ہماری غیر حاضری‘ ڈیم کی تعمیر اور آرٹیکل 6


موسم کی ادا یہی ہے۔ اسوج کا مہینا آیا ہے تو خزاں بھی دہلیز سے آ لگی ہے۔ ہم دیہاتیوں کے لیے مونگ پھلی کا موسم، جوار کے دن اور باجرے کی رُت لوٹ آئی ہے۔ گزشتہ سال انھی صفحات پر بصد شرمندگی اعتراف کیا تھا، کہ ہمارا ماضی اس موسم میں اپنی ان فصلوں کی حفاظت کرتے گزرا ہے۔ تب ہم اپنی ان گونا گوں مصروفیات کی بنا پر اسکول سے بلا ناغہ غیرحاضر رہا کرتے تھے، بالکل اسی طرح، جیسے بیساکھ میں گندم کی کٹائی کے لیے بغیر کسی وقفے کے چھٹیاں کیا کرتے تھے۔ اب تو وقت نے یوں پلٹا کھایا ہے کہ آج اگر ہمارے بچے ایسی کسی غیر تعمیری سرگرمی کابہانہ بنا کر غیرحاضیاں کریں توان کے تعلیمی ادارے ہمیں آئین کے آرٹیکل 6 کا گناہ گار قرار دے ڈالیں۔ بچوں کی پڑھائی یاڈیمز کی تعمیر میں رخنہ ڈالنا، اپنی نسلوں سے غداری کے مترادف ہے۔ ایسے جرائم پر قوموں کوتاریخ اور نسلیں کبھی معاف نہیں کرتیں۔

آپ سے کیا پردہ، جیسے ماضی میں ہمارے حکمران آنے والے پانی کے سنگین بحران سے صرف نظر کرتے ہوئے ڈیمز کی تعمیر میں غفلت کے مرتکب ہوتے رہے ہیں ، اسی طرح ہم ایسے چھوٹے زمیندار گھروں کے والدین بھی عارضی لمحاتی فوائد کی تاک میں اپنے بچوں کے مستقبل سے کھیلتے رہے ہیں، ورنہ ڈیمز بھی بن جاتے اور ہم پڑھ لکھ بھی جاتے۔ ملک میں آج کا پانی کا بحران اور اس ادنیٰ قلم کار کی جہالت ماضی کی انھی ڈنگ ٹپاو پالیسیوں کا شاخسانہ ہیں۔

یادش بخیر! شاید آپ کو بتایا تھا کہ بھادوں ہی میں باجرے کی حفاظت کے لیے کھیتوں میں اونچی مچانوں کا سیلاب سا امڈ آتا اور ہماری پڑھائی چوری کی راہیں کشادہ ہو جاتیں۔ برسبیل تذکرہ، ہم تاحد نظر پھیلے سرسبز لہلہاتی فصلوں سے مزین کھیتوں میں ان مچانوں کو جناب سرور سکھیرا کے وسیع اور خوب صورت دل سے تشبیہہ دیتے رہے ہیں، جہاں بقول ان کے، ان کی جوانی میں جا بجا اتنے زنانہ ٹینٹ لگے ہوتے تھے کہ کسی مہاجر بستی کا گماں گزرتا تھا۔ اس مستند دانشور کے مقابلے میں ہم نے اپنے کھیتوں میں تو بڑی مچانیں بنائیں، مگر بد قسمتی سے ہمارے دل میں کسی قابل ذکر گل بدن نے اپنا ٹینٹ لگا کر مہاجر بننا پسند نہ کیا۔

خیر،ہم موضوع سے ہٹنے کے ڈر سے یہ المیہ داستان کسی اور موقع کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ گئے وقتوں میں ہم علی الصبح کھیت میں بنائی گئی مچان پر سوار ہو جاتے اور باجرے کے خوشوں پربیٹھ کر اپنی چونچوں سے دانے چگنے والے پرندوں کو اڑانے کے لیے”ہوڈاری ہو،،کی صدائیں لگاتے، ٹین ڈبے کھڑکاتے، پٹاخے چلاتے اور رسی سے بنی بندوق (کھبانی)سے پتھر پھینکتے؛ حتیٰ کہ شام ڈھلے پنچھی اور پہرے دار اپنے اپنے گھروں کو لوٹتے اور اگلی صبح تازہ دم ہو کر دوبارہ میدان میں اترآتے۔ رات کو مونگ پھلی کی فصل کو بھی جنگلی جانوروں سے خطرہ ہوتا تھا، سو گھر کا کوئی فردکھیت کے بیچوں بیچ چارپائی بچھا کر وہیں شب بسری کرتا۔ گاہے کھیت کے درمیان صلیب کی شکل میں دو ڈنڈے گاڑ کر اور انھیں پرانی قمیص پہنا کر”ڈراوا،، تیارکیا جاتا تا کہ جانور اسے آدمی سمجھ کر نزدیک نہ آئیں۔ اس سے قبل ہم گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے خربوزوں کی فصل کی حفاظت کے لیے بھی دن بھر کھیت کنارے اپنی جھگی میں خیمہ زن رہتے۔ آج ہم جناب چیف جسٹس آف پاکستان کے ڈیم کی حفاظت کی خاطر وہاں خیمہ زن ہونے کے عزائم دیکھتے ہیں تو ماضی کے اپنے جواں جذبے یاد آتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے یہ جذبے اسکول سے چھٹیاں کر کے شغل میلے اور ٹین ڈبے کھڑکانے تک محدود تھے، جب کہ فاضل جج ایک تعمیری مشن کی خاطریہ عمل بجا لانے میں سنجیدہ ہیں۔ ہم خزاں کی آب یاری میں اپنی توانائیاں صرف کرتے رہے اور چیف جسٹس جان فزا بہار کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان بھی اس کار خیر کی خاطر مصروف عمل ہیں۔ انھوں نے قوم سے اپنے دوسرے خطاب میں اپنا وعدہ یاددلایا ہے کہ وہ ملک کے تمام مسائل عوام سامنے لائیں گے اور ہر چیز سے انھیں آگاہ کریں گے۔ اس خطاب میں وزیر اعظم نے اپنا یہ وعدہ پوراکرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں قحط کاخطرہ ہے ، لہذاعوام ڈیم کے لیے چندہ دیں۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ سات سال بعد ہمیں پینے اور اناج اگانے کے لیے بھی پانی نہیں ملے گا۔ جناب وزیراعظم نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ فی کس ایک ہزار ڈالر چندہ دیں توپانچ سال میں ڈیم بن جائے گا اور قحط سالی کا خطرہ ٹل جائے گا۔ چیف جسٹس کی طرح عمران خان نے بھی عزم صمیم کیا ہے کہ عوامی چندے کی حفاظت اور ڈیم منصوبوں کی نگرانی کا فریضہ وہ خود انجام دیں گے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے ہمیں کوئی لولی پاپ دینے کی بجائے صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ ہم پر پہلے ہی اتنا قرض چڑھ چکا ہے کہ اب مزید کوئی ہمیں قرض نہیںدے گا ،سو اب ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت ڈیم بنانے ہوں گے۔ اگر چہ نو منتخب وزیر اعظم نے اپنے پہلے خطاب میں کیے گئے وعدے پورے کرنے کے لیے بیرون ملک سرمایہ کی واپسی کے لیے ریکوری یونٹ قائم کر دیا ہے اور ترمیمی فنانس بل بھی تیاریوں کے آخری مراحل میں ہے، جس سے یقینا ملکی معیشت کو سہارا ملے گا مگر ہماری معیشت اتنی لاغر ہو چکی ہے کہ ڈیمز کے لیے پھر بھی چندے کی ضرورت ہے۔

آج ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈیم بنانے کے لیے عدلیہ اورحکومت کی طرف سے ہنگامی بنیادوں پر مہم شروع ہوئی ہے توشرم ناک حقائق سامنے آئے ہیں کہ ہماری سابق حکومتوں نے اس اہم ترین مسئلے پر کتنی غفلت کامظاہرہ کیا۔ کیا ان لوگوں کو علم نہیں تھا کہ گزشتہ تیس سال سے پانی مسلسل کم ہو رہا ہے یا انھوں نے جان بوجھ کر اس اہم ترین مسئلے پر پہلو تہی کی؟ہمارے ملک میں پانی کی صورت احوال خطرناک ہوتی گئی اور اسے محفوظ کرنے کی ہماری صلاحیت صرف تیس دن کی رہ گئی، مگر ارباب اقتدار کسی تعمیری سرگرمی کی بجائے ہم دیہاتیوں کی طرح غیر ترقیاتی کاموں کے ٹین ڈبے کھڑکاتے رہے۔ وائے حسرتا! ہم اپنی پڑھائی چوری کی ادنیٰ یادوں کو اثاثہ اور ہمارے حکمران اپنی کام چوری کی عادات اور وقتی اقدامات کو گڈ گورنس گردانتے رہے۔

ہم صدق دل سے سمجھتے ہیں کہ ڈیمز کے مخالف، ملک و قوم کے مخالف ہیں۔ بڑی خوش آیند بات ہے کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آئین کے آرٹیکل 6 کامطالعہ شروع کر دیا ہے، تا کہ ڈیم کی تعمیر میں رخنے ڈالنے والوں کے خلاف اس کے تحت کارروائی کی جاسکے۔ ہمیں یقین ہے کہ عدلیہ کی جانب سے غداری کی ان دفعات کی تشریح سے جہاں ڈیم مخالف عناصر قانون کے شکنجے میں آئیں گے، وہاں اس آرٹیکل کے دیگرگناہ گاربھی آئین کو روندنے کے اپنے جرائم کی سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔ عدلیہ کے عزائم سے واضح ہے کہ اس مرتبہ آرٹیکل ہذا کا اطلاق ماضی کی طرح ہمارے کھیتوں میں بنائے گئے جعلی ”ڈراوے،، جیسا نہیں ہو گا۔ ان شا اللہ ہم دیکھیں گے کہ بہت جلد اندرون کے علاوہ بیرون ملک مقیم غداربھی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔

حرف ِآخر یہ ہے کہ ہم عاقبت نا اندیش دیہاتی اپنے ماضی کے ناقابل رشک تعلیمی دور سے جذباتی وابستگی ضرور رکھتے ہیں مگر اسے سنہرا دور قرار دینا جہالت دوستی ہی سے تعبیر کیا جائے گا۔ ہمارا ناقص سا خیال ہے کہ ہم ایسے نالائق اور کام چور طلبا کی طرح کئی قوموں کا ماضی بھی شرم ناک ہوتا ہے، جسے سنہرا سمجھنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے میں اپنی تاریخ کو مسخ کر کے اسے شان دارماضی بنانے کی بجائے اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کیا جائے تو زیادہ مناسب ہے کہ باشعور قوموں کایہی وتیرہ رہا ہے۔ شرم ناک ماضی سے سبق حاصل کر کے تاب ناک مستقبل کا سنگ بنیادرکھا جا سکتا ہے، ورنہ وقت ایسی ظالم شے ہے کہ چپکے چپکے پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ جاتا ہے اور ماضی کی غلطیوں سے نہ سیکھنے والی قومیں دنیا کے ساتھ چلنے کی بجائے تاریخ کے پچھواڑے ہی رینگتی رہتی ہیں۔ آج جناب وزیر اعظم اور فاضل چیف جسٹس اونچی مچانوں پر بیٹھ کر قومی مفادات کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ایسی قابل رشک صورت احوال میں ڈیمز کی تعمیر اور آئین کے آرٹیکل 6 کا بلا امتیاز اطلاق ہمیں تاریخ کے پچھواڑے سے اٹھا کر مہذب قوموں کی صف میں کھڑا کر سکتا ہے۔

(بشکریہ روزنامہ دُنیا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).