آرٹیکل چھ بھگتنے کو تیار سندھ اور عمران خان کی نو بال


گذشتہ ایک ہفتہ سے سندھ میں جیسے آتش فشاں پھٹ پڑا ہے۔ حسب معمول نام نہاد آزاد قومی میڈیا نے احتجاج کی خبر نہ دینے کی جیسے قسم کھائی ہوئی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ سندھ میں چیف جسٹس پاکستان جناب ثاقب نثار کے کالا باغ ڈیم بنانے کے اعلان اور ڈیم مخالفوں پر آرٹیکل 6 لگانے کی دھمکی پر کھلم کھلا احتجاج جاری ہیں۔ سندھی اخبارات کے مضمون، اداریہ، وکیلوں کے احتجاج، سیاسی سماجی پارٹیوں کے اجتماع ہو رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر چیف جسٹس پاکستان جناب ثاقب نثار کے بارے میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے وہ تو ہم یہاں دہرا بھی نہیں سکتے۔

ابھی چیف جسٹس کے بیان پر سندھ بھر میں شدید غم و غصہ کی لہر جاری ہی تھی کہ عمران خان نےوزیر اعظم بننے کے بعد سندھ کے اپنے پہلے ہی دورے کے دوران کراچی میں اعلان کیا ہے کہ کراچی میں بسنے والے بہاریوں، بنگالیوں اور افغانوں کو شناختی کارڈ جاری کیئے جائیں گے۔ وزیر اعظم کے اس بیان نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہےاور سندھ بھر میں اسے عمران خان کی نو بال کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ مگر ایمپائر کی انگلی کی طرف اس لئے نہیں دیکھا جا رہا کہ عوام ایمپائر سے پہلے ہی نا امید ہیں۔ پورے سندھ میں احتجاج ہو رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے عہدیداروں کے لئے مشکل حالات ہیں اور عوامی احتجاج کا سامنا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما حلیم عادل شیخ اور ایم پی اے دعا بھٹو کو آج عمر کوٹ میں احتجاجی جلوس نے گھیر لیا اور پی ٹی آئی کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔

پاکستان تحریک انصاف سندھ میں حقیقی معنوں میں مقبول ہوتی ہوئی جماعت ہے۔ سندھ کے ہر حلقے میں انہوں نے اتنے ووٹ لئے ہیں کہ سرداروں، وڈیروں، پیروں، میروں، جاگیرداروں کو پسینے آ گئے مگر اس مقبولیت کو صرف ایک ماہ میں ناقابل یقین کی حد تک نقصان پھنچا ہے اور عمران خان کا تازہ بیان اس کی بڑی وجہ بنا ہے۔

عمرکوٹ احتجاج

ڈیم کے معاملے میں سندھ کا کیس یہ ہے کہ ڈیم بنانا چیف جسٹس کام نہیں ہے۔ ملک میں لاکھوں کیس رل رہے ہیں، ان کا کوئی والی وارث نہیں اور ملک کا عدالتی سربراہ ڈیم بنانے میں مصروف ہے، نہ صرف مصروف ہے بلکہ وہ اپنی زبان سے نکلا ہوا ہر ایک لفظ قانون اور اپنی پین سے لکھا ہوا ہر ایک لفظ آئین سمجھتا ہے۔ مجرموں کو قانون کے مطابق سزائیں ملنی چاہیے نہ کہ ڈرا دھمکا کر ڈیم کے نام پر پیسے لئے جانے چاہیے۔ اسپتالوں کے آگے پارکنگ اور انکروچمنٹ ہٹانا چیف جسٹس کا قابل تعریف حکم ہے لیکن اس غیر قانونی پارکنگ پر دس ہزار روپے کا جرمانہ ڈال کر ڈیم فنڈ میں جمع کرانا غیر قانونی عمل ہے۔ کالا باغ ڈیم کو سندھ اسمبلی مختلف حکومتوں میں تین بار، کی پی کی اسمبلی دو بار اور بلوچستان اسلمبی بھی رد کر چکی ہیں۔ اس استرداد کے پیچھے کتنے سالوں کا جھگڑا اور، سینکڑوں پانی ماہرین، انجنیئرز کی تکنیکی رائے شامل ہے، پھر بھی چیف جسٹس صاحب کروڑوں سندھیوں اور پشتونوں کو آرٹیکل چھ کے تحت بغاوت کا مقدمہ چلانے کی دھمکی دے رہے ہیں جبکہ وہ خود مہمان ہیں اور ان کی میعاد ختم ہونے میں صرف چند ماہ رہ گئے ہیں۔

سندھیوں کو ڈیم مخالف اور اس حوالے سے ملک دشمن اور ملک مخالف کے خطاب دیے جا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ

سندھی ڈیموں کے خلاف نہیں ہیں۔ ڈیموں کے سائیز، ڈیزائن اور محل وقوع کے خلاف ہیں۔ اور اس مخالفت کی وجہ بھی ماضی میں پانی ذخیروں کی اسکیموں میں ہونے والی وعدہ خلافی اور بد دیانتی ہے۔ سندھ کا موقف ہے کہ سب صوبوں کے ماہر طے کریں اور پھر ملک میں ایک دو نہیں، سینکڑوں چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں۔ وفاقی حکومت کی سندھ کے ساتھ نابرابری کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کی انڈس رور سسٹم اتھارٹی ( ارسا) میں دیہی سندھ کے کسی ایک فرد کو بھی نوکری نہیں دی گئی۔ جبکہ بہاریوں، بنگالیوں اور افغانوں کو شناختی کارڈ جاری کیئے جانے کے متعلق سندھ کا موقف یہ ہے کہ ان لوگوں کے اپنے ملک ہیں، ان کو وہاں جانا چاہیے۔

بہرحال ہو سکتا ہے طاقت کے زور پر وفاقی حکومت پاکستان کی صوبائی اکائیوں کو ڈرا دھمکا کر رکھنے میں کامیاب ہو جائے مگر یہ ملکی مفاد میں بہتر نہیں ہوگا۔ کیونکہ عوام اب یہ سمجھنا شروع ہو گئے ہیں کہ کرپشن کے خلاف مہم ایک ایسا فلاپ ڈرامہ ہے جس کا اختتام پرائم منسٹر ہاؤس کی آٹھ بھینسوں کو بیچنے والے مزاحیہ سین پر ہوا ہے اور جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اڑھائی سو لوگوں کو بلدیہ فیکٹری میں زندہ جلانے والے لوگ، پی ٹی آئی کے ساتھ حکومت میں ہیں جبکہ دوسری طرف اب تک اربوں روپے کرپشن کرنے والوں میں سے کسی ایک کو بھی سزا نہیں آئی۔ کرپٹ لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، اپنی بات منوا کر کام لیا جاتا ہے اور پھر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ سلسلہ یوں ہی چل رہا ہے اور یوں ہی چلے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).