ہربھجن سنگھ خربِندہ، بھارت میں میرا ایک دوست


ہندوستان کی ایک ارب بتیس کروڑ آبادی میں اگر آپ کا ایک بھی سکھ دوست بن جائے تو پھر آپ کو کسی اور کو دوست بنانے کی ضرورت نہیں۔ ہربھجن سنگھ خربِندہ، میرے بھارت کے پہلے سفر میں اس وقت دوست بنا، جب دہلی کے پرگتی میدان میں عالمی صنعتی نمائش میں پاکستان کے سٹال پر اس قدر رش تھا کہ یوں لگا جیسے جلسہ ہورہا ہو۔ میں بھارت کے دارالحکومت میں لگے پاکستانی پرچم کو لہراتا دیکھ کر حیران رہ گیا۔ تب جہاں گرد نے ابھی زندگی کی تیسری دہائی عبور نہیں کی تھی۔ جوانی کا جوش اور دہلی میں سبز ہلالی پرچم۔ اپنے وطن میں ہروقت لوگوں نے تقریروں میں اس جملے کو بہت گرما رکھا تھا کہ، ہم دہلی کے لال قلعے پر پاکستان کا پرچم لہرائیں گے۔ مگر یہ پرچم پاکستان کے ہینڈی کرافٹس کے سٹال پر لہرا رہا تھا۔ دنیا کے بڑے ترقی یافتہ ممالک کے سٹالز وہاں موجود تھے۔ جدید سے جدید ایجادات لوگوں کو متوجہ کررہی تھیں۔ تب ابھی بھارت نے دنیا کی مصنوعات کے لیے اپنی منڈی نہیں کھولی تھی۔ اس کے باوجود سب سے زیادہ رش پاکستان کے سٹال پر تھا، جہاں لکڑی اور ماربل سے بنی اشیا اور دیگر مصنوعات نمائش کے لیے پیش کی گئی تھیں۔ یہ پاکستان جہاں گرد اس صورتِ حال کو دیکھ کر مزید جذباتی ہوگیا۔ دہلی میں لہراتا سبز ہلالی پرچم اور اس کے سائے تلے، بھارتیوں کا میلہ۔ میں ملے جُلے جذبات کی بدولت نمائش دیکھنے اور دکھانے والے، دونوں میں شامل تھا۔ اتنے زیادہ لوگ ہمارے سٹال پر ہی کیوں؟ جب لوگوں سے مکالمہ ہوا، کس شہر میں پیدا ہوئے، کہاں رہتے ہو؟ تو سرگودھا، میانوالی، لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، راولپنڈی اور دوسرے شہروں کا حال احوال پوچھا جانے لگا۔ تب معلوم ہواکہ لوگ پاکستانی سٹال پر کیوں امڈتے چلے آرہے ہیں۔ دہلی میں بسنے والے زیادہ لوگوں کا تعلق پاکستانی پنجاب کے اُن مہاجروں سے ہے جو 1947ء کی تقسیم کے بعد اپنا یہاں سب کچھ چھوڑ کر وہاں جا بسے۔ عورتیں، مرد، ہندو، سکھ، ہر کوئی مجھ سے مل کر بہت خوش تھا۔ ہر کوئی اپنے بچھڑے شہر کا احوال جاننا چاہتا تھا۔ لکشمی کیسا ہے۔ مال روڈ اسی طرح خوب صورت ہے۔ سندر داس روڈ (ایچیسن کالج کے پیچھے) سڑک اسی طرح ٹھنڈی ہے۔ راولپنڈی کے بازار۔ سرگودھا کے لوگ ویسے ہی بڑی بڑی سفید دھوتیاں اور کلف لگی سفید پگڑیاں پہنتے ہیں۔ جتنے لوگ تھے، اس سے زیادہ سوالات۔ کئی آنکھیں اشک بار تھیں۔ سب سے زیادہ پنڈی وال، لاہوریے اور چکوال والے تھے۔ ایک شخص نے سفید دھوتی اور بش شرٹ اور اس کے اوپر پگ باندھ رکھی تھی۔ ادھیڑ عمر جنم داس نے خاص میانوالی زبان میں بلند آواز میں کہا، کیسا ہے میرا پاکستان، میرا میانوالی۔ بھگوان نے موقع دیا تو مرنے سے پہلے دیکھ کر ہی مروں گا۔ میں بچھڑی ہستیوں کا خبرنگار بن چکا تھا۔ ایک عجب سماں تھا۔

اس بھیڑ میں ایک جواں سال سکھ رنگ دار پگڑی باندھے مجھے مسلسل دیکھے جا رہا تھا۔ میں سمجھ چکا تھا، اس کا بھی کچھ کھویا ہے جس کے بارے میں وہ جاننا چاہتا ہے۔ شرمیلا، دبلا پتلا سکھ۔ میرے طویل جوابات کے بعد وہ میری طرف بڑھا اور ہاتھ ملا کر کہنے لگا، جی آیاں نوں۔اس نے بتایا، میرا نام ہربھجن سنگھ خربِندہ ہے۔ میں 14اگست 1947ء کو مردان میں پیدا ہوا۔ اسی سال میں ہجرت شروع کردی۔ اگر آپ قبول کرو تو میرے گھر چلو۔ میرے پتاجی آپ سے مل کر خوش ہوں گے۔ 1947ء کے بعد تم پہلے پاکستانی ہوگے جو میرے پتاجی کو ملو گے۔ ہم دہلی کے ایک نچلے طبقے کے محلے پرتاپ نگر میں رہتے ہیں اور اگر مناسب سمجھو تو میرے ہی گھر رہ لو۔
جب وہ اپنا پورا تعارف کروا چکا تو اس کی سانسیں اب اس کے الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔ چڑھتی جوانی میں جہاں گردی واہگہ سرحد عبور کرکے کی تھی۔ میرے لیے واہگہ سرحد 1947ء کی لہو بھری داستانوں کے علاوہ 1965ء کی جنگ سے تعلق رکھتی تھی۔ 1965ء کی جنگ کے خاتمے کے بعد ہم سب بہن بھائیوں کو امی اباجی بی آر بی نہر لے گئے جہاں جنگ کے سارے زخم ابھی تازہ تھے۔ نہر کے پرلے کنارے پر موجود بھارتی مورچوں میں مَیں نے بھارتی فوجیوں کے لاتعداد نشانات دیکھے جس میں مورچوں میں سجی دلیپ کمار کی تصویریں اور شراب کی خالی بوتلیں بھی تھیں۔ بی آر بی نہر کے پرلی طرف جہاں تک بھارتی فوج پیش قدمی کرکے آچکی تھی، وہاں ابھی تک گولیوں اور توپوں کے گولوں کے خالی خول بکھرے پڑے تھے۔ 1965ء کے بعد اسی راہ پر پندرہ سال بعد میں نے پاسپورٹ حاصل کرتے ساتھ ہی واہگہ سرحد کو عبور کرلیا۔ یادیں ابھی تازہ تھیں۔
ہربھجن سنگھ خربِندہ۔ وہ اپنے آپ کو ایچ ایس خربِندہ کہلواتا ہے۔ مختصر نام۔ نوجوان جہاں گرد کے دل میں بڑے وسوسے تھے۔ مگر میرا دل جہاں گرد ٹھہرا۔ جہاں گردی میں مَیں دماغ سے زیادہ دل کو استعمال کرتا ہوں۔ خطرات سے کھیل جانا ہی تو جہاں گردی ہے، وگرنہ تو سیرسپاٹا۔ سیاح بڑا لالچی ہوتا ہے کھانے اور رہائش کے معاملے میں کہ کسی نہ کسی طرح بچت ہوجائے۔ مگر میرا بڑا لالچ آوارہ گردی کے مواقع ہیں۔ اگر اس میں کوئی سہولت مل جائے۔ خربِندہ کی رہائش کی آفر دلکش تھی۔ مگر میں نے کہا، رہائش نہیں، آپ کے ہاں چلوں گا ضرور۔ آپ کے پتاجی کو ملنے۔ خربِندہ ، دہلی یونیورسٹی کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کرتا تھا۔ دہلی میں پاکستان کے سبز ہلالی پرچم تلے لگے ہجوم میں اس سکھ سپوت سے ایسی دوستی بنی کہ اس کا بھارت میں کوئی بدل ہی نہیں۔ میری جہاں گردی کی جستجو کے کئی در کھل گئے۔ خربِندہ مکمل غیرسیاسی مگر سیاست کے تمام موضوعات پر بولنے کا ملکہ رکھنے والا، تاریخ ، آرکیالوجی اور لوگ ، کتابیں پڑھنے کا رسیا۔ فلموں کا حافظ۔ پاکستان کے شہروں کو یوں جانتا ہے جیسے پاکستان کے ہرشہر میں جنم لے رکھا ہو۔ پاکستان اور ہندوستان کے سیاسی لیڈروں کی زندگیاں اور اُن کے واقعات کو ایسے جانتا ہے جیسے ہر واقعے کا گواہ ہو۔ اور دل شاہ خرچ، بلکہ شاہ مکھی۔

دہلی کے پرتاپ نگر میں جب وہ مجھے لے کر پہنچا تو سارا محلہ ایک نوجوان پاکستانی کو دیکھنے امڈ آیا۔ ہلکے آسمانی رنگ کا شلوار قمیص پہن رکھا تھا۔ وہاں دیکھا تو بیشتر سکھوں نے جو چالیس سے اوپر تھے، اکثر نے شلوار قمیص پہن رکھے تھے۔ پرتاپ نگر کے اس محلے میں زیادہ سکھ پائے۔ ادھیڑعمر تو کیا، نوجوان لڑکے لڑکیاں بھی پاکستان سے آئے اس جہاں گرد کو دیکھنے چلے آئے۔ خربِندہ کے گھر کے سامنے ایک وھیڑا تھا۔ اس وھیڑے کے گرد تمام مکانوں کے مکین سب ہی پاکستان سے مہاجر ہوکر یہاں آبسے تھے۔ خربِندہ بڑا فخر محسوس کررہا تھا، اپنے ہاں ایک پاکستانی کو مدعو کرکے۔ خربِندہ کے باپ نے مجھے دیکھ کر گلے لگایا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ کیسا ہے میرا پاکستان۔ مردان کا کیا حال ہے۔ میرا یہاں دل نہیں لگ رہا۔ رب مجھے واپس وہیں لے چلے۔ خربِندہ کے والد نے اس وقت پگ نہیں پہن رکھی تھی۔ سیاہ اور سفید دراز کیس کھلی تھیں۔ ایسا لگا ایک مہاجر ماتم کررہا ہے کھلے بالوں میں۔

خربِندہ نے کہا، فرخ کو دلی دیکھنے کا بڑا شوق ہے۔ محلے سے اکٹھے ہوئے مجمعے میں ایک خوب صورت نوجوان سکھ لڑکی نے شرارتی انداز میں کہا، اور مجھے لاہور دیکھنے کا شوق ہے۔ میں تمہیں دلی دکھاؤں گی اور تم مجھے لاہور۔

خربِندہ نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا، دلی تو فرخ کو میں دکھاؤں گا۔

جاننے ، معلومات اور علم کا حریص یہ جہاں گرد۔

خربِندہ نے پھر مجھے وہ دہلی دکھائی جو شاید کسی نے نہ دیکھی ہو۔ اس پہلے سفر کے بعد مسلسل ہر سال پانچ بار بھارت کی جہاں گردی کی۔ خربِندہ اور دہلی، تاریخ سے لے کر ہمعصر دہلی کی تہذیب تک، بلبن کے مقبرے سے لے کر رضیہ سلطان کی قبر تک۔ اور فیروز شاہ کوٹلہ میں متحدہ ہندوستان کی آزادی کے انقلابی بھگت سنگھ کا خفیہ ٹھکانہ۔ خربِندہ، دہلی کو دہلی والوں سے زیادہ جانتا ہے۔ میں نے یہ سفر اس وقت کیے، جب بھارت جانا مشکل تھا اور اسرائیل جانا شاید آسان۔ ان مشکل سفروں میں جو مجھے سرحد کے اِس طرف یا اُس طرف کی خفیہ نگاہیں میرے مسلسل سفروں پر شک کرسکتی تھیں۔ مگر جنونِ جہاں گردی کو تاریخ، سیاسی تاریخ، ثقافت، لوگ اور سرزمین اور مقامات کی تلاش، اور جہان کو پالینے کی جستجو۔ یہی تو مہم جوئی ہے۔ بھارت میں میرا دوست خربِندہ۔ اس نے میرے ہرسفر میں جس محبت کا اظہار کیا، وہ متاثرکن بھی ہے اور بہت دلچسپ بھی۔ اپریل 2007ء میں بھارت میں ایک عالمی کانفرنس ہوئی۔ گروپ کی قیادت میں نے کرنا تھی اور گروپ میں لوگوں کو میں نے ہی نامزد کرنا تھا۔ اس گروپ میں سردار آصف علی، ڈاکٹر انور سجاد، احتشام ربانی اور دیگر کے علاوہ میں نے جناب عمران خان کو نامزد کیا۔

کانفرنس کے ان دنوں میں مجھے کلدیپ نیر صاحب نے کہا کہ ایک رات میں آپ کے اعزاز میں ڈنر رکھنا چاہتا ہوں۔ تو میں نے کہا کہ آپ جن چیدہ چیدہ لوگوں کو بلوائیں گے، اُن میں دو نام میری طرف سے ڈال لیں۔ ایچ ایس خربِندہ اور میرے دوست مسرور احمد خان، حکیم اجمل خان کے پوتے۔ ڈنر کیا تھا، سیاست، تاریخ، بھارت اور پاکستان پر ایک یادگار محفل تھی۔ کلدیپ نیر نے کہا، گوئندی صاحب کے اعزاز میں اس ڈنر میں ، گوئندی صاحب کی خربِندہ جی کے ساتھ اس گہری دوستی کو دیکھ کر میں چاہوں گا کہ جس ڈنر کا اہتمام میں نے کیا ہے، اس کے میزبان خربِندہ جی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).