حسن اور شباب کی تباہ کاریاں


ہندی زبان کے مشہور شاعر بہاری نے اپنی زندگی میں صرف سات سو دوہے ( اشعار) کہے ہیں۔ اور ان سات سو دوہوں میں سے ہر دوہے کو ہندی کے دوسرے شعراء نے امرت ( آب حیات ) سے تشبیہ دی ہے۔ بہاری کا ایک دوہا ہے، جس کے معنی ہیں، کہ دنیا میں شباب اور سیلاب کو کوئی روکنے والا پیدا نہ ہوا۔ بہاری کے اس دوہے کے مطابق حسن و شباب کی فی الحقیقت پوزیشن یہ ہے، کہ ان کی تباہ کاریوں کا حلقہ دنیا کے ہر ملک تک وسیع ہے۔ حسن و شباب کی چمک دیکھنے والے کو مفلوج اور معطل کر دیتی ہے۔ اور وہ لوگ نصیحت کے مستحق یا تعزیر کے سزاوار قرار نہ دیے جانے چاہئیں، جو حسن و شباب کی زد میں آنے والا ہر شخص بے بس اور مجبور ہوتا ہے۔ اور نہ صرف ان کی زد میں آنے والا ہی ہر شخص تباہ ہو جاتا ہے، بلکہ حسن و شباب اسے بھی برباد کر دیتا ہے، جس کو خدا کی طرف سے یہ نعمت نصیب ہوئی۔ یعنی حسن و شباب والا اپنے پر ستار کے ساتھ خود بھی فنا ہو جاتا ہے۔

بہت برس ہوئے، پشاور کے علاقہ کے رہنے والے ایک نوجوان جو بہت ہی خوبصورت تھے، اور جن کے چہرہ پر صوبہ سرحد کے صحت بخش سرخی و سپیدی نمایاں تھی۔ قوم کی خدمت کرنے کے شوق میں تارک وطن ہو کر فیروزیور آگئے، اور بھائی تخت سنگھ کے زنانہ کالج سکھ کنیا میاں ودیالہ کے مردانہ حصہ میں مقیم ہوئے۔ ان کا نام اکالی بشن سنگھ تھا۔ (اس زمانہ میں موجودہ اکالیوں کا وجود نہ تھا۔ اکالی کے معنی ہیں، موت سے نہ ڈرنے والا۔ اور بشن سنگھ نے اپنے نام کے ساتھ ” اکالی“ صرف اس خیال سے چسپاں کیا، کہ آپ موت سے نہ ڈرتے ہوئے سرفروشی کے جذبات کے ساتھ قوم کی خدمت انجام دیں گے) اس اکالی بشن سنگھ کی عمر اس وقت بائیں یا چوبیس برس کے قریب تھی۔

جب یہ نوجوان قومی خدمت کا دعویٰ کرتے ہوئے فیروزپور میں تھا، تو اس نوجوان کے متعلق لوگوں میں دو قسم کے خیالات تھے۔ کچھ لوگ تو کہتے ہیں، کہ اس نوجوان کا حسن اور شباب نہ معلوم قومی میدان میں کیا گل کھلائے، اور کچھ لوگ اس کی تعریف کرتے ہوئے کہتے، کہ کم عمری میں ہی قوم کی خدمت کا شوق آئندہ اسے سکھوں کا بہت بڑا لیڈر بنانے کا باعث ہو گا۔ یہ اکالی بشن سنگھ دو برس کے قریب سکھ کنیا میاں ودیالہ میں رہے۔ دن رات کتابون کا مطالعہ کرتے اور فیروزپور کے ضلع میں جہا ں بھی سکھوں کا مذہبی کوئی جلسہ یا دیوان ہوتا، وہاں تبلیغ کے سلسلہ میں تقریریں کرتے۔ سوائے کھانے پینے اور کپڑے کی بہت ہی کم ضرورت کے کوئی معاوضہ نہ لیتے۔ ان کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی۔

پھر آپ فیروزپور سے کسی دوسرے مقام پر چلے گئے، جہاں گوردوارہ میں مقیم ہوئے۔ اور بعد میں سنا، کہ وہاں سے ایک نوجوان اور خوبصورت لڑکی کو اغوا کر کے چین یا ملایا کی طرف کسی غیر ملک کی طرف نکل گئے۔ یعنی ان کا حسن و شباب نہ صرف اس لڑکی کی تباہی کا باعث ہوا، بلکہ حسن و شباب نے ان کو قومی خدمت اور پبلک لائف کے شاندار مستقبل سے بھی محروم کر دیا۔

دہلی میں ایک صاحب مسٹر ایسر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھے۔ بہت شریف، بہت نیک اور بہت دیا نتدار اور مذہبی خیالات کے عیسائی۔ آپ کا اصل وطن جہلم (پنجاب) تھا، اور آپ ایک بہت معزز برہمن خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ بچپن میں ہی گھر سے چلے گئے، اور عیسائی مذہب قبول کر لیا۔ گریجویٹ ہونے کے بعد آپ پہلے سب جج ہوئے، اور پھر مجسٹریٹ مقررکیے۔ کئی برس دہلی میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ رہے۔ آپ دہلی میں تھے، کہ آپ کی انتڑیوں میں ز خم ہو گیا، اور ہندو راؤ ہسپتال میں داخل کیے گئے۔

ہسپتال والوں نے بیماری کو خطرناک بتایا، اور مشورہ دیا، کہ آپ لندن کے کسی بڑے ہسپتال میں علاج کرائیں۔ اس کے علاوہ آپ کا لڑکا آر ایف ایس ( جو آج کل ہندوستان کی مرکزی گورنمنٹ میں اسسٹنٹ سیکرٹری ہے) انڈین سول سروس کے لئے لندن میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ آپ ایک عرصہ سے سوچ رہے تھے، کہ آپ لندن جا کر اپنے بیٹے کی تعلیم اور اپنی صحت کے متعلق حالات معلوم کریں۔ چنانچہ آپ ڈاکڑی مشورہ سے لندن گئے۔ وہاں غالباً دو تین ماہ ہسپتال میں علاج کراتے رہے، اور بالکل اچھے ہو گئے، تو ان کے واپس آنے پر راقم الحروف بھی ان سے ملنے اور صحت کے متعلق دریافت کرنے ان کو کوٹھی گیا۔ لندن کے متعلق باتیں ہو رہی تھی، تو باتوں باتوں میں آپ نے فرمایا:۔

” میرے ذہن میں ایک طویل عرصے سے یہ خلش تھی، کہ ہندوستان کے جو طلباء انڈین سول سروس وغیرہ کی اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن جاتے ہیں، اور کامیاب ہوتے ہیں، ان کامیاب طلباء میں سب سے پہلے نام عام طور پر مدراسی لڑکوں کے آئیر، آئینگر اور پلے وغیرہ ہوتے ہیں۔ یعنی یہ سب سے زیادہ نمبر حاصل کرتے ہیں، او ر ان کی تعداد بھی کافی زیادہ ہوتی ہے۔ پنجاب کے لڑکے یا تو کامیاب ہی نہیں ہوتے، اور اگر کامیاب ہوتے بھی ہیں، تو کم نمبروں کے ساتھ۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس مسئلہ پر میں ایک طویل عرصہ سے سوچ رہا تھا۔ مگر مدراسی لڑکوں کی قابلیت اور پنجابی طلباء کی نا اہلیت کی وجہ معلوم نہ ہوئی تھی۔ مگر اب لندن جانے کے بعد یہ مسئلہ حل ہو گیا۔

مدراسی لڑکوں کی زیادہ تعداد اور اچھے نمبروں میں کامیاب ہونے کی وجہ صرف یہ ہے، کہ شکل و صورت کے اعتبار سے مدراسی طلباء کالے کلولے کلوٹے اور بدصورَت ہوتے ہیں۔ لندن کی لڑکیاں ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتیں۔ اور یہ دن را ت پڑھنے اور محنت کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے، کہ یہ بہت کافی نمبروں کے ساتھ کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان کے مقابلہ میں پنجابی لڑکے خوبصورت اور اچھی صحت کے نوجوان ہوتے ہیں۔ جن کے چہروں پر سرخی و سپیدی چمکتی ہے۔ لندن کی لڑکیاں ا ن کے حسن و شباب سے متاثر ہو کر ان کے پیچھے لگ جاتی ہیں۔ یہ لڑکے عشق و محبت میں مبتلا ہو کر تعلیم اور محنت سے غافل ہو جاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے، کہ یہ یا تو امتحان میں کامیاب نہیں ہوتے، اور اگر ہوتے بھی ہیں، تو کم نمبروں کے ساتھ۔ یہ کبھی اوَل یا دوم نہیں نکلتے“۔ یعنی حسن و شباب پنجابی طلباء کی ترقی کی راہ میں بھی مخل ہو کر ان لڑکوں کی ناکامی کا باعث ہوتا ہے، اور یہ لڑکے کافی تعداد میں ناکام ہو کر واپس چلے آتے ہیں۔

راقم الحروف کو موسیقی سے بے حد دلچسپی ہے، اور اس دلچسپی کا ہی نتیجہ ہے، کہ کئی راگوں اور راگنیوں سے بے تھوڑی بہت واقفیت ہے۔ ان کو سن کر ذہن انتہائی طور پر محظوظ ہوتا ہے۔ غزل یا گیت سے ایک قسم کی نفرت سی ہو چکی ہے، اور ریڈیو پر بھی صرف ان گویوں کو سنتا ہوں، جو بہت اچھا گاتے ہوں۔ میں جب دہلی میں تھا، اور کبھی کبھی اچھا گانا سننے کو دل چاہتا، تو دو چار دوستوں کو ساتھ لے کر اپنی کار میں میرٹھ میں ہم لوگ وہاں کے ایک مقامی اخبار کے ایڈیٹر کی راہنمائی میں بہت اچھا گانے والی کسی طوائف کے ہاں جا کر گانا سنتے، اور گانا سننے کے بعد رات کو گیارہ بجے دہلی واپس آ جاتے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon