بجٹ عوام دوست کب ہؤا ہے؟


Asad Umar, finance minister. Photographer: Asad Zaidi / Bloomberg

وزیر خزانہ اسد عمر نے آج قومی اسمبلی میں سابقہ حکومت کے پیش کردہ بجٹ میں ترمیمی بل پیش کیا ۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب سب کو مل کر ملک کی حالت ٹھیک کرنے کے لئے کام کرنا ہوگا۔ بڑھتے ہوئے قرض، زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر ، آمدنی میں کمی اور اخراجات میں اضافہ کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت دگرگوں ہے۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت غریبوں پر بوجھ نہیں ڈالے گی اور بجٹ تجاویز سے کم آمدنی والے طبقے متاثر نہیں ہوں گے۔ بلکہ زیادہ آمدنی والے لوگوں کی آمدنی کے علاوہ پر تعیش اشیائے صرف پر ٹیکس عاید کیا جائے گا۔ اس حوالے سے سب سے اہم اقدام ترقیاتی اخراجات میں 250 ارب روپے کم کرنے کا اعلان ہے۔ وزیر خزانہ کے خیال میں منی بجٹ میں ان کی حکومت کی طرف سے پیش کردہ ترامیم سے بجٹ خسارہ 5،1 فیصد رہ جائے گا بصورت دیگر یہ خسارہ سابقہ حکومت کے ساڑھے چھ فیصد سے بڑھ کر 7،2 فیصد تک پہنچ سکتا تھا جو ملک کی معیشت کے لئے تباہ کن ہوتا۔ انہوں نے اپوزیشن سے بجٹ تجاویز پر تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ قومی معیشت کو درست کرنے کے لئے سب کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ تحریک انصاف کی حکومت پارلیمنٹ میں ہر مثبت تجویز کا خیر مقدم کرے گی۔

تحریک انصاف کی حکومت نے پیش کی گئی بجٹ تجاویز کو عوام دوست قرار دیا گیا ہے کیوں کہ ان میں زرعی شعبہ کے علاوہ انصاف صحت کارڈ کی صورت میں مفت طبی سہولتیں فراہم کرنے اور آٹھ ہزار کے لگ بھگ گھر تعمیر کرنے کے لئے وسائل مختص کئے گئے ہیں۔ گو کہ وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں کہا ہے کہ آئی ایم ایف سے پیکج لیا جاسکتا ہے لیکن اس پیکج سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ پہلے ہمیں خود اپنے مالی معاملات کو درست کرنے کی کوشش کرنے چاہئے ۔ اسی لئے 5000 سے زیادہ مصنوعات پر کسٹم ڈیوٹی بڑھانے، ایک خاص آمدنی سے زائد پر ٹیکس میں اضافہ اور دیگر محصولات میں اضافہ کے ذریعے آمدنی میں پونے دو سو ارب اضافہ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ آمدنی میں اضافہ اور اخرجات میں کمی کے اقدامات ان شرائط سے ملتے جلتے ہیں جو عام طور سے آئی ایم ایف یا دیگر مالیاتی ادارے قرض دیتے ہوئےعائد کرتے ہیں۔ گزشتہ روز ملک میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ اسی سلسہ کا اقدام تھا۔ اب بجٹ تقریر میں بھی یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ نئی حکومت اخراجات کو کم کرنے میں سنجیدہ ہے۔ اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت کسی نہ کسی سطح پر آئی ایم ایف سے رابطہ میں ہو اور بجٹ ترامیم کا تعلق کسی حد تک ان اشاروں سے بھی ہو جو نئے امدادی پیکیج کی صورت میں اقتصادی شرائط کے طور پر آئی ایم ایف عائد کرنے کے لئے کہہ سکتا ہے۔ اس طرح حکومت کے یہ اقدامات دراصل آئی ایم ایف کو دی جانے والی متوقع درخواست کا پیش لفظ ہوں۔ ماہرین یہ اشارے دے چکے ہیں کہ ملکی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور قرضوں کے بھاری بھر کم بوجھ کی اقساط ادا کرنے کے لئے پاکستان کو آئی ایم ایف سے بارہ ارب ڈالر کی مدد مانگنی پڑے گی۔ البتہ ملک کی نئی حکومت نے ابھی تک اس بارے میں کوئی واضح اشارہ نہیں دیا ہے ۔ اگرچہ اسد عمر وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے سے پہلے اس قسم کی ضرورت کا ذکرکرچکے ہیں۔

 تحریک انصاف کی کوشش اور خواہش ہے کہ سعودی عرب اور چین کی طرف سے مالی معاونت حاصل کرلی جائے تاکہ آئی ایم ایف سے کم سے کم قرض مانگنے کی ضرورت پڑے۔ اس حوالے سے حتمی فیصلہ کا انحصار وزیر اعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں حاصل ہونے والی سہولت پر بھی ہوگا۔ اگر یہ دونوں عرب ممالک پاکستان کو کوئی بیل آؤٹ پیکیج دینے پر آمادہ ہوتے ہیں تو آئی ایم ایف پر انحصار کم ہو سکے گا۔ تاہم جس طرح آئی ایم ایف کے قرضے شرائط کے بغیر نہیں ملتے اسی طرح چین ہو یا عرب دوست ممالک ، وہ بھی مالی امداد کرنے کے بدلے میں اپنے مطالبات پورے کروانے کی کوشش کریں گے۔ عرب ملکوں سے مالی معاونت کی جو سیاسی قیمت ادا کرنا پڑے گی وہ علاقے میں پاکستان کے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان سے بعض ایسی مراعات مانگی جا سکتی ہیں جو طویل المدت سفارتی تناظر میں شاید ملک کے مفاد میں نہ ہوں۔

دوسری طرف چین کی مالی معاونت کے بھی سیاسی اور معاشی مضمرات ہوں گے۔ چین سب سے پہلے تو سی پیک منصوبوں کے حوالے سے اپنی کمپنیوں کی اجارہ داری برقرار رکھنے پر اصرار کرے گا۔ اس طرح سی پیک کے بعض پہلوؤں پر از سر نو غور کرنے کی حکومتی خواہش پوری ہونے کا امکان کم ہوجائے گا۔ پاکستان کو سی پیک منصوبوں کی بھاری مالی قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والے سیاسی اثرات سے بھی نمٹنا ہوگا۔ سی پیک پر چین سے قربت کے نتیجہ میں امریکہ کے ساتھ تعلقات مزید سرد مہری کا شکار ہوں گے اور بھارت کے سخت گیر رویہ میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ کسی ملک کے معاشی معاملات اور فیصلوں کو سیاسی صورت حال اور عالمی سفارتی تعلقات کی بڑی تصویر کی روشنی میں ہی سمجھا جاسکتا ہے۔

اسد عمر کی پیش کردہ بجٹ تجاویز یوں بھی معاشی سے زیادہ سیاسی نوعیت کی ہیں۔ حکومت ان شعبوں پر وسائل صرف کرنا چاہتی ہے جن میں بہتری کا کریڈٹ تحریک انصاف سیاسی طور پر لینے کی کوشش کرے گی۔ ان میں خاص طور سے نئے گھر بنانے کے لئے وسائل کی فراہمی اور انصاف صحت کارڈ کو اسلام آباد اور فاٹا کے علاقوں تک وسعت دینے کا فیصلہ شامل ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے خیبر پختون خوا میں صحت کارڈ کا اجرا کیا تھا ۔اب وہ یہ سہولت فاٹا کے علاوہ اسلام آباد تک فراہم کرنے کا ارادہ ظاہر کررہی ہے۔ اس حوالے سے بعض سیاسی پیچدگیاں اور سوال ضرور پیدا ہوں گے۔ صحت صوبائی معاملہ ہے ۔ اگر وفاقی حکومت اسی قسم کے منصوبوں کے لئے صوبوں کو بھی وسائل فراہم نہیں کرسکتی تو ملک کے عوام کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام سامنے آنا لازمی ہے ۔ بجٹ ترامیم میں البتہ ایسا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے کہ صوبائی حکومتوں کو اضافی فنڈ دئیے جائیں گے۔ اگر پنجاب اور بلوچستان کی حکومتیں تحریک انصاف کے ٹریڈ مارک کے طور پر اس اسکیم کو صوبائی سطح پر متعارف کرواتی ہیں تو عوامی بہبود کے دیگر شعبے متاثر ہوں گے۔ اس طرح ایک ہاتھ سے لے کر دوسرے ہاتھ سے لے لینے والا معاملہ ہوگا۔ اگر تحریک انصاف کے زیر اثر یہ دونوں حکومتیں اپنے باشندوں کو اسلام آباد کے شہریوں جیسی سہولتیں فراہم نہیں کرتیں تو تحریک انصاف کے لئے یہ جواب دینا آسان نہیں ہو گا کہ دارالحکومت کے باسیوں کو خصوصی رعایت کیوں دی گئی ہے۔

حکومت بجٹ ترامیم کو عوام دوست بتانے اور غریبوں کو سہولتیں فراہم کرنے کا دعویٰ کررہی ہے۔ لیکن ملک کا کوئی بھی بجٹ عوام دوست نہیں ہو سکتا۔ اس میں جو محاصل عائد ہوتے ہیں ان کو خواہ کوئی بھی نام دیا جائے انہیں کسی نہ کسی صورت کم آمدنی والے عام شہریوں سے ہی وصول کیا جاتا ہے۔ اس صورت حال کو تبدیل کرنے کے لئے قانون سازی کرنے اور انتظامی ڈھانچہ استوار کئے بغیر  محاصل اور ٹیکسوں میں اضافہ کا بوجھ بہر صورت ان عوام کو منتقل ہوتا رہےگا جن کے مالی مفادات کی حفاظت کرنے کی خواہش ظاہر کی گئی ہے۔ اسد عمر نے ترقیاتی بجٹ میں کمی کو بجٹ خسارہ کم کرنے کے لئے ضروری قرار دیا ہے لیکن وہ یہ بتانا بھول گئے کہ ترقیاتی منصوبوں پر صرف ہونے والے وسائل سے معیشت متحرک ہوتی ہے اور روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح حکومت  اپر مڈل کلاس کی آمدنی اور درمیانے درجے کے کاروبار پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرکے معاشی تحریک کی بجائے انحطاط کا سبب بن سکتی ہے۔ اس وقت ملک میں درمیانے درجے کے سرمایہ داروں کو اپنا سرمایہ پراپرٹی میں منجمد کرنے کی بجائے چھوٹے صنعتی یونٹوں اور کاروبار میں لگانے پر آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔

بجٹ تجاویز سے اس طبقہ کو اس قسم کا حوصلہ نہیں ملے گا بلکہ اس کے شبہات اور خوف میں اضافہ ہوگا۔ وزیر خزانہ نے آمدنی میں شدید کمی کا ذکر کرنے کے باوجود زرعی شعبہ کے علاوہ برآمد کندگان اور ٹیکسٹائل صنعت کو پچاس ارب روپے کی سبسڈی دینے کا اعلان کیا ہے۔ حالانکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرح میں کمی کے سبب برآمد کندگان پہلے ہی فائدے میں رہے ہیں ۔ کمزور پاکستانی روپیہ اس طبقہ کی آمدنی میں اچانک اور بے شمار اضافہ کا سبب بنا ہے لیکن کمزور روپے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برآمدات میں اضافہ کے اعداد و شمار سامنے نہیں آئے۔ اب اس شعبہ کو مالی معاونت کی سہولت دینے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی وجہ سے ہر حکومت کی توجہ کا مستحق رہا ہے لیکن اس شعبہ کو چوالیس ارب روپے کی مراعات دے کر غیر معولی اقدام کیا گیا ہے۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ ٹیکسٹائل مل مالکان اس رعایت کو برآمدات بڑھانے یا روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر ہی صرف کریں گے اور اسے اپنی ذاتی دولت میں اضافہ کا ذریعہ نہیں بنائیں گے۔

بجٹ تجاویز کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وزیر خزانہ نے پہلے سے موجود ٹیکس اور محاصل میں رد و بدل کے ذریعے کچھ سیاسی اور کچھ مالی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ٹیکس نیٹ بڑھانے یا نئے ٹیکس عائد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ زرعی شعبہ پر ٹیکس عائد کرنے کے علاوہ سیلز ٹیکس کا فول پروف نظام متعارف کروانے سے ہی حکومت کی آمدنی میں قابل قدر اضافہ کا امکان ہے۔ اسی طرح ٹیکس چوری کو بھی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک وی اے ٹی کے ذریعے ہی یہ مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ اگرچہ منی بجٹ ایک نوعمر حکومت کا ابتدائی فیصلہ ہے اور اس کی حکمت عملی کا اصل نمونہ اگلے سال کے بجٹ میں ہی دکھائی دے گا لیکن فی الوقت وزیر خزانہ کسی انقلابی تبدیلی کا اشارہ دینے میں ناکام رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali