انکار کس کا، کس کو؟ انکار کس وقت اور کیوں؟


انکار کس کا، کس کو؟ انکار کس وقت اور کیوں؟ انکار وقت کے طاقتور ترین کو، کمزور ترین لمحوں میں اور انکار اس کو جو حاکم ہو، بااختیار ہو، مقتدر ہو اور خود کو وقت کا خدا سمجھتا ہو۔ انکار اُس کو جو مسند شاہی پر بلاشرکت غیرے براجمان ہو۔ انکار اُس کو جو زندگی اور موت پر اختیار رکھنے کا دعویدار ہو۔ تاریخ میں انکار کی چند ایک مثالیں ہی ملتی ہیں۔

سچ اُس وقت جب آپ جانتے ہوں کہ سچ کی سزا فقط موت ہے اور موت کے سوا کچھ نہیں۔ پھر بھی آپ انکار کریں، آمر اور جابر کے سامنے آمریت اور جبر کو للکاریں۔ آپ کو معلوم ہو کہ زندگی بازی ہار سکتی ہے، گھر بار اور خاندان ختم ہو سکتا ہے، بہنیں اور بیٹیاں قید ہو سکتی ہیں ۔۔۔ پھر بھی فیصلہ انکار ہو اور فقط انکار۔

امام حسین کے پاس دو آپشنز موجود تھے۔ ایک یہ کہ جو اس وقت کا حاکم حکم دے رہا ہے اسے مان لیا جائے، اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی کو آسان بنا دیا جائے، انعام، اکرام اور عہدے حاصل کیے جائیں۔ دوسرا یہ کہ جبر اور تسلط کے خلاف جدوجہد کی جائے، انسانی حقوق اور معاشرتی نا انصافی اور مروجہ اصولوں کی پامالی کو چیلنج کیا جائے اور یہی وہ وجہ تھی کہ امام نے اُس وقت کے طاقتور ترین شخص کو للکارا کہ ’مجھ جیسا تجھ جیسے کی اطاعت کیسے کر سکتا ہے۔‘

یہی وہ انکار تھا جو حسین کو خاندان سمیت کربلا لے آیا۔ اب حسین میدان جنگ میں آ گئے تو 72 ساتھیوں کو بھی چراغ بجھا کر اپنا فیصلہ خود کرنے کو کہا یعنی ہر جگہ جبر نہیں حریت کا پرچار کیا، جبھی تو دل یقین کی گواہی دیتا ہے کہ نہ تو حسین کسی ایک فرقے کے ہیں نہ کسی ایک عقیدے کا اُن پر قبضہ ہے۔

حسین صاحب حُر ہیں جو ہر حریت پسند کے دل میں اُتر جاتے ہیں، وہ صاحب اسرار ہیں جو روح کی خبر رکھتے ہیں، وہ زندہ کردار ہیں جو ضمیر شناس ہے۔ جوش ملیح آبادی نے کربلا کے استعارے کو کیا خوبصورت زبان دی ہے:

کربلا اب بھی حکومت کو نگل سکتی ہے

کربلا تخت کو تلووں سے مسل سکتی ہے

کربلا خار تو کیا، آگ پہ بھی چل سکتی ہے

کربلا وقت کے دھارےکو بدل سکتی ہے

کربلا قلعہ فولاد ہے جراروں کا

کربلا نام ہے چلتی ہوئی تلواروں کا

تاریخ سقراط کو بھی یاد رکھے گی، افلاطون لکھتا ہے کہ سقراط پر اُس وقت کے نوجوانوں کو بہکانے یعنی دوسرے لفظوں میں غداری کا الزام تھا اور جب سقراط اپنے دفاع میں دلائل دے رہا تھا تو اُس نے تاریخ میں زندہ رہ جانے والے الفاظ کہے: ‘جانے کا وقت آگیا ۔۔۔ مجھے مرنا ہے اور تمہیں جینا ہے ۔۔۔ لیکن کون صحیح ہے اور کون غلط یہ صرف خدا جانتا ہے’۔

سچ کی ایک اور پہچان بھی ہے کہ یہ انسان کو تنہا کر دیتا ہے۔ ہوا کے مخالف پرواز کرنے والے اپنی اُڑان سے بےخبر ہوتے ہیں اور تلوار کی نوک پر رقصاں زندگی کا رقص پیش کرتے ہیں۔ سچ پے ڈٹ جانے والے فقیر کا فُقر بھی ہیں اور ولی کا عزم بھی۔ سچ کا نہ تو وقت ہوتا ہے نہ اصول، سچ کی نہ زبان ہوتی ہے اور نہ قانون۔

سچ تو عشق ہے، سچ سرمست ہے، سچ زندہ ہے اور سچ پائندہ ہے۔ ہر وہ دور جہاں سچ ہر پابندی ہو، جبر کا راج ہو، معاشرتی اور معاشی ناانصافی ہو، سوچ پر پہرے ہوں، قلم پابند سلاسل ہو، وہاں سچ کہنا، سچ لکھنا لازم ہے اور چند سرپھرے اور شرپسند سچ لکھتے رہیں گے، سچ کہتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).