گورنر ہاؤسز کی مد میں نیا لولی پاپ مبارک 


کراچی کے بعد لاہور کا گورنر ہاؤس بھی عام عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ اتوار کے روز لاہور کے رہائشی اپنی فیملیز کو ساتھ لیے صبح 9 بجے سے پہلے لاہور کے گورنر ہاؤس کے گیٹ پر پہنچ گئے۔ شہریوں میں بچے، بوڑھے، جوان اور خاص بات نوجوان لڑکیوں کی تھی، سوچنے والی بات یہ تھی کہ اتنی صبح صبح اتنا میک اپ کیسے ہوگیا؟ جیسے بھی ہوا کمال کا ہوا۔ لاہور کے عوام بشمول میرے گورنر ہاؤس میں داخل ہوئے تو اچانک سے ایک بات یاد آئی جو اکثر دوست احباب جب مل کر بیٹھے ہوں تو مذاق میں کہتے ہیں کہ ” فلاں رکشے میں ایک سائیڈ سے بیٹھ کر دوسری طرف اتر کر کہتا ہے کہ میری تو دنیا ہی بدل گئی ‘‘ بالکل ایسے ہی جذبات ابھرے دل میں اور سوچا کہ ”واہ عمران خان میری تو دنیا ہی بدل گئی ‘‘۔ گورنر ہاؤس نہ ہوا کوئی تاج محل نہ ہوگیا۔ وہاں جانے کے لیے ویزہ درکار ہے لیکن یہاں پاکستان میں چند گھنٹوں کا انتظار، کچھ دھکم پیل اور شناختی کارڈ تاکہ آپ کی شناخت کی جا سکے کہ آپ ہیں کون؟

اپنے آس پاس کے لوگوں کی طرف دیکھا تو عوام ایسے خوش نظر آ رہے تھے جیسے وہ واقعی کسی انوکھی دنیا میں آگئے ہیں۔ بچوں کی خوشی دیدنی تھی۔ کچھ کپلز ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلتے پھرتے نظر آئے۔ بچے اور بڑے جیسے ہی گورنر ہاؤس میں داخل ہوئے تو پودوں کو روندتے ہوئے آگے بڑھتے گئے۔ خوبصورت پھولوں کو روند ڈالا۔ پھولوں کے پودے جن کو اگانے میں، جن کو پانی دینے میں، جن کی حفاظت کرنے میں وقت لگا، جن کی خوبصورتی کو بحال رکھنے کے لیے بہت سے مالی حضرات نے انتھک محنت کی وہ ایک بے وقوفی سے کچھ ہی لمحوں میں مٹی میں مل گیا۔

لوگوں نے خوب مزے لیے، جھیل میں کشتی پر بیٹھے جو پانی میں نہیں چلتی تھی بلکہ کنارے پر کھڑی تھی۔ کچن کی طرف قدم بڑھائے تو دیکھا کہ کچھ لوگ امرود اور کینو کے درخت کی ٹہنیوں کے ساتھ لٹکے ہیں جن میں وہ عورتیں بھی شامل تھیں جن کے ایک بازو پر چھوٹا بچہ تھا اور دوسرے ہاتھ سے وہ کینو توڑنے میں مشغول تھیں۔ دیکھ کر تعجب ہوا۔ ایک صاحب سے پوچھ ہی لیا کہ بھائی آپ یہ کیا کر رہے ہیں کیوں توڑ رہے ہیں ٹہنیاں؟ تو جواب دیا کہ ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے لگا ہے یہ پھل دار درخت اس پر ہمارا حق ہے میاں، یہ لو تم بھی کھاؤ۔ یہ کہہ کر انہوں نے چھلکا اترا ایک کینو جو کہ سبز تھا ابھی پکا نہیں تھا میری طرف بڑھایا اور وہ چھلکا جو اس نے اتارا وہیں پارک میں ایک طرف پھینک دیا۔ جہاں اس نے چھلکا پھینکا وہاں سے چند قدم دور ایک ڈسٹ بن پڑی تھی لیکن وہ خالی تھی۔

مارے حیرت کے سوچ رہا تھا کہ ان لوگوں کے لیے عمران خان نے گورنر ہاؤس کھولا تا کہ یہ لوگ اس جگہ پر گند پھیلا سکیں؟ اسی سوچ میں اچانک سے ذہن میں خیال آیا کہ عمران خان نے لاہور کے گورنر ہاؤس کو کرکٹ کا اسٹیڈیم بنانے کا وعدہ کیا تھا اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ اس کو لائبریری یا یونیورسٹی بناؤں گا۔ چلو آج معائنہ کرتے ہیں کہ کہاں پر اسٹیڈیم بنے گا اور کہاں پر لائبریری بنے گی۔ ایک پارک میں کھڑا ہو کر اپنے چاروں طرف نظر گھما کر دیکھا تو اچانک سے چہرے پر ایک مسکراہٹ امنڈ آئی اور زبان سے بات نکلی” واہ عمران خان کیا لولی پاپ دیا ہے پاکستان کی عوام کو گورنر ہاؤس کھولنے کے نام پر ‘‘۔

گورنر ہاؤس میں موجود ثقافتی ورثہ، وہ بڑے بڑے درخت جن کو بڑا ہونے میں صدیاں لگیں۔ خوبصورتی کی بات کرنے والا خود گورنر ہاؤس کی خوبصورتی کو ختم کیسے کرے گا؟ بالکل نہیں کرے گا اور نہ ایسا ہو سکتا ہے۔ نہ گورنر ہاؤس میں کرکٹ اسٹیڈیم بن سکتا ہے اور نہ ہی لائبریری کا کوئی سوچ سکتا ہے۔ چوہدری سرور صاحب نے کہا کہ گورنر ہاؤس کو کھولنے سے عوام میں شعور آئے گا، عوام گورنر ہاؤس کے چڑیا گھر سے لطف اندوز ہوں گے تو لاہور کا چڑیا گھر بند کرنے کا ارادہ ہے کیا؟ عوام کو چڑیا گھر سے لطف اندوز کروانا ہے تو جو پہلے سے موجود ہے اس کیڈویلپمنٹ کی جائے۔

گورنر ہاؤس سے بڑی جھیل ریس کورس پارک میں موجود ہے اس کو فنکشنل کیا جائے۔ گورنر ہاؤس ایک تاریخی بلڈنگ ہے اس تاریخی بلڈنگ کے نام پر عوام سے سیاست مت کریں۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ بلڈوزر کس طرف سے آئے گا؟ مال روڈ کے مین گیٹ کی طرف سے یا الحمرا ہال کی طرف سے؟ کیونکہ عمران خان تو وعدہ کرچکا ہے کہ گورنر ہاؤس گرا دوں گا۔ ستر سالوں سے جو اس ملک کے ساتھ ہوتا آیا ہے وہی ان پانچ سالوں میں بھی ہوگا۔

کوئی تبدیلی نہیں، کوئی پلان نہیں، جب سے حکومت میں آئے ہیں دو دفعہ گیس کے نرخ بڑھا چکے ہیں۔ انڈسٹری مالکان فنانس منسٹری کا منہ دیکھ رہی ہے۔ ایف بی آر کا کوئی پلان سامنے نہیں آیا۔ ٹیکس کا کوئی نظام سامنے نہیں آیا۔ بزنس کمیونٹی مفلوج ہو کر بیٹھی ہے اور اس انتظار میں ہے کہ کب کوئی پالیسی اناؤنس ہو اور ہم لوگ کاروبار جو پچھلے تین ماہ سے بند پڑا ہے اس کو چلایا جائے۔ سٹاک مارکیٹ میں دن بدن کمی ہوجاتی رہی ہے۔ فنانس منسٹر کی تعریفیں کرتے پی ٹی آئی والے تھکتے نہیں تھے وہ ابھی تک پرفارم کرنے میں ناکام ہے اور شاید مستقبل میں بھی رہے گا اور پاکستانی عوام ایک گورنر ہاؤس کھلنے کے چکر میں واہ واہ کر رہی ہے جو کہ منصوبے میں نہیں تھا۔

پچھلے پانچ سالوں میں جب بھی بات ہوئی عمران خان نے دو ہی پلان بتائے یا تو اسٹیڈیم یا لائبریری۔ نہ لائبریری بنی اور نہ اسٹیڈیم۔ صرف گیٹ کھول کے ہفتے میں ایک دن عوام کو اندر آنے دیں، تصویریں سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرکے بہادری کی تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔ مٹھی میں غذائی قلت سے بچے مر رہے ہیں اور ہم بات کر رہے ہیں افغانی اور بنگالیوں کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ دینے کی۔ یہ عمران خان کے الفاظ تھے کہ میں شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ نے مجھے 2013 میں حکومت نہیں دی کیونکہ ہمیں پتا ہی نہیں کہ حکومت کیسے کی جاتی ہے اب پتا چلا ہے اور کر کے دکھائیں گے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عمران خان آپ کو ابھی بھی پتا نہیں ہے کہ حکومت کیسے کی جاتی ہے، عوام کے بنیادی مسائل کیسے حل کیے جاتے ہیں۔

آپ کے وزرا ء پہلے باتیں کرتے ہیں پھر معافیاں مانگتے ہیں۔ کوئی روڈ میپ آپ کے پاس مووجود نہیں جسے آپ متعارف کروا سکیں سوائے میڈیا پر ہیرو بننے کے۔ لیکن آپ فکر نہ کریں خان صاحب پاکستان کی عوام آپ کے ساتھ ہے بس ہمیں اتوار کو گورنر ہاؤس کھلا ملنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).