عجیب النسا کا حرامی


حسن سپروائزر کا یہ ایس ایم ایس پڑھتے ہی میرے دل سے گویا ایک بھاری پتھر ہٹ گیا کہ تمہاری عجیب النسا آج فجر کے بعد چل بسیں۔

یو نو وٹ۔۔۔اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ وہ کونسا پروجیکٹ ہے جس میں کسی بھی دوسرے پروجیکٹ سے زیادہ وقت، وسائل، محنت، توانائی اور تربیت کے باوجود منافع کا امکان سب سے کم اور خسارے کا امکان سب سے زیادہ ہے۔اس کے باوجود سب سے زیادہ لوگ اسی پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کرتے ہیں ؟ اولاد۔۔۔۔۔۔۔۔

عجیب النسا کی تدفین کے بعد میں اور حسن سپروائزر آمنے سامنے کی دو پرانی قبروں سے گاؤ تکیے کی طرح ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔میری سوالوں بھری آنکھوں سے ٹپکتے تجسس کو حسن سپروائزر کی خفیف سی ٹیڑھی بائیں آنکھ نے لپک لیا۔ ’’ بیٹا بس کیا بتاؤں ؟ جائے نماز سے اٹھتے ہی کہنے لگیں، نیند آ رہی ہےکوئی ڈسٹرب نہ کرے۔ آدھے گھنٹے بعد اٹھا دینا۔ میں نے آہستہ سے ان کے کمرے کے کواڑ بھیڑ دیے۔ پینتیس چالیس منٹ بعد یاد آیا تواندر جھانکا۔ تب تک بڑی بی نکل چکی تھیں۔ برس ہا برس دن رات دیکھنے کی وجہ سے مجھے شائد ان کی عادت ہوگئی تھی اس لیے ابھی خالی خالی سا لگ رہا ہے۔۔۔۔۔‘‘

کل ہی کی تو بات ہے کہ گیارہ مئی انیس سو ستاسی کو عجیب النسا کا اکلوتا بیٹا خالد انھیں یہاں جمع کرا گیا تھا۔ (میں نے آج تک خالد کا صرف نام ہی سنا ہے)۔ بقول حسن سپروائزر عجیب النسا کو یہاں داخل کرانے کے بعد خالد پہلی اور آخری دفعہ ٹھیک ایک سال بعد گیارہ مئی انیس سو اٹھاسی کو ماں سے ملنے آیا تو اس نے دور سے تمہیں (یعنی مجھے ) عجیب النسا کی گود میں دیکھا اور پھر وہ اپنی ماں کے لیے جو تین جوڑے لایا تھا میرے ( یعنی حسن سپروائزر) حوالے کرکے بنا ملے ہی چلا گیا اور پھر نہیں پلٹا۔ لگ بھگ چھ سال بعد بس ایک مرتبہ خالد کا خط ڈاک سے آیا۔ جب حسن سپروائزر نے وہ خط عجیب النسا کو لا کر دیا تو میں انھی کی گود میں سر رکھے بخار میں پھک رہا تھا۔ مجھے عجیب النسا کی آنکھیں کبھی نہیں بھول سکتیں جو لفافے پر لکھائی دیکھتے ہی لہلہلا اٹھی تھیں۔ پر جیسے جیسے وہ سطر در سطر خط میں اترتی گئیں، چہرہ بھی پیاسی زمین سا چٹختا چلا گیا۔

اب جب کہ عجیب النسا مرچکی ہیں تو بتانے میں کوئی حرج نہیں کہ اس دن جب وہ کمرے سے باہر آرام کرسی پر بیٹھی دھوپ سینک رہی تھیں تو میں نے وہ خط ان کے تکیے کے نیچے سے نکال کر بڑی مشکل سے ہجے کر کر کے اتنا ضرور سمجھ لیا جتنا ایک چھ ساڑھے چھ سال کا چوری پکڑے جانے کے خوف سے گھبرایا بچہ سمجھ سکتا ہے۔اسلام آباد ، اسکیل اٹھارہ، نوشین، شادی، بابا، فیکٹری، عمرہ، بہت مصروف ہوں ، بچہ کس کا ہے؟ بس خط کی یہی کچھ باتیں مجھے یاد ہیں۔

اگلے دن جب عجیب النسا کمرے سے باہر بیٹھی حسبِ معمول دھوپ سینک رہی تھیں تو میں نے پورا خط تسلی سے پڑھنے کے لیے دوبارہ ان کے تکیے کے نیچے ہاتھ مارا مگر وہ وہاں نہیں تھا۔ ارے کہیں آپ یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ عجیب النسا سے میرا کوئی براہ راست رشتہ ہے؟

نہیں نئیں نئیں۔۔۔حسن سپروائزر کو بھی بس اتنا معلوم ہے کہ مجھے کوئی باہر رکھے پنگھوڑے میں منہ اندھیرے ڈال گیا تھا اور عجیب النسا نے یہ کہہ کر میرا چھوٹا سا بستر اپنے کمرے میں لگوا لیا کہ دل بہلا رہے گا۔ وہ بتاتی رہتی تھیں کہ جب میں بولنے کے قابل ہوا تو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے ان کا چہرہ ٹٹولتے ہوئے کہتا تھا ادیب ان نت آ۔۔۔۔ اور وہ مجھ سے بار بار کہلواتی تھیں ادیب ان نت آ۔۔۔۔انھیں یہ اتنا اچھا لگا کہ جب تک زندہ رہیں ان کا پورا نام لیتا رہا۔ ایک میں ہی تو تھا ان کا پورا نام لینے والا۔۔۔۔۔

ہوش سنبھالنے کے بعد کی جو چند یادیں کچھ کچھ ذہن میں اٹکی ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہر دو تین مہینے بعد عجیب النسا صبح ہی صبح کمرے کی الماری میں سے کچھ کاغذ نکالتیں اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کے کہتیں چل سرٹیفکیٹ تڑوا لیں۔ پھر ہم دونوں رکشے میں بیٹھ کر ایک دفتر میں جاتے اور ان سرٹیفکیٹوں کے بدلے نوٹوں کی ایک گڈی مل جاتی۔ (نہ انھوں نے کبھی بتایا نہ میں نے پوچھا کہ ان سرٹیفکیٹوں کا پس منظر کیا ہے)۔

ہر دفعہ عجیب النسا کو سرٹیفکیٹ والے دفتر میں کوئی نہ کوئی جاننے والی مل ہی جاتی اور وہ اس کے کسی بھی غیر متوقع سوال سے پہلے ہی احتیاطاً شروع ہو جاتیں کہ یہ میرا سب سے چھوٹا بیٹا ہے ذوالفقار احمد خان۔ ذہانت میں ماشاللہ بالکل اپنے نانا مولوی صاحب ذوالفقار احمد خان سری کوٹی پر گیا ہے۔ اس دفتر سے ہم دونوں سیدھے میری نرسری جاتے اور نرسری کا کلرک نوٹوں کی تقریباً آدھی گڈی الگ کرکے رسید کاٹ دیتا۔ میں نے عجیب النسا کے پاس رہتے رہتے ایک روز ایم ایس کمپیوٹر سائنس بھی ( اول پوزیشن ) کرلیا اور آج ایک ملٹی نیشنل میں سادرن ریجن کا ڈائریکٹر ٹیکنیکل ڈویژن ہوں۔

جس دن نوکری ملی عجیب النسا نے تقریباً دھکے ہی دے کر اپنے کمرے سے نکال دیا۔ ’’ اب تو یہاں سے جا اور اس گھر میں جا کے رہ جو کمپنی نے تجھے دیا ہے‘‘۔ مگر آپ ؟ ’’خبردار جو آگے ایک لفظ بھی کہا۔بس یہی میرا آخری گھر ہے اور مٹی بھی یہیں سے اٹھے گی‘‘۔ مگر میں نے عجیب النسا کو بڑی مشکل سے موبائل فون رکھنے پر آمادہ کر لیا۔ ماتھا چومتے وقت پتلیاں گھماتے ہوئے کہنے لگیں تجھے میری اتنی فکر کیوں رہتی ہے ؟ یہ کوئی اچھی بات تو نہیں۔ کل کو تیرے جورو بچے بھی ہوں گے، ان کی فکر کرنا سیکھ۔

دفتر سے گھر واپسی پر جب بھی ان کے پاس سے ہو کر جاتا تو کہتیں تیرے پاس دنیا میں اور کوئی کام نہیں کیا جو روزانہ مجھے دیکھنے چلا آتا ہے۔ یہ بھانڈا تو بہت بعد میں حسن سپروائزر نے پھوڑا کہ عجیب النسا تمہارے لائے کپڑے جوتے تمہارے جاتے ہی الماری سے نکال فوراً ساتھ کی عورتوں میں تقسیم کردیتی ہیں مگر تازہ انگریزی ناول اور پھول اپنے کنے ہی رکھتی ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ مگر میں بہرحال مطمئن ہوں کہ عجیب النسا بنا محتاج ہوئے مرگئیں۔ اب اس دنیا میں کوئی نہیں جو جائے نماز کا کونہ موڑتے موڑتے میرے گال کھینچتا ہوا یہ دعائیہ طعنہ دے سکے کہ ،

خدایا ! حلالیوں کی ستائی ہر ماں کو ایسا حرامی بھی عطا فرما۔ آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).