گوادر، چاہ بہار اور افغان کہانی


\"Usmanاس کہانی کا باقاعدہ آغاز آج سے کوئی ساڑھے چھتیس برس قبل ہوتا ہے جب 24 دسمبر 1979 بروز سوموار آج کے روس اور اس وقت کی سویت یونین نامی عالمی طاقت نے افغانستان میں فوجی کارروائی کا آغاز کیا۔ اس کے بعد، امریکہ، پاکستان اور عرب ممالک کی شمولیت، روس کی شکست اور طالبان کے اقتدار کے گرد گھومتی یہ کہانی نائن الیون، افغانستان پر امریکی حملے، دہشت گردی کے خلاف جنگ، اسامہ بن لادن اور ملا عمر کی موت سے ہوتی ہوئی افغان طالبان سربراہ ملا منصور کے ڈرون حملے کا نشانہ بننے تک آپہنچی ہے۔ لیکن اس دوران علاقائی طاقتیں اس جنگ کو عسکری کی بجائے اقتصادی پالیسیوں کے تناظر میں دیکھنے لگیں ہیں اور پاک چین اقتصادی راہداری کے جواب میں ایران، بھارت اور افغانستان کے اتحاد نے چاہ بہار کی راہداری کا منصوبہ تشکیل دیا۔ جس کے بعد افغان مسئلے کی کہانی نے عسکری سے زیادہ معاشی رنگ پکڑ لیا۔

چینی اور پاکستانی پالیسی سازوں کو اس بات کا مکمل ادراک ہو گیا تھا کہ پاک چین اقتصادی رہداری کے مکمل فوائد اس وقت ہی حاصل ہو سکتے ہیں کہ جب گوادر کو چین کے علاوہ براستہ افغانستان وسط ایشیائی ریاستوں سے منسلک کر دیا جائے۔ اور اس مقصد کے حصول کے لیے ایک مستحکم افغانستان اور اس میں قائم ایسی حکومت ناگزیر تھی جو پاک چین مفادات کے لیے خطرہ نہ بنے۔ لیکن دوسری طرف بھارت امریکہ کی مدد سے افغانستان میں اپنے پاؤں مضبوط کر چکا تھا۔ اور موجودہ افغان قیادت بھی اسی کی طرف جھکاؤ رکھتی تھی۔ یہ بات پاکستان اور چین کے لیے کافی پریشان کن تھی، کیونکہ بھارت کا افغانستان میں قیام کا مقصد جہاں پاکستان اور چین پر دباؤ قائم رکھنا تھا وہیں وہ پاکستان کی طرح وسط ایشیائی منڈیوں تک زمینی رسائی کا خواہاں تھا۔ لیکن وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل میں پاک چین اقتصادی راہداری کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا رہا۔ اپنی اسی سوچ کی بنیاد پر اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتا رہا۔ بلوچستان میں مداخلت سے لے کر کلبھوشن یادیو نامی بھارتی جاسوس کی گرفتاری تک سارے معاملات بھارت کی اس نیت کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔ یوں تو ایران بھی افغان معاملے میں علاقائی سٹیک ہولڈر ہے لیکن پاک چین اقتصادی راہداری اور ایران پر عائد عالمی پابندیوں کے خاتمے کے بعد ایران نے بھی اس معاملے میں اپنے کردار کو کافی وسعت دی۔ ایران چونکہ طویل عرصہ سے بھارتی حلیف رہا ہے سو ایران پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے بعد بھارت نے پاک چین اقتصادی منصوبوں کا اقتصادی لحاظ سے توڑ کرنے کی منصوبہ بندی شروع کی۔ اور اس منصوبہ بندی میں اسے ایرانی تعاون درکار تھا جو اسے با آسانی میسر آ گیا۔ ادھر افغانستان اور امریکہ فوجی انخلاء کے باعث طالبان سے مذاکرات پر آمادہ ہوئے اور اس طرح چین، امریکہ، پاکستان اور افغانستان پر مشتمل چار ملکی اتحاد نے افغان امن عمل کے لیے مذاکراتی کاوشوں کا آغاز کیا۔ شروع شروع میں ان کاوشوں کے اچھے نتائج بھی سامنے آئے جس میں پاکستان نے افغان طالبان کو مذاکرات پر راضی کیا اور انہیں مذاکرات کی میز تک بھی لے آیا۔ لیکن بھارت چونکہ اس مذاکراتی عمل کو اپنے مفادات کے خلاف گردانتا تھا لہٰذا عین وقت پر ملا عمر کی موت کی خبر لیک کر کے اس مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی۔ افغان طالبان کے سابق امیر ملا عمر کی موت کے بعد افغان طالبان کو نئے امیر کی تعیناتی میں اندرونی اختلاف نے گھیر لیا لیکن جیسے تیسے ملا اختر منصور نے نئے امیر کے طور پر مطلوبہ حمایت حاصل کر ہی لی۔ اور افغانستان میں عسکری کارروائیوں کے ذریعے افغان اور امریکی فورسز کی ناک میں دم کر کے رکھ دیا۔ لیکن مذاکراتی عمل میں کئی ماہ کے تعطل کے بعد بالآخر پاکستان ایک بار پھر افغان طالبان کو مذاکرات کی میز تک لے ہی آیا۔ اس دوران جن فریقوں کو اس مذاکراتی عمل سے اپنے مفادات خطرے میں محسوس ہو رہے تھے وہ بھی اپنی چال چلتے رہے۔ مذاکراتی عمل ایک بار پھر سست روی کا شکار ہوا اور اس دوران امریکہ نے مذاکراتی ادوار میں اپنے وعدے کے برخلاف افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کو پاک افغان ایران سرحد کے قریب پاکستانی حدود میں ڈرون حملے کا نشانہ بنا دیا۔

\"Gwadar\"اب یہاں سے یہ کہانی ماضی بعید اور قریب سے نکل کر حال اور مستقبل میں داخل ہو جاتی ہے۔ یہاں ان سوالوں کا جواب انتہائی ضروری ہو جاتا ہے کہ آخر بھارت کو اس مذاکراتی عمل سے چڑ کیوں ہے؟ ایران کی بھارت سے قربت کی کیا وجوہات ہیں؟ امریکہ نے اپنے مذاکراتی وعدوں کے بر خلاف ایک نازک وقت میں طالبان سربراہ کو نشانہ کیوں بنایا؟ پاکستان اور چین افغان طالبان کے لیے نرم گوشہ کیوں رکھتے ہیں؟ پاکستان افغان طالبان کی مبینہ حمایت کیوں کر رہا ہے؟ ان تمام سوالوں کے جواب اگر عسکری کی بجائے معاشی تناظر میں ڈھونڈیں تو زیادہ بہتر جواب مل جاتا ہے۔ آئیے اب اوپر بیان کی گئی اس ساری کہانی کو اقتصادی امور سے منسلک کر کے اس کہانی کے مستقبل کا خاکہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب صورتِ احوال کچھ یوں ہے کہ بھارت اور ایران چاہتے ہیں کہ گوادر کی بجائے چاہ بہار کو فعال کر کے براستہ افغانستان وسط ایشیائی ریاستوں تک زمینی رسائی حاصل کر لی جائے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ افغانستان میں ایسا حکومتی سیٹ اپ موجود ہو جو ایران اور بھارت کے زیرِ اثر ہو۔ تا کہ ایران اور بھارت بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔ بھارت کی یہ شدید خواہش ہے کہ افغانستان کے اندر پاکستانی اثرات سے مکمل طور پرآزاد ایسی حکومت قائم ہو جو چاہ بہار کو تو راہداری مہیا کرے لیکن گوادر کے لیے کسی بھی قسم کا زمینی رابطہ قائم کرنے کی اجازت نہ دے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ افغان طالبان کو شکست سے دوچار کیا جائے یا کم از کم انہیں پاکستان سے بدظن کر دیا جائے۔ اور اگر یہ دونوں صورتیں ممکن نہ ہوں تو افغان طالبان کو اتنا نقصان پہنچایا جائے کہ وہ اگر سیاسی عمل کا حصہ بنیں بھی تو اپنی شرائط پر نہیں بلکہ بھارت، امریکہ، ایران اور موجودہ افغان حکومت کی شرائط پر۔ اب اگر غور کیا جائے تو بادی النظر میں ملا منصور پر امریکی حملہ افغان اور بھارتی عزائم کی تکمیل میں معاونت فراہم کرنے کے لیے ہی کیا گیا ہے۔

دوسری طرف پاکستان اور چین گوادر کو براستہ افغانستان وسط ایشیائی ریاستوں سے منسلک کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان میں ایسی مستحکم حکومت قائم ہو جو کم از کم ایران اور بھارت کے اثر و رسوخ سے آزاد ہو۔ لیکن بد قسمتی سے افغانستان کا موجودہ سیاسی سیٹ اپ پاکستان کی بجائے بھارت اور ایران کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے افغان طالبان کی درپردہ حمایت ناگزیر ہو جاتی ہے۔ یہ بات پاکستان بھی اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اب طالبان ماضی کی طرح مکمل طور پر حاوی نہیں ہو سکتے لہٰذا اس وقت پاکستان کی ممکنہ ترجیح یہ ہے کہ مذاکراتی عمل کے ذریعے طالبان کو سیاسی دھارے میں اس طرح شامل کیا جائے کہ وہ حکومت میں رہتے ہوئے پاکستانی مفادات کے خلاف کسی بھی فیصلے کو ویٹو کرنے کی صلاحیت کے حامل ہوں۔ کیونکہ مستقبل میں وسطی ایشیا تک گوادر کا انسلاک افغانستان سے پر امن راہداری کے ذریعے ہی ممکن ہو سکے گا۔ اس لیے پاکستان اور چین کو یہ بات کسی بھی صورت منظور نہیں کہ طالبان کو کمزور پوزیشن میں مذاکرات تک لا کر امریکی و بھارتی شرائط پر سیاسی عمل کا حصہ بنایا جائے۔ کیونکہ اس طرح تو چاہ بہار ہی وسط ایشیاء کی منڈیوں تک واحد فعال رسائی رہ جائے گی۔ لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کی نئی قیادت کیا فیصلے کرتی ہے اور پاکستان سے اس کے تعلقات کس نوعیت کے رہتے ہیں۔ اگر طالبان کمزور ہو کر سیاسی عمل کا حصہ بنتے ہیں تو اس کا مطلب گوادر بھی کمزور ہو گی۔ اگر طالبان مضبوط پوزیشن کے ساتھ حصہ بنتے ہیں تو گوادر بھی مضبوط ہو گی۔ اور چاہ بہار کا معاملہ اس کے تقریباََ بر عکس ہو گا۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ افغان،مسئلے اور ان تمام علاقائی اقتصادیات کا آخری حل مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔

 اگر ہماری علاقائی قیادت باہمی رضامندی سے ان معاملات کو سلجھانا چاہے تو ایک راستہ مل بانٹ کر کھانے کا بھی نکل سکتا ہے۔ کیونکہ اگر نقشے اورجغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے تو وسطی ایشیائی ریاستوں میں سے کرغستان، تاجکستان اور ازبکستان کے لیے افغانستان سے گزر کر گوادر زیادہ موزوں راستہ رہے گا جبکہ ترکمانستان اور آذربائیجان کے لیے چاہ بہار زیادہ بہتر روٹ رہے گا۔ اور قزاقستان دونوں بندرگاہوں کے ذریعے اپنی تجارت کو مشرقِ وسطی تک براہِ راست وسعت دے سکتا ہے۔ لیکن ان تمام ریاستوں کو کسی بھی بندرگاہ تک رسائی کے لیے افغانستان سے گزرنا ہوگا۔ لہٰذا افغانستان میں امن دونوں معاشی راہداریوں کے لیے نا گزیر ہے۔ دوسری طرف اگرمشرقِ وسطیٰ کو دیکھا جائے تو وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی کے لیے اومان، یمن اور سعودی بلاک کے لیے گوادر زیادہ مناسب رہے گی تو عرب امارات، قطر اور کویت کے لیے چاہ بہار زیادہ بہتر روٹ رہے گا۔ لیکن چین یا روس تک زمینی رسائی کے لیے ان تمام ریاستوں کو گوادر ہی کو استعمال کرنا پڑے گا۔ لہٰذا گوادر اپنی آب و تاب قائم رکھے گی۔ لیکن زیادہ فوائد اس صورت میں ہو گا کہ گوادر چین کی طرح وسطی ایشیا سے بھی منسلک ہو جائے۔ اس لیے بہتر یہی ہو گا کہ باہمی رضا مندی اورمذاکرات کے ذریعے افغانستان میں ایسی متفقہ حکومت قائم ہو جو دونوں راہداریوں کو برابر اجازت دے، کہ پھر جس ملک کو جو راہداری مناسب لگے وہ اس کا استعمال کرے۔ اس طرح پورے خطے کو بالعموم اور پاکستان و افغانستان کو بالخصوص معاشی خوشحالی کی ضمانت مل سکتی ہے۔ اور اس سرد اور طویل کہانی کو بھی کوئی خوبصورت موڑ دے کر ختم کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments