افشاں ہما کی جذباتیت کے جواب میں


\"zunaira-saqib-3\"افشاں ہما صاحبہ کا جذباتی کالم پڑھا۔ جذباتی میں نے اس لئے کہا کہ انھوں نے اعداد و شمار سے جواب دینے کی بجاے مجھے عامیانہ سوچ کا مالک قرار دے ڈالا اور اسی میں میرے ادارے کے بارے میں بھی کچھ ایسی ہی سوچ کا اظھار کیا۔ محترمہ آپ کی باتوں کا جواب دینے سے پہلے عرض ہے کہ بحث کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے۔ یہ طریقہ کار ہمیں کم علم لوگوں سے الگ کرتا ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کو عامیانہ سوچ کا مالک کہیں گے تو بحث کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ میں بھی اسی کالم میں آپ کو کچھ سخت سست سنا دیتی ہوں فائدہ کچھ نہیں۔ اس بحث کا مقصد پڑھنے والوں کو معلومات فراہم کرنا ہے اور ایک دوسرے سے کچھ سیکھنا بھی۔ اب آ جائیے آپ کی باتوں کے جواب کی طرف۔

پشاور سے ایک بچی کی فون کال پر آپ نے یہ فیصلہ کر لیا کہ تمام پروفیسرز اپنے نام کے ساتھ امپیکٹ لگاتے ہیں اور وہ یا تو امپیکٹ فیکٹر جرنلز سے بلکل ہی نابلد ہیں یا پھر ان کو استعمال نہیں کرتے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ مجھے کوئی فون کر کے کہے کہ آپ کو پتا ہے فلاں صاحب پیسے لے کر اپنے پپیر جرنل میں چھپواتے ہیں اور میں که دوں کہ جناب وہ پوری یونیورسٹی کرپشن کا شکار ہے اور سارے کے سارے پروفیسر ایسے ہی اپنے پپیر پبلش کرتے ہیں۔ اس پیشے سے تعلق ہونے کے ناتے میں مجھے بالکل اس بات کا علم ہے کہ حقیقت میں بعض استاد طالب علموں کا غلط استعمال کرتے ہیں اور پبلش کرنے کے لئے ہر قسم کا جائز ناجائز حربہ استعمال کرتے ہیں۔ لکن کچھ گندی مچھلیوں کی وجہ سے آپ پورے تالاب کو گندا قرار دے ڈالیں تو زیادتی کر دی آپ نے۔

دوسرا آپ نے یہ کہا کہ میں نے اسسٹنٹ پروفسسر کی تنخواہ کی بات کی ہے۔ وہ میں نے اس لئے کی ہے کہ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد آپ سیدھے اسسٹنٹ پروفیسر ہی بنتے ہیں۔ چونکہ آپ کا تعلق بھی ایک معتبر ادارے سے ہے تو آپ کے علم میں ہو گا کہ ہائر ایجوکیشن کاایسوسی ایٹ پروفیسر بننے کا عمل اتنا سخت ہے کہ بمشکل ٥-٦ فیصد لوگ ہی اس عھدے پر پہنچ پاتے ہیں۔ زیادہ تعداد جامعات میں لیکچرر اور اسسٹنٹ پروفیسرز کی ہی ہے۔ جی میں نے یاسر صاحب کی تنخواہ کی بات اس لئے کی ہے کہ میں یہ بتانا چاہ رہی تھی کہ ہمارے ملک میں اچھے پی ایچ ڈی پروفیسرز ٹک کیوں نہیں پاتے۔ یاسر نے فرمایا کہ کم بجٹ میں کام کر کے دیکھیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ فوج کی نوکری تو ہے نہیں کہ ہم جذبے اور ایمان سے کام کرتے جائیں۔ ایک امید ویسے فوج کی نوکری میں یہ ہوتی ہے کہ آخر میں پنشن لگ جاتی ہےاگر اچھے عھدے پر پہنچ جائیں تو پلاٹ اور گھر بھی مل جاتا ہے۔ یہاں تو ایسا کچھ نہیں۔ زیادہ تر جامعات نے اپنے استادوں کو کنٹریکٹ پر رکھا ہوا ہے ۔ اب پیٹ تو سب کے ساتھ لگا ھوا ہے۔ جب ان پروفیسرز کو سعودیہ اور مڈل ایسٹ سے اچھے پیسے کے ساتھ آفر آتی ہے تو یہ وہاں چلے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے یہاں آپ کے یہاں بہت اچھے پی ایچ ڈی پروفیسرز نہیں پاے جاتے۔ یہ مقصد تھا تنخواہ پر بات کرنے کا۔ آپ نے تو عامیانہ سوچ کا قرار دے کر بات ہی ختم کر دی محترمہ ۔

آپ نے سوال پوچھا کہ اتنے سارے پی ایچ ڈی ہونے سے پاکستان میں کیا فرق پڑا؟ تو اس جواب یہ کہ جن رینکنگ کے اوپر اکثر شور مچایا جاتا ہے۔ پاکستان کی کئی جامعات دنیا کی ٹاپ 500 جامعات میں آ گئی ہیں جس کی بہت بڑی وجہ ریسرچ میں اضافہ ہے۔ پاکستان میں پچھلے 10 برس میں ریسرچ میں 600% اضافہ ہوا ہے۔ جی ہاں آپ کہہ سکتی ہیں کہ اس کا معیار وہ نہیں ہے جو ہونا چاہیے تھا لیکن کیا ہمیں اس عمل کو کچھ وقت نہیں دینا چاہیے؟ 10 اگست 2015 کو نیو یارک ٹائمز میں شایع ہونے والے ایک مقالے میں پاکستان میں آئ ٹی کے شعبے میں قا بل رشک ترقی کا ذکر کیا گیا تھا۔ اس ترقی کے تانے بانے 2001 میں ہونے والے ان فیصلوں سے جوڑے گئے جب پاکستان میں ڈاکٹر عطا الرحمان نے جامعات قائم کرنے کی بنیاد رکھی تھی ۔ اگر آپ چاہیں تو تفصیل کے لئے اس لنک پر رجوع کریں

http://www۔awaztoday۔pk/singlecolumn/33799/Dr-Atta-ur-Rahman/Information-Technology-Mein-Pakistan-Key-Traqqi۔َثپش

کہنے کا مقصد یہ کے کہ سب کچھ زیرو نہیں ہے۔ یہی جامعات ہیں جو کہ ملک میں تبدیلی لانے کا سبب بھی بن رہی ہیں۔ یہی جامعات ہیں جہاں کچھ تبدیلی لانے کی بھی ضرورت ہے لکن ان کو زیرو کہ کر آپ زیادتی کر دیتے ہیں۔

میں نے خود اپنے کالم میں تسلیم کیا ہے کہ پاکستان میں پی ایچ ڈی کروانے کا وہ میعار ہر گز نہیں ہے جو ہونا چاہیے تھا۔ اگر آپ نے نیچے دیا گئے کمنٹس پڑھے ہوتے تو میں نے اس میں بھی جواب دیا تھا کہ اس کی بہت بڑی وجہ ہائر ایجوکیشن کا بنایا ہوا انتہائی بیوقوفانہ نظام ہے۔ جسکو ماننے کے جامعات والے محتاج ہیں۔ ہان لیکن میں یہ ضرورسجھتی ہوں کہ اگر چیزیں ایسے چلتی رہیں اور ہائر ایجوکیشن میں بھی وہ لوگ آ گئے جو پی ایچ ڈی کرنے کے عمل سے گزرے ہیں تو اس میں ضرور بہتری آے گی ۔ میں خود اپنی پی ایچ ڈی کے آخری سال میں ہوں اور ان سب باتوں کو سمجھتی ہوں۔ یہاں موجود بہت سارے پروفیسرز کی نالائقی کا بھی اندازہ ہے۔ لکن سب کو ایک ڈنڈے سے مت ہانکیے ۔ بہت سارے لوگ بہت محنت سے اپنے طالب علموں کو پی ایچ ڈی کروا رہے ہیں۔ آپ ماشاللہ امریکا سے پی ایچ ڈی کر کے آئی ہیں مجھے یقین ہے آپ اپنے طالب علموں کو کہیں بہتر سپر وائز کریں گی ۔

چندی گڑھ یونیورسٹی کے بارے میں میں آپ سے اور یاسر دونوں سے معذرت طلب کرتی ہوں۔ یقیناً میرے دیکھنے میں یہ غلطی ہوئی۔ یہ یونیورسٹی واقعی ایشیا میں 38 نمبر پر ہے۔ اور اس کا بجٹ بھی پاکستان میں پنجاب یونیورسٹی سے کم ہے۔

امید ہے آپ کے تمام سوالوں کا میں نے جواب دے دیا ہو گا۔ شائستہ بحث کی امید رکھتے ہوے یہ بلاگ ختم کرتی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments