داستان میر تقی میر


کہتے ہیں نام کا اثر انسان کی شخصیت اور اس کے اعمال پر ضرور پڑتا ہے۔کم از کم اگر میر تقی میر کو پڑھیں ،ان کی زندگی کو دیکھیں ،یہ خیال پختہ ہوجاتا ہے۔آج ہم بات کرتے ہیں اٹھارویں صدی عیسوی کے عظیم شاعر میر تقی میر کی۔ میر تقی میر 1723 کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ آگرہ ایک زمانے میں بادشاہ اکبر کا دارالخلافہ تھا۔ اس شہر کو اکر آباد بھی کہا جاتا تھا۔ اگرہ یعنی اکبر آباد نے ہندوستان کے کلچر کی تاریخ کو تین بڑے تحفوں سے نواز ہے۔ ایک تاج محل ،دوسرا میر کی شاعری اور تیسرا دیوان غالب۔ ان تین تحفوں کی وجہ سے ہندوستان کی تاریخ اور کلچر کو تاقیامت عزت و احترام ملتا رہے گا۔ غزل شاعری کی سب سے خوبصورت قسم ہے۔ غزل ایک خوبصورت شکل میں میر سے پہلے ہندوستان میں وارد ہو چکی تھی اور بھرپور انداز میں اپنی خوبصورتی پھیلا رہی تھی۔ غزل کی تاریخ ہندوستان میں صدیوں پرانی ہے۔ غزل عرب کے ریگستانوں سے چلتی ایران کے باغوں میں پہنچی ،اس کے بعد ہندوستان پہنچی ،یہ تو ہے غزل کی تاریخ۔ میر کو غزل کا خدا کہا جاتا ہے۔ میر کی غزل میں جو حسن اور عظمت ہے وہ انہیں ورثے میں ملا۔ میر کے والد خود اچھے غزل گو شاعر تھے۔ میر کے والد کا نام علی متقی تھا ،جو ایک درویش قسم کے ولی انسان تھے ،گوشہ نشینی کی زندگی کے قائل تھے ،ہر وقت یااللہ یاعلی کہتے رہتے تھے۔ کہتے ہیں میر کے والد علی متقی جب بستر مرگ پر تھے تو انہوں نے اپنے بیٹے میر کو جو اس وقت دس برس کے تھے بلایا اور کہا کہ بیٹا دیکھو میرے پاس تمہیں دینے کو کچھ نہیں ہے۔ صرف ایک امانت تمہیں سونپ رہا ہوں ،اس امانت کا نام محبت ہے۔اس کے بعد وہ انتقال کر گئے۔

میر تقی میر نے اپنی غزل کے زریعے باپ کی محبت کی ساری زندگی حفاظت کی۔ نوے سال تک میر کی غزل سے محبت نے انہیں اردو غزل کا لیجنڈ شاعر بنادیا۔ میر نے وہ عظمت حاصل کی کہ جس کا اعتراف اب ہر عہد کا شاعر کررہا ہے۔ غالب کہتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ ۔۔۔۔آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں۔ ۔۔آگے غالب فرماتے ہیں۔ ۔۔ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب،کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا۔ ریختہ اردو کا پہلا نام ہے۔ میر کا عہد سیاسی افراتفری کا عہد تھا۔ مغل سلطنت سمٹ کر لال قلعے تک محدود ہو چکی تھی۔ اس دور میں مغل بادشاہ عالم شاہ کی حکمرانی تھی۔ دلی احمد شاہ اور نادر شاہ کے حملوں کی وجہ سے برباد ہو چکی تھی۔ اب میر دلی سے لکھنو آگئے۔ لکھنو میں میر تقی میر کو خوب عزت و احترام سے نوازا گیا۔ میر غزل کے اتنے بڑے شاعر ہیں کہ دوسو سال گزرگئے لیکن آج بھی انہیں غزل کا شہنشاہ مانا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ میر تقی میر کو خدائے سخن یعنی غزل کا خدا کہا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس کے مستحق بھی تھے۔اردو ادب میں دو ایسے شاعر ہیں جنہیں خدائے سخن کہا جاتا ہے،ان میں سے ایک میر تقی میر اور دوسرے میر انیس ہیں۔ میر انیس کو مرثیئے کی وجہ سے خدائے سخن کہا جاتا ہے۔ اردو ادب کے دانشوروں اور عظیم شعراٗ کے مطابق میر سے پہلے کی شاعری گھٹنوں پر چل رہی تھی، ان سے پہلے اردو زبان بھی صاف نہیں تھی ،لیکن میر کے آنے کے بعد اردو زبان میں بہتری آئی۔

میر تقی میر نے نوے سال کی عمر پائی ،جوانی سے لیکر بڑھاپے تک وہ شعر لکھتے اور سناتے رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے ڈھائی ہزار سے زیادہ غزلیں لکھی اور مشاعروں میں ان غزلوں کو سنایا اور بھرپور داد سمیٹی۔ آج دو سو سال سے اوپر گزر گئے ،میر کی لکھی گئی ہر غزل زبان زد عام ہے۔ ۔۔۔۔۔پاکستان کے ایک بہت بڑے مصور گزرے ہیں جن کا نام صادقین تھا۔ انہوں نے غالب ،میر اور بہت سے شاعروں کے شعروں کے پورٹریٹ بنائے ،کسی نے ان سے ایک بار کہا کہ میر کا ایک شعر ہے ،اس کا پورٹریٹ بنائیں ،شعر یہ تھا ،نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے۔ ۔۔۔پنکھڑی ایک گلاب کی سی ہے۔ ۔۔۔کہنے لگے وہ بھی اس شعر پر پورٹریٹ بنانے کا سوچتے ہیں ،لیکن وہ بنا نہیں سکتے ،پورٹریٹ میں گلاب کی پنکھڑی لے کر تو آسکتا ہوں ،لیکن میر کی سی کہاں سے لاوں۔ شعر کا سارا لطف ہی سی میں ہے ،کہتے ہیں سی کا مزہ لیا جاسکتا ہے ،لیکن سی کو مصوری کی زبان میں بھی بیان نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تھے میر تقی میر۔ اردو زبان و بیان کے معاملے میں وہ باکمال تھے۔ میر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے بہت ساری شاعری کی اور کمال کوالٹی بھی دی۔ غالب جیسا عظیم شاعر جو کسی کو نہیں مانتا تھا ،وہ بھی میر کے فن کا معترف تھا۔ غالب بھی کہہ گیا ہے کہ بلاشبہ خدائے سخن میر ہی ہے۔ دلی جب تباہ و برباد کر دیا گیا ،تو میر لکھنو چلے گئے تھے ،لکھنو میں انہیں خوب عزت و شہرت ملی ،لیکن آخری وقت تک ان کا دل دلی میں ہی اٹکا رہا۔ بڑھتی ہوئی عمر ،دلی سے جدائی اور رنج و غم کے عالم میں میر تقی میر 20ستمبر 1810 میں لکھنو میں انتقال کر گئے۔

آج لکھنو میں ان کی قبر تک نہیں ہے کیونکہ لکھنو میں ان کی قبر کو مسمار کرکے ریلوے لائن بچھا دی گئی ہے۔ لیکن میر کی شاعری ہمیشہ زندہ رہے گی۔۔۔فقیرانہ آئے صدا کر چلے۔ ۔۔۔میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے۔ ۔۔کہا جاتا ہے کہ اگر دنیا میں عظیم شاعروں کی لسٹ تیار کی جائے ،ایسے شاعروں کی لسٹ جن کے بارے میں کہا جائے کہ ان کا نام زمین پر ہمیشہ رہے گا تو میر وہ شاعر ہوں گے جن کا نام اس لسٹ میں سب سے اوپر ہوگا۔ ۔۔میر کا احسان اردو زبان پر تاقیامت رہے گا۔ ۔۔۔۔۔۔کیا بود و باش پوچھے ہو پورب کے ساکنو۔۔۔۔۔۔ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے۔۔۔۔۔دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب۔۔۔۔۔رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے۔۔۔۔۔۔جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا۔۔۔۔ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے۔۔۔۔۔میر کا ایک شعر ہے۔ ۔۔سرہانے میر کے آہستہ بولو،ابھی ٹک روتے روتے ہو گیا ہے۔ ۔۔۔ چلتے ہو تو چمن کو چلیے، کہتے ہیں بہاراں ہے۔۔۔۔ پات ہرے ہیں، پھول کھلے ہیں، کم کم باد و باراں ہے۔۔۔۔۔۔ پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے۔۔۔۔۔۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔۔۔۔۔۔ الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا، دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا۔۔۔۔۔”میر” کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو، قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا۔ ۔ ۔ بنیادی طور پر میر کی شاعری عشقیہ ہے ،وہ شعر ایسے کہتے ہیں جیسے گفتگو کررہے ہوں،شاعری میں دلکشی اور سادگی ہے ،حسن بیان ایسا کہ غالب بھی دنگ رہ گیا۔

ہستی اپنی حباب کی سی ہے

یہ نمائش سراب کی سی ہے

نازکی اُس کے لب کی کیا کہئیے

پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے

بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں

حالت اب اضطراب کی سی ہے

میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز

اُسی خانہ خراب کی سی ہے

میر اُن نیم باز آنکھوں میں

ساری مستی شراب کی سی ہے

٭٭٭  ٭٭٭

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا،

آگے آگے دیکھیے ہو تا ہے کیا،

قافلے میں صبح کے اک شور ہے،

یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا

سبز ہوتی ہی نہیں یہ سرزمیں

تخم خواہش دل تو بوتا ہے کیا

یہ نشان عشق ہیں جاتے نہیں

داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا

٭٭٭   ٭٭٭

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے

یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے

عشق اک میر بھاری پتھر ہے

کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے

ہو گا کسی دیوار کے سائے کے تلے میر

کیا کام محبت سے اُس آرام طلب کو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).