لیا،جبکہ شاہراہ فیصل پر ٹریفک کو بھی روکا گیا، جس سے پرانے پاکستان کے صدور مملکت کی یادیں پھر سے تازہ ہوگئیں اور عوام اپنے روایتی لب و لہجے میں حکمرانوں کو کوستے رہے، بہرحال شہریوں نے صدر عارف علوی کے کراچی پنہچنے پر وہی خواری اٹھائی جو سابق صدر ممنون حسین، آصف علی زرداری اور پرویز مشرف وغیرہ کے کراچی پدھارنے پر اٹھاتے آئے ہیں۔

اگر قصہ یہیں پر ختم ہوجاتا تو پھر بھی لوگ مٹی پائو پالیسی پر عمل کرکے صدر مملکت کا یہ پروٹوکول نظرانداز کرلیتے پر اگلی صبح جب ڈاکٹر علوی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی مزار پر حاضری دینے آتے ہیں تب بھی عالی جناب کے لیے روڈ پرانے پاکستان کی طرح بند کیا جاتا ہے، سکیورٹی کے نام پر عام لوگوں کو گھنٹوں تک ایم اے جناح روڈ پر انتظار کرایا جاتا ہے کہ شاہی قافلہ پہلے گذر جائے بعد میں آپ عام لوگ ادھر،ادھر یہاں، وہاں جا سکتے ہیں ورنہ سڑتے رہو ایسے ہی۔ تو جناب یہ سب دیکھنے کو ملا ہمیں صدر مملکت کی کراچی آمد پر۔

اب ڈاکٹر عارف علوی کی کمال سادگی پر آتے ہیں انہیں جب کسی نے بتایا کہ جناب آپ کے شاہی پروٹوکول پر سوشل میڈیا پر عوام بھرپور غصے کا اظہار کر رہے ہیں تو صدر مملکت نے بھی جھٹ پٹ ٹوئٹر کا سہارا لیا اور وضاحتی بیان داغ دیا کہ ان کے منع کرنے باوجود پروٹوکول دیا گیا۔ ہے نہ یہ حیرت کے جزیروں میں غرق ہونے والی بات؟ اب آپ سب کہیں گے کہ وہ کیسے تو جناب صدر مملکت ریاست کا آئینی سربراہ ہوتا ہے میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ جب صدر کا فرمان جاری ہوا کہ انہیں پروٹوکول نہیں چاہیئے تو کیا پڑی تھی وزیراعلیٰ سندھ اور گورنر کو کہ وہ لائو لشکر ان کے پیچھے لگا دیتے۔

صدر مملکت کے اس بیان پر تو میں ان کی سادگی کو سلام کرتا ہوں کیوں کہ دنیا کے کسی بھی ملک کے صدر کا ایسا بیان کبھی میری نظر سے نہیں گذرا کہ انہوں نے اتنی بے چارگی کا اظہار کیا ہو کہ وہ تو یہ نہیں چاہتے یا انہوں نے اس بات سے منع کیا ریاستی مشینری کو پر ان کی بات نہیں مانی گئی، میرے خیال میں ایسا بیان صرف نئے پاکستان کے صدر ہی دے سکتے ہیں۔

بہرحال نئے پاکستان کے ،عوامی حکمرانوں، کے پروٹوکول کا قصہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا، ایک دن بعد جب خاتون اول (صدر کی اہلیہ) کراچی سے اسلام آباد پنہچتی ہیں تو ان کے پروٹوکول کے لیے بھی تقریباً 12 سرکاری گاڑیوں کا قافلہ ہوائی اڈے پر موجود رہتا ہے، جو انہیں ایوان صدر کے اونچے محل تک چھوڑ کر آتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے صاحبزادوں کی لندن سے اسلام آباد آمد اور پھر ائیرپورٹ سے بنی گالا تک کا ان کا سفر بھی عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا جو کہ شاہی پروٹوکول پر مشتمل تھا، اب بات یہ سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر نئے پاکستان میں بھی وہ ہی پرانی روایات دہرائی جانی تھیں تو اتنی لمبی لمبی چھوڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟

نیا پاکستان کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والے حکمرانوں کی موجودہ حالت دیکھنے کے بعد مجھے بہت حیرت ہو رہی ہے اور اب تو میں خود کو یہ سوال کرنے میں حق بجانب سمجھتا ہوں کہ بھائیو! کہاں گیا نیا پاکستان؟ آپ کا تو فرسٹ امپریشن ہی بری طرح ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے، تبدیلی کی سونامی کیا خاک لائیں گے اس ملک میں؟

میرا نہیں خیال کہ کپتان سرکار وہ تمام وعدے پورے کر سکے گی جن پر عام انتخابات میں کامیاب ہوکر اقتدار حاصل کیا گیا ہے، کیوں کہ جو لوگ پروٹوکول نا لینے والی بات ہی بھلا بیٹھے ہیں تو بڑے بڑے وعدے یا تبدیلی لانے کی باتیں کیا خاک یاد رکھں گے۔

میں نئے پاکستان کی امید پر جینے والے عوام سے یہی کہنا چاہوں گا کہ سب خوابوں کی دنیا سے باہر نکل کر پرانے پاکستان والے کام کاج جاری رکھیں یہی ان کے حق میں بہتر ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).