شریف لڑکیاں طوائف کیوں بنتی ہیں؟


آپ کسی بھی طوائف کے پچھلے حالات کی تحقیقات کریں، تو یہ ثابت ہو گا، کہ ایک دو یا تین پشت پہلے یہ اچھے خاندان سے تعلق رکھتی تھی، اور اگر اس نے شادی کر لی، تو دو تین یا چار پشت کے بعد لوگ اس کی طوائفیت کو بھول کیے۔ ان طوائفوں کی انسٹی ٹیوشن یا نسل میں اضافہ ہوتا ہے، تو اس صورت میں، کہ شرفاء کی لڑکیاں بری صحبت کے باعث گھروں سے نکل جاتی ہیں۔ گھروں سے چلے جانے کے بعد ان کو اپنے ساتھ لے جانے والے ان کے وفادار ثابت نہیں ہوتے۔ یہ شرم اور رسوائی کے باعث اپنے گھر واپس نہیں جا سکتیں، اور یہ مجبور ہوتی ہیں، کہ طوائفوں کا پیشہ اخیتار کریں۔

چند برس ہوئے، دہلی میں مسٹر جمناداس اختر ایڈٹیر سویرا، سردار لچھمن سنگھ ٹھیکیدار اور چند دوسرے سوشل ورکرز نے معصوم و بے گناہ لڑکیوں کو طوائفوں کے قبضہ سے نکال کر ان کو اپنے والدین کے پاس واپس بھیجنے کی تحریک شروع کی تھی۔ اس سلسلہ میں کچھ مشورہ کے لئے دفتر ”ریاست“ میں آئے۔ یہ اپنے اس مشن کی تبلیغ کے لئے طوائفوں کے بازار جی ٹی روڈ جانے والے تھے، تو راقم الحروف سے بھی انہوں نے ساتھ چلنے کے لئے کہا۔ میں کسی بھی تحریک میں کوئی حصہ نہ لیا کرتا، مگر صرف اپنی معلومات کو وسیع کرنے اور دلچسپی محسوس کرتے ہوئے ان کے ساتھ ہو لیا۔

ہم لوگ جی ٹی روڈ کے طوائفوں کے ایک مکان میں گئے، جس کا ایک ہی زینہ تھا۔ مگر اس زینہ سے ملحق تین چار کمرے تھے، اور ا ن کمروں میں مختلف طوائفیں رہتی تھیں۔ ہم جب وہاں پہنچے، تو اس وقت دوپہر کے دو تین بجے تھے، اور یہ وقت طوائفوں کے کاروبار کا نہیں ہوتا۔ کیونکہ طوائفوں کا کاروبار رات کو آٹھ نو بجے شروع ہو کر بارہ اک بجے رات جاری رہتا ہے۔ ہم جب زینہ پر چڑھنے کے بعد ان کمروں کے سامنے پہنچے، تو یہ تمام طوائفیں ہمیں دیکھنے کے لئے اپنے کمروں سے بار آگئیں۔ کچھ کا خیال تو غالباً یہ تھا، کہ ہم پو لیس سے تعلق رکھتے ہیں، اور کسی طوائف کی تلاشی، یا کسی ملزم کی گرفتاری کے لئے یہاں آئے ہیں، اور بعض طوائفیں اس خیال میں تھیں، کہ ہم انتہائی طوائف زدہ ہیں، جو دوپہر کو بھی ان کے کوٹھوں پر مارے مارے پھر رہے ہیں۔

ان طوائفوں کے کمروں میں سے ہم ایک طوائف کے کمرہ میں داخل ہوئے۔ وہ شخص بھی ہمارے ہمراہ تھا، جس نے بتایا تھا، کہ یہ طوائف بی۔ اے تک تعلیم یافتہ ہے، اور اس نے بھی حال ہی یہ قابل نفرت پیشہ اختیار کیا ہے۔ ہم اس طوائف کے کمرے میں پہنچے، تو ہم نے دیکھا، کہ اس کے ہاں بہت صاف ستھرا فرش ہے، جس پر سفید چادر بچھی ہے۔ ایک بکس پر تو مہاتما گاندھی کا فوٹو رکھا ہے، اور فوٹو کے اس فریم پر پھولوں کا ایک ہار پڑا ہے۔ اور دوسرے بکس پر کرشن مہاراج کا ایک بت ہے، اور بت کے گلے میں بھی بھولوں کا ہار ہے۔

ہم اس فرش پر بیٹھ گئے، اور بات چیت ہے، شروع ہوئی۔ تو اس بات چیت سے معلوم ہوا کہ اس لڑکی کی عمر بیس برس کے قریب ہو گی۔ اس کا رنگ سلیٹی سا تھا، یعنی نہ گورا نہ سیاہ۔ نقش بہت معمولی۔ یعنی یہ حسین لڑکیوں میں شمار نہ کی جا سکتی تھی۔ دو برس پہلے اس نے ناگپور یونیورسٹی سے بی۔ اے پاس کیا تھا۔ یہ ناگپور کے ایک کالج کے پروفیسر کی لڑکی ہے، اور مہاراشٹر کی رہنے والی ہے۔ اس کا تعلق ناگپور کے ایک نوجوان سے بن گیا، اور دونوں اپنے گھروں سے بھاگ آئے۔ چند ماہ تو ادھر ادھر پھرتے رہے، اس کے بعد اس نوجوان نے اس لڑکی سے تعلق منقطع کر لیا، اور وہ واپس ناگپور چلا گیا۔

اس نوجوان کے چلے جانے کے بعد یہ لڑکی بے آسرا سی ہو گئی۔ اس کو کسی نہ کسی کی پروٹیکشن چاہتی ہے۔ یہ پروٹیکشن چاہے باب سے نصیب ہو، بھائی سے، یا بیٹے سے۔ ایک غنڈے نے اس کو اپنی پرو ٹیکشن میں لیا، تو اس نے بھی چند روز کے بعد اس کو چھوڑ دیا۔ آخر یہ ایک طوائف کے ہاں پہنچ گئی یا اس غنڈہ کے ذریعے پہنچا دی گئی، اور اس نے طوائفوں کا پیشہ جاری کر دیا۔ مگر چونکہ بچپن سے جوان ہونے تک اس نے ایک اچھے خاندان میں پرورش پائی، اور اس کو شروع سے ہی مذہبی اور جب الوطنی کے جذبات نصیب ہوئی، اس لئے یہ طوائفوں کا پیشہ اختیار کرتے ہوئے بھی سری کرشن اور مہاتما گاندھی دونوں کی پوجا کرتی ہے، او ر صبح اٹھتے ہی ان پر پھولوں کے ہار چڑھاتی ہے۔

یہ لڑکی بہت سنجیدہ، بہت سمجھدار اور ہوشیار تھی۔ اس نے محسوس کر لیا، کہ ہم لوگ کسی بری نیت سے اس کے ہاں نہیں آئے، اور ہماری غرض صرف اصلاح ہے۔ اس کے دل میں ہمارے لئے انتہائی عزت و احترام کے جذبات تھے، اور اس نے بہت کھل کر باتیں کیں۔ اس نے بتایا، کہ یہ شرم اور رسوائی کے خیال سے پھر واپس اپنے والدین کے پاس جانا نہیں چاہتی، کیونکہ وہاں کی سوسائٹی اس کو نفرت و حقارت کی نظروں سے دیکھے گی۔ نہ یہ اپنے والدین کو اپنی موجودہ حالت یا پتہ سے اطلاع دینا چاہتی ہے، اور یہ اب کسی شخص سے شادی کرنے کے لئے بھی تیار نہیں، جس کی دو وجوہ ہیں۔

ایک تو یہ کہ کسی ایسے بلند اخلاق شخص کا ملنا مشکل ہے، جو صرف اصلاح کے خیال سے اس سے شادی کرے، اس کے ذہن پر کسی طوائفانہ زندگی کے زمانہ کی یاد تازہ نہ رہے۔ اور اگر اس کو کوئی شوہر مل سکتا ہے، تو صرف ایسا ملے گا، جس کی کسی دوسری جگہ شادی نہ ہو سکتی ہو، یعنی جسے کوئی لڑکی دینا پسند نہ کرتا ہو۔ ایسے شخص سے اس کی زندگی اور زیادہ کوفت کا باعث ہو گی۔ اور دوسرے اس با ت کی کیا ضمانت ہے، کہ ناگپور سے لانے والے نوجوان کی طرح وہ شخص بھی چند روز کے بعد اس کو چھوڑ نہ دے گا، جو اس سے شادی کرے گا۔ اس بے چاری کی ان باتوں اور اعتراضات کا ہمارے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

ہم اس بات چیت کے بعد بھی اس کو کس طرح کہہ سکتے تھے، کہ یہ اس پیشہ کو چھوڑ دے، جبکہ ہمارے پاس اس کے مستقبل کے لئے کوئی پروگرام یا گنجائش نہ تھی۔ ہم نے صرف یہی کہا، کہ یہ تعلیم یافتہ ہے، اور اس کے لئے بہتر ہے، کہ یہ کسی سکول میں بچوں کو پڑھانے کے لئے ملازمت اختیار کر لے۔ ہم اس کو کوئی تسلی بخش جواب نہ دے کر واپس آنے کے بعد میں دو تین روز سوچتا رہا، کہ ایسی صورت میں ایک گمراہ ہو چکی عورت کے مستقبل کو کیونکر مفید بنایا جا سکتا ہے، مگر کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

میں نے بہت سی طوائفوں کے پچھلے حالات کا مطالعہ کیا ہے۔ پہاڑی طوائفوں کو چھوڑ کر ( کیونکہ ان کے خاندان صدیوں سے یہی پیشہ اختیار کرتے چلے آرہے ہیں، اور نینی تال کے علاقہ میں چند دیہات اور قصبے ایسے بھی ہیں، جہاں صرف طوائفوں کے خاندان ہی آباد ہیں۔ اور ان کی لڑکیاں ہر زمانہ میں دہلی، مراد آباد، سہارنپور، میرٹھ، لکھنؤ اور الہ آباد وغیرہ مقامات پر جاتی ہیں ) دوسری ہندو یا مسلمان طوائفوں میں ایک بھی ایسی نہیں، جو دوسری یا تیسری پشت پہلے کسی اچھے خاندان سے تعلق نہ رکھتی تھی۔ اور جب بھی ان سے باتیں ہو ئیں، تو انہوں نے اپنی نے اپنے پہلے خاندان پر فخر نہ کیا ہو۔

مثلاً یہ فلاں نواب کے خاندان سے ہے، اور اس کی نانی گھر سے نکل آئی تھی، اور اس کی نانی نے بعد میں یہ طوائفوں کا پیشہ اختیار کیا۔ یہ فلاں لالہ کی نواسی ہے، اور اس کی ماں گھر سے بھاگ آئی تھی، جس نے بعد میں طوائف کا پیشہ اختیار کیا تھا۔

طوائفوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک گانے والی خاندانی طوائفیں اور دوسری پیشہ کرنے والی، جو موسیقی سے نا آشنا ہیں، اور جو لوگوں کی صرف جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے وقف ہیں۔ پہلی کلاس کی یعنی ” خاندانی‘‘ طوائفیں عام طور پر مالدار ہوتی ہیں۔ یہ بڑی بڑی فیس پر مجرا کرنے جاتی ہیں۔ یہ صرف کسی ایک سیٹھ، ساہو کار، نواب یا راجہ سے ناجائز تعلقات رکھتی ہیں۔ جہاں سے ان کو چند سو یا چند ہزار روپیہ ماہوار ملتا ہے۔ یہ کسی دوسرے سے تعلق پیدا نہیں کرتیں۔ ہاں بغیر ناجائز تعلقات کے ان کے ہاں جانے والے کئی ہوتے ہیں، جن کا آنا جانا صرف گانا سننے یا بات چیت کرنے تک محدود ہوتا ہے، جسے یہ تفریح کہتے ہیں۔

خاندانی طوائفوں کے ہاں اگر کوئی نیا شخص جائے، تو یہ اس کے ساتھ بہت فیاضی کا ثبوت دیتی ہیں۔ یعنی اس کی دعوت پر دس پندرہ یا بیس روپے صرف کر دیتی ہیں۔ اور اگر اس نئے آنے والے نے بار بار آنا شروع کیا ( جس کا مطلب یہ ہے، کہ اس کے دل میں اس طوائف کے لئے کشش پیدا ہو گئی ) تو یہ طوائف اس کے گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتی ہے۔ یہ طوائفیں بہت بڑی سائیکالوجیسٹ ہوتی ہیں۔ اپنے ملنے جلنے والوں پر ہمیشہ یہ اثر چھوڑتی ہیں، کہ ان کو ملنے والے سے کوئی لالچ نہیں، اور یہ صرف محبت کی طلبگار ہیں۔

یہ کاروباری سلسلہ یعنی جیب خالی کرنے کا کام یہ اپنی ماں یا نانی پر چھوڑ دیتی ہیں۔ دوسری قسم یعنی پیشہ ور طوائفوں کی آمدنی بہت محدود ہوتی ہے، اور یہ بہت مشکل کے ساتھ اپنا گزارا کرتی ہیں۔ یہ عام طور پر جنسی امراض میں بھی مبتلا ہوتی ہیں، کیونکہ ہر قسم کے لوگ ان ہاں جاتے ہیں۔ طوائفیں بڑے گھروں میں کیوں کر مد غم ہو جاتی ہیں، اس سلسلہ میں مسلمان رؤسا، زمینداروں اور جاگیر داروں میں یہ تو عام طور پر نکاح ہونے کے بعد پردہ میں بیٹھ جاتی ہیں۔ اور ایک پشت کے بعد کسی کو کوئی خیال نہیں ہوتا، کہ فلاں لڑکی یا فلاں لڑکے کی ماں طوائف تھی۔

ہندوؤں میں بھی ایسی مثالیں مل سکتی ہیں، کہ ایک طوائف کو اس کے خاندان میں دوسری خواتین کے برابر پوزیشن حاصل ہوئی۔ مثلاً پنجاب کی ایک ریاست کے مہاراجہ کے گھر میں ایک پہاڑن طوائف تھی۔ اس پہاڑن طوائف کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوا، جو مہاراجہ کی کوششوں سے ولی عہد قرار پایا، اور بعد میں یہ اس ریاست کا مہاراجہ ہوا، اس طوائف زدہ مہاراجہ کی شادی پنجاب کے ایک رئیس کی لڑکی سے ہوئی۔ اور اب لوگوں کو خیال بھی نہیں، کہ موجودہ مہاراجہ کی دادی طوائف تھی۔ یعنی طوائفوں کا منبع و ماخذ عام طور پر بڑے خاندان ہی ہیں۔ اور اگر کوشش کی جائے، تو یہ طوائفیں پھر اچھے خاندانوں میں مد غم ہو سکتی ہیں۔
سیف و قلم سے اقتباس

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon