چین اور جاپان کے بیچ دم ہلاتی بھینسوں کی نیلامی


آج کل سرزمین پاک پر امریکہ چین کے ڈالر یوان آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ امریکیوں کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان کا بازو مروڑ کر اسے سی پیک سے دستبردار کرا لیں۔ یا کم از کم فریز ہی کرا لیں۔ چینی اپ سیٹ ہیں۔ وہ سی پیک کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اسے مزید پھیلانا چاہتے یہ ان کے اوبور پلان کا فلیگ شپ پراجیکٹ ہے۔ وہ بھی دنیا میں چین کے سب سے قابل اعتماد جانے مانے دوست کے ساتھ۔ لیکن خیر سے چینی چپ چاپ بھاری تعداد میں واپس جا چکے ہیں۔ پراجیکٹس پر کام بند ہے۔ ساتھ ہی اسلام آباد میں چینی بار بھی بند ہیں۔ کپتان حکومت کے دو چار بیان مزید آ گئے تو مزید سکون ہو جاوے گا۔ باجوہ صاحب البتہ چین پہنچے ہوئے ہیں۔ اچھی خبر کی امید رکھنی چاہئے۔

جاپان کے نائب وزیر خارجہ پاکستان آئے تو کپتان کے لدھروں نے سرگوشیاں کیں کہ بارہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی آفر لایا ہے۔ ایسے نائب وزیرخارجہ جاپان میں کئی ٹرے پھرتے ہیں۔ یہ دورہ بھی پچھلی حکومت کے وقت سے طے شدہ تھا۔ تو ایسی کسی آفر کا امکان کافی کم ہے۔

جاپان خاموشی سے مشرق مغرب کاریڈور بنانے کو بڑا بے چین ہے۔ معاشی فوجی مفادات جاپان کے امریکہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ وہاں اللہ بھلا کرے کپتان کا کسی پرانے زمانے میں بچھڑا بھائی ٹرمپ صدارت چلا رہا ہے۔ اس نے جاپانیوں کو کافی ٹائٹ کر کے ان سے امریکہ کے لیے معاشی فوائد حاصل کیے ہیں۔ ٹیرف تبدیل کرائے ہیں۔

پاکستان کے لیے مزے کی صورتحال ہے۔ امکانات کا جہان ہے۔ نوازشریف جا چکے ہیں۔ جاپان کے ساتھ وہ ایک خاموش تصادم میں میں ملوث رہے ہیں۔ کہانی اس کی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ مشرف دور میں جاپانی اپنی سفارتی روٹین چھوڑ گئے تھے۔ پریکٹس یہ تھی کہ ہمارے ریجن میں آتے، دلی جاتے تو اسلام آباد بھی آتے تھے۔ نوازشریف کو دورے کی دعوت دی تو اس نے منع کر دیا کہ پہلے آپ کو آنا ہے۔ آپ نے چھوڑا تھا آون جاون۔ اس بات پر پانچ سال اوپر نیچے ہوتے رہے دونوں ملک۔ ساڈا میاں پسر گیا کہ نہ بیٹا، پہلے تم آؤ گے تو ہی آؤں گا۔ اس سے بس اتنا پتا چلتا ہے کہ ملکوں کے مفادات ہوتے ہیں۔ لدھروں کا ناپسندیدہ نوازشریف بھی اقتدار میں ہو توسائیڈ پھر اپنے ہی وطن کی لیتا ہے۔ پانچ سال جاپان کا دورہ کرنے سے انکاری رہا۔

اپن اب یہ سب لکھتے وکھتے تھک گیا ہے۔ مزید روشنی ڈالنے کا اب موڈ نہیں ہے۔ مزید بس اتنا ہی کہ پاکستان میں سفارتی حوالے سے اک حیران کن واقعہ ہوا ہے۔ چینی سفیر اٹھ کر کئی کلومیٹر سفر طے کر کے تقریبا پانچ بلکہ چھ سات کلومیٹر، جاپانی سفیر کے گھر ڈنر پر گئے ہیں۔ چینی ایسا کرتے نہیں ہیں۔ جاپانیوں سے دور ہی رہتے ہیں۔ انہیں حریف ہی مانتے ہیں۔

پاکستان میں ایسی ملاقات مدتوں بعد کہیں ہوئی ہے۔ اس ساری لڑائی میں کمال تب ہے جب ہم اپنے لیے ہر طرف سے معاشی فوائد حاصل کر مریں۔ مگر اس کے لئے لدھر بھائی اٹھیں، کچھ کریں۔ پچھلے والے گھوڑے بیچ کر سوئے رہے۔ یہ والے بھینسیں بیچنے میں لگے ہیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi