دو کشتیوں میں سوار


اردو ادب کا دامن منٹو کے افسانے ’ بو‘ اور’ پھاہا‘، عصمت چغتائی کا ’ لحاف ‘، راجندر بیدی کے  ’متھن‘ اور ممتاز مفتی کے افسانے’ آپا ‘ جیسے ترشے ترشائے ہیرے جواہرات سے مالا مال ہے۔ گزرتے وقت اور بدلتی دنیا میں ہمارے افسانوی ادب کو نئی زمینوں میں تخم کاری کرنا تھی۔ پر کہیں بیچ میں ہم فن اور فحش کی باریک لکیر بھول گئے۔ ہم نے بھلا دیا کہ ابتذال کا شکار ہوئے بغیر کیسے نازک چترکاری کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کی حد تک اس کجروی کا سیاسی قحط سالی اور سماجی بانجھ پن سے گہرا تعلق سمجھنا کچھ ایسا مشکل نہیں۔ اور پھر یہ بھی کہ ہم نے ریاضت کا حق ادا نہیں کیا۔ بیان پر قابو نہ ہو تو سسکاری لکھی جا سکتی ہے، نروان نہیں۔ آئیے ایک کہانی پڑھتے ہیں۔ دیکھیئے، زمان و مکان کے سمندروں میں ہمہ جہت کشتی رانی کیسے کی جاتی ہے۔ لکھنے والے ہیں ہمارے اور ہم سب کے ڈاکٹر خالد سہیل۔۔۔

٭٭٭    ٭٭٭

’امی آج آپ کہاں جا رہی ہیں۔۔۔؟ ‘ شبانہ نے مجھ سے گنگناتے ہوئے پوچھا۔

’بیٹی ! آج شام رابرٹ آئے گا اور ہم دونوں ڈنر کھانے جائیں گے‘

’کیا میں بھی جائوں گی؟‘

’نہیں شبانہ۔۔۔ میں نے تمہارے لیے بے بی سٹر کا انتظام کر دیا ہے۔ باربرا چھ بجے آ جائے گی۔ اس کے ساتھ شاید اس کی بیٹی سینڈرا بھی آئے۔ وہ بھی تمہاری طرح سات برس کی ہے۔ تم اس کے ساتھ آٹھ بجے تک کھیلنا پھر سو جانا‘۔

شبانہ خاموش ہو گئی جیسے ملول ہو گئی ہو۔ میں جانتی تھی کہ شبانہ کو میرا باہر جانا اچھا نہ لگتا تھا۔۔۔دو دفعہ پہلے بھی وہ بیمار ہو کر الٹیاں کرنے لگی تھی اور مجھے اپنی شام کا پروگرام کینسل کرنا پڑا تھا۔

’بیٹی تم سکول کا کام ختم کر لو۔ میں نہا کر آتی ہوں۔ اگر باربرا آئے تو دروازہ کھول دینا‘ یہ کہہ کر میں واش روم میں چلی گئی۔

میں نے دروازہ بند کیا اور قدِ آدم آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ مجھے امریکی گھروں میں آئینے بہت پسند تھے جو مالک مکان نے بیڈروم اور واش روم میں لگا رکھے تھے۔ میں ان میں اپنے سراپا کو دیکھ کر محظوظ ہوتی تھی۔

میں نے اپنا جوڑا کھولا اور بالوں کو کمر پر بکھر جانے دیا۔ پھر قمیص اتاری اور اپنے پستانوں کو ہاتھوں میں لے لیا۔ میرے ململ جیسے مہین بریزیر سے میرے بھرے بھرے پستان اور بھورے نپل صاف نظر آ رہے تھے۔ میں نے اپنی انگلیوں کے پوروں سے پہلے نپل چھوئے پھر اپنے ہونٹ اور مسکرا دی۔۔۔۔’میں جب بھی تمہارے ہونٹ چھوتا ہوں مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں تمہارے نپل چھو رہا ہوں‘۔۔۔مجھے رابرٹ کی سرگوشی یاد آئی۔

جب میں پاکستان میں ایک لڑکی تھی تو مجھے اپنے پستانوں کو چھونے اور ان سے کھیلنے سے منع کیا جاتا تھا۔ میں اپنے جسم سے مدتوں سے ناواقف تھی۔ رابرٹ اسے اس پیار سے چھوتا کہ میں حیران ہو جاتی۔

درحقیقت رابرٹ نے ہی صحیح معنوں میں میرا اپنے جسم سے تعارف کروایا تھا۔

پھر میں نے اپنا مہین بریزیر اتار کر کھونٹی پر لٹکا دیا۔ ’نوجوانی میں مجھے گتے کی طرح سخت بریزیر کیوں پہنائے جاتے تھے؟‘ میں سوچنے لگی اور میرے ذہن میں ہندوستانی فلموں کی سب ہیروئنیں گھوم گئیں جن کے پستان تکونی شکل کے ہوتے تھے یا نظر آتے تھے کیونکہ ان بریزیروں میں پستان کی فطری شکل کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ امریکہ میں عورتیں اپنے پستانوں کی فطری شکل سے خوش تھیں اس کے علاوہ بریزیر کا کام سہارا دینا تھا نہ کہ پستانوں کی شکل و صورت کو بگاڑنا۔

میں نے پھر اپنے پیٹ ‘اپنی ناف‘ اپنی ٹانگوں اور اپنے پائوں کو دیکھا۔ ان سب میں ابھی بھی جوانی کا پیازی رنگ قائم تھا۔ میں کتنی خوش تھی کہ میں نے پرویز سے آٹھ سال کی شادی کے بعد جدائی اختیار کر لی تھی۔ شادی کے بندھنوں میں میری جوانی وقت سے پہلے ڈھلنے لگی تھی۔ میں نے ایک دفعہ پھر اپنے پانچ فٹ سات انچ کے سراپا کو آئینہ میں دیکھا۔ پرویز مجھے سے قد میں چھوٹا تھا شاید اسی لیے وہ مجھ پر ہمیشہ حکم چلاتا تھا۔ وہ میری شخصیت کو بھی دبانا چاہتا تھا لیکن میں بھی ایک پنجابن مٹیار تھی۔دبنے والی کہاں تھی۔ میرے سینے میں بھی ایک دل دھڑکتا تھا اور اس میں بھی امنگیں انگڑائیاں لیتی تھیں۔ پاکستان میں ہوتی تو شاید یہ جبر سہہ جاتی لیکن امریکہ میں آ کر تو اس کا کوئی جواز نہ تھا۔ یہاں تو عورتیں مردوں کے برابر تھیں اور انہیں ہر طرح کے حقوق حاصل تھے۔ میری ماں نے میرے باپ کے ساتھ عمر بھر رہ کر کیا پایا تھا۔ وہ وقت سے پہلے بوڑھی ہو گئی تھی اور موت سے پہلے ہی مر گئی تھی۔۔۔ میں جوان ہوں‘نہ صرف زندہ رہنا چاہتی ہوں بلکہ خوش خوش زندہ رہنا چاہتی ہوں۔ ’خوش رہنا ہر مرد اور عورت کا بنیادی حق ہے‘ مجھے ایک سہیلی نے بتایا تھا۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ لاکھوں عورتیں اس حق سے محروم ہیں لیکن خوشی ہر انسان کو خود حاصل کرنی ہوتی ہے خود بخود نہیں مل جاتی۔ اس لیے جب میں نے پرویز سے کہا تھا کہ میں شادی سے بہت ناخوش ہوں اور اس سے علیحدہ ہو کر خوش رہنا چاہتی ہوں تو وہ مجھے ایسے دیکھ رہا تھا کیسے میں کسی اور سیارے کی رہنے والی ہوں۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میں اسے چھوڑ کر چلی جائوں گی۔

’تم کس بات سے ناخوش ہو؟‘ اس نے تفریحاٌ پوچھا تھا۔

’ہم جب بھی ہم بستری کرتے ہیں تم جلدی سے فارغ ہر کر سو جاتے ہو۔ مجھے ذرا بھی لطف نہیں آتا۔ مدتوں سے اورگیزم سے محروم ہوں‘

وہ مجھے ٹکر ٹکر دیکھ رہا تھا۔ اسے یقین نہ آیا کہ میں ایسی بات کروں گی۔

’تو تم کھائو گی کیسے؟‘ اس نے موضوع بدلا تھا۔

’فطرت پتھر میں رہنے والے کیڑے کو بھی روزی دیتی ہے۔ آخر ماں باپ نے بی اے تو کرایا ہی تھا وہ کب کام آئے گا۔ ملازمت تو مل ہی جائے گی۔ میرے باز اور ٹانگیں سلامت ہیں۔ دماغ بھی کام کرتا ہے۔‘

’ہماری بیٹی شبانہ کا کیا ہوگا؟‘

’کیا ہونا ہے۔ میرے ساتھ رہے گی۔ جب تمہارا جی چاہے اسے لے جانا‘ پرویز پھر بھی سمجھا کہ میں مذاق کر رہی ہوں۔

باقی افسانہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail