بیرونی ممالک سے آن لائن منگوائے گئے قیمتی پارسل اتوار بازار میں کیوں بک رہے ہیں؟


کیا یہ واقعی انٹرنیٹ پر پاکستانیوں کی جانب سے آرڈر کی جانے والی چیزیں اتوار بازار میں بک رہی ہیں؟ تصویر وائرل ہونے کے بعد بالآخر اصل حقیقت سامنے آگئی

 

گزشتہ چند دنوں سے ایک تصویر نے پاکستانی سوشل میڈیا پر خوب ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ یہ اتوار بازار کے ایک سٹال کی تصویر ہے جہاں انٹرنیٹ کے ذریعے منگوائی جانے اشیاءکے پارسلوں کا ڈھیر لگا ہے، جو منگوانے والوں کے پاس پہنچنے کی بجائے کسی طرح اس بازار میں پہنچ گئے اور اب 200 روپے فی پارسل میں بیچے جا رہے ہیں۔ اگر آپ نے بھی کبھی انٹرنیٹ سے کوئی چیز منگوائی ہے، یا ایسا ارادہ رکھتے ہیں، تو یقیناً یہ معاملہ آپ کے لئے بھی باعث تشویش ہو گا اور ضرور آپ بھی حقیقت جاننا چاہیں گے۔

ویب سائٹ ’مینگو باز‘ کے مطابق حال ہی میں سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی اس تصویر کے بارے میں دعوٰی کیا گیا کہ اس میں دکھائی دینے والے پارسلز میں سے اکثر پاکستان کے مختلف شہروں میں علی ایکسپریس کے ذریعے منگوائے جانے والے پارسل ہیں، جو منگوانے والوں تک پہنچے نہیں یا انہوں نے قبول نہیں کئے، اور اب یہ اتوار بازار میں فروخت ہو رہے ہیں۔

لاریب مہتاب نامی ٹویٹر صارف نے یہ تصویر پوسٹ کی اور اس کے ساتھ لکھا ” کیا آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ علی ایکسپریس کے جو پیکج آپ تک نہیں پہنچتے وہ کہاں جاتے ہیں؟ یہ سنڈے بازار میں ہیں، یہاں یہ شخص 200 روپے میں بیچ رہا ہے۔ جو بھی نکلا آپ کی قسمت۔“

یہ تصویر ابتدائی طور پر طلحہ سلیم نامی شہری نے بنائی تھی۔ ویب سائٹ مینگو باز کا کہنا ہے کہ حقائق جاننے کے لئے طلحہ سے رابطہ کیا گیا تو اس نے بتایا کہ اس کی ایک دوست نے یہ تصویر اپنے پرائیویٹ انسٹاگرام پر پوسٹ کی تھی جس کے بعد انہوں نے اس سٹال کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ وہ اسے خود دیکھنے کے لئے اتوار بازار گئے اور انہیں مایوسی نہیں ہوئی۔ طلحہ کا کہنا تھا کہ اس ڈھیر میں کئی طرح کے پارسل تھے، جن میں بیرون ملک کے ایڈریسوں پر بھیجے گئے پارسل بھی موجود تھے۔ دکاندار نے انہیں بتایا کہ اُس روز اُسے 1000 پارسل کی ڈلیوری موصول ہوئی تھی۔ اتوار بازار میں بیچے جانے والے یہ پارسل ہانگ کانگ، آذربائیجان، فرانس اور دیگر کئی ممالک کے ایڈریس رکھتے ہیں۔

یہ اطلاع بھی سامنے آئی ہے کہ سوشل میڈیا پر اس سٹال کی خبر عام ہونے کے بعد حکام نے بھی اس کا دورہ کیا لیکن کسی غیر قانونی سرگرمی کے شواہد نہ پاتے ہوئے واپس چلے گئے۔ محکمہ ڈاک کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں یہ عام پریکٹس ہے کہ آن لائن ڈلیوری کرنے والی کمپنیاں پارسل واپس منگوانے کے اخراجات ادا کرنے کی بجائے ان سے جان چھڑانا بہتر سمجھتی ہیں۔ یہ وہ پارسل ہوتے ہیں جنہیں منگوانے والے قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں اور ان کی بہت بڑی تعداد اونے پونے داموں میں آگے فروخت کردی جاتی ہے۔ تاحال دستیاب معلومات کے مطابق اتوار بازار میں فروخت ہونے والے سب کے سب پارسل بیرون ملک سے منگوائی گئی کھیپ کا حصہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).