برصغیر پاک و ہند میں جدید فوج کا ارتقا


اگر تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو تمام نظام چاہے ان کی اساس الہامی مذاہب میں ہو اور یا پھر اس کا پرچار کسی فلسفی یا سیاسی پنڈت نے کیا ہو، مادی سطح پر زر اور زمین پر تسلط حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں. حصول ِاقتدارکا مقصد الگ بحث ہے، طاقت کے حصول کے لئے کی جانے والی کوششیں یا سازشوں کے قصے الگ ہیں۔ ایسے تجربات سے برصغیر کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ اسی تسلط کی تاریخ کو سلسلہ وار دیکھتے ہیں۔

تسلط کے اس آخری سلسلے کی پہلی کڑی مغلیہ سلطنت سے شروع ہوتی ہے۔ اکبر نے سولہویں صدی میں منگولوں سے متاثر ہوکرپہلی مرتبہ ہندوستان میں ‘منصب داری’ نظام رائج کیا۔ اس کا مقصد بادشاہ کی سرپرستی میں جاگیرداری کو ایک نظام کے تحت چلانا تھا۔ بادشاہِ وقت نے اپنی بادشاہت میں آنے والی جاگیروں کی دیکھ بھال کے لیے وفاداری کی بنیاد پر لوگوں کو بڑے بڑے عہد وں سے نوازا اور بہت سے جاگیردار منصب دار بن گئے۔ یہ اُس وقت اپنے دور کی پہلی سول سروس کی تشکیل تھی۔ منصب داری نظام میں درجہ بندی کے تحت عہدوں کی تقسیم ہوئی ۔ اس درجہ بندی کی بنیاد بھی مال و متاع سے مشروط تھی یعنی کہ درجہ اول کا منصب دار ہونے کے لئے دس ہزار سپاہی ہونا ضروری تھا اور اُس دس ہزار میں سے پانچ ہزار گھڑسوار ہونا بھی ایک شرط تھی۔ اِس منصب پر زیادہ تر شہزادے تعینات تھے۔

منصب داری کے کُل تینتیس درجات تھے۔ اس میں سب سے کم منصب دار کے پاس کم از کم دس افراد کا جتھہ ہونا لازمی تھا۔ اس ضمن میں جاگیرداروں نے اعلیٰ عہدے حاصل کرنے کے لئے بہت بڑی تعداد میں سپاہی بھرتی کئے۔ ان سپاہیوں کے عوض منصب داروں کو بادشاہ کی جانب سے بھاری معاوضے ملا کرتے تھے۔ سپاہیوں کی تنخواہ منصب داروں کی صوابدید تھی اور بادشاہ کا اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ سپاہیوں کا کام سازگار حالات میں جاگیر کی حفاظت کر نا ، منصب دار کی طرف سے مختص کی گئی ذمہ داری کو سر انجام دینا تھا اورتمام منصب داروں کی سپاہ بیرونی حملے کی صورت میں اکھٹے ہو کر بادشاہ کے تخت کا دفاع کرتی تھی۔ اس نظام سے مغلیہ سلطنت کو زبردست فائدہ ہوا لیکن جہانگیر ، شاہ جہان اور اس کے بعد آنے والے مغل بادشاہوں کے ادوار میں بتدریج یہ نظام زوال کا شکار ہوا۔ اس کی ایک بڑی وجہ بادشاہت اور وراثت کا جھگڑا تھا۔ اکبر کے بعد جانشینی کی لڑائی میں جب مغلیہ خاندان ایک دوسرے کے خون کے درپے ہوئے اور بھائی بھائی کی سلطنت کا دھڑن تختہ کرنے لگا تو منصب دار تذبذب کا شکار ہوئے کہ اب ساتھ کس کا دینا ہے اور کس کے خلاف لڑنا ہے۔ اس کا حل یہ نکلا کہ منصب دار اپنی پسند کے شہزادوں کے ساتھ جا کھڑے ہوئے ۔ جاگیروں سے ہونے والی آمدنی مختلف گروہوں میں بٹ چکی تھی۔ بادشاہ نے منصب داروں کے معاوضے مالی تنگی کی وجہ سے بند کر دیئے۔ شروع شروع میں تو منصب داروں نے سپاہیوں کی تنخوائیں کم کیں اور پھر انہیں نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا۔

Soldiers from the British Indian Army, France, c1915. 

تاریخی اعتبار سے یہ اہم پیش رفت تھی۔ سپاہی ایک لمبے عرصے تک جاگیروں کی حفاظت کرنے کی وجہ سے اپنی قوت اور منصب داروں کی کمزوریوں سے بخوبی واقف تھے۔ اس وقت تک ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکی تھی، ایک طرف سلطنت مغلیہ اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی تو دوسری طرف سپاہی جو بے روزگار تھے انہوں نے جاگیروں کو لوٹنے کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ ایسے میں فائدہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اٹھایا۔ سپاہیوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اچھی تنخواؤں کے عوض بھرتی کیا۔ پیشتر لوگ وہ تھے جن کی وفاداریاں ایک معاوضے کے عوض ایک وقت میں سلطنت مغلیہ کے ہاں گروی تھیں۔ اب وہ آزاد تھے تو انہوں نے اپنی وفاداریاں ایسٹ انڈیا کمپنی کو نیلام کر دیں۔ اب یہ لوگ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لئے کام کرنے لگے۔


1857کی مشہور جنگ آزادی سے پہلے ہی حکومت برطانیہ ایسٹ انڈیا کی کارکردگی سے مایوس ہو چکی تھی۔ یگانگت اور تسلط کے جس مشن کے تحت انہیں اس خطے پر کام کے لئے بھیجا گیا تھا وہ اس میں ناکام رہے۔1857 میں بغاوت پھوٹی اور ایسٹ انڈیا کمپنی جسے گریٹ گیم سے آؤٹ کرنے کا فیصلہ ملکہ برطانیہ سے کروایا جا چکا تھا۔ اس مقصد کے لئے بھی انہیں جان نثاروں سے کام لیا گیا جو سلطنت مغلیہ کے گارے سے ترتیب پائے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی بھٹی میں پک کر ہر طرح کی ذمہ داری سر انجام دینے کو تیار تھے۔


1857کے بعد برطانیہ کی فوج میں بھرتی شروع ہوئی اور کچھ نئے لوگوں سمیت ایک بڑی تعداد ایسٹ انڈیا کمپنی سے حکومتِ برطانیہ کی جھولی میں آگری ۔ ساری بات کا احاطہ ایک کالم میں کرنا مشکل ہے مختصراََ حکومت برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے آہستہ آہستہ اختیارات واپس لینا شروع کر دیے۔ برصغیر کی عسکری طاقت ایسٹ انڈیا کمپنی سے فوج برطانیہ میں شامل ہو چکی تھی اور برطانیہ کے مفاد کی خاطر جنگ عظیم اول میں ترکوں اور جنگ عظیم دوم میں جرمنی اور جاپان کے مد مقابل سینہ سپر ہوئی۔
اب آتے ہیں اس سلسلے کی چوتھی کڑی کی جانب ، 1947 میں برصغیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ یہاں کی افواج کو بھی دو حصوں میں بانٹا گیا۔ اب ایک نومولود ریاست کے نظم و نسق میں اہم کردار ادا کرنے کا وقت تھا۔ اس دفعہ صورتحال مختلف تھی اس دفعہ سارے کھیل میں کوئی بیرونی قوت براہ راست شامل نہیں تھی اور وقت تھا قومی ریاست کے رنگ میں ڈھلنے کا، یہ کام بخوبی انجام پا جاتا اگر کوئی اکبر، ایسٹ انڈیا کمپنی یا پھر حکومت برطانیہ ہوتی۔ یہاں بلڈی سویلین تھے جو نظام حکومت سے نابلد، اور دوسری طرف جری فوج تھی جس نے بڑے صاحبوں کے ساتھ کام کر کے ہر فن میں مہارت حاصل کی تھی۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد جو کچھ ہوا وہ نوشتہ دیوار تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).