شاہراہ دستور پر واقع ریڈیو پاکستان کے ہیڈکوارٹر کو طویل مدتی لیز پر دینے کا منصوبہ


مورخہ 17 ستمبر 2018 کو وفاقی وزیر اطلاعات کے دفتر کے ڈائریکٹر نے ایک مراسلہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہیں وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کی جانب سے ہدایت ملی ہے کہ ریڈیو پاکستان ہیڈکوارٹر کی عمارت کو ایک طویل مدتی لیز پر دینے اور پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ہیڈکوارٹر کو وہاں سے ایچ نائن میں پی بی سی اکیڈمی میں منتقل کرنے کی پروپوزل تیار کی جائے۔

ایک دوسرے مراسلے میں ایڈمنسٹریٹو آفیسر جواد احمد قریشی نے پی بی سی کے ڈائریکٹرز نیوز، انجینئیرنگ اور پروگرامنگ کو لکھا ہے کہ وہ اس پروپوزل کی تیاری کے لئے اپنی رائے 25 ستمبر تک دیں تاکہ وہ وزارت کو بھیجی جا سکے۔

پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کا ہیڈکوارٹر شاہراہ دستور پر واقع ہے۔ یہ چوک پر وزیراعظم ہاؤس کے مخالف کونے پر ہے اور اس کے سامنے سڑک کے دوسری جانب ڈپلومیٹک انکلیو میں آسٹریلیا، انڈونیشیا اور سوئٹزرلینڈ وغیرہ کے سفارت خانے ہیں۔ یہ عمارت دفتر خارجہ کے عقب میں واقع ہے۔

یہ ایک سات منزلہ عمارت ہے جس میں ریڈیو پاکستان کے مختلف شعبے بشمول ریڈیو پاکستان اسلام آباد موجود ہیں۔ اس کا افتتاح ستر کی دہائی میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔ بحری جہاز کی شکل کی اس عمارت میں ہزاروں افراد کام کرتے ہیں۔

ایچ نائن میں واقع پی بی سی اکیڈمی ایک منزلہ عمارت ہے۔ یہ برصغیر کی اعلی ترین براڈ کاسٹنگ اکیڈمی ہے جس میں دوسرے ممالک سے براڈکاسٹنگ کی تربیت پانے کے خواہش مند بھی آتے ہیں۔

ریڈیو پاکستان اس وقت شدید مالی بحران سے دوچار ہے۔ اس وقت یہ دو سے تین ارب روپے کے سالانہ خسارے کا شکار ہے۔ گزشتہ بجٹ میں پینشن میں کیا جانے والا اضافہ بھی ریڈیو کے ملازمین کو نہیں مل پایا ہے۔ اس کے علاوہ پچھلے چار ماہ سے ریڈیو کے آرٹسٹوں کو بھی معاوضے کی ادائیگی نہیں کی جا سکی ہے۔

یہاں کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ریڈ زون کے انتہائی حساس علاقے میں یہ عمارت کسے لیز پر دی جائے گی؟ لیز کی مدت کتنی طویل ہو گی؟ اسے لیز پر دینے سے ملنے والی رقم کیا پی بی سی کو دی جائے گی یا کسی دوسرے کھاتے میں ڈال دی جائے گی۔

لیکن سب سے اہم دو سوال ہیں۔ پہلا یہ کہ سات منزلہ عمارت میں کام کرنے والے ہزاروں افراد کو پی بی سی اکیڈمی کی ایک منزلہ عمارت میں کیسے سمویا جائے گا؟ کیا ان کو نوکری سے نکال دیا جائے گا؟ اسلام آباد ریڈیو سٹیشن کہاں جائے گا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ اکیڈمی کا کیا ہو گا؟ کیا اسے ختم کیا جا رہا ہے؟ اکیڈمی ختم کرنے کی صورت میں نئے براڈ کاسٹرز کی تربیت کا واحد ادارہ ختم ہو جائے گا۔ اس کے ذریعے جو زرد مبادلہ کمایا جاتا ہے اس سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ اس کے علاوہ ہم اس براڈکاسٹنگ کے میدان میں تنہا رہ جائیں گے اور سارک ممالک کے یہ افراد پاکستان کی بجائے بھارت میں جا کر تربیت حاصل کرنے پر مجبور ہوں گے۔ کیا رائے عامہ کو تشکیل دینے والے ان براڈ کاسٹرز کو بھارت کے حلقہ اثر میں جانے دینا مناسب ہو گا؟

میڈیا پر چلنے والی خبروں کے مطابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری اس عمارت میں ایک میڈیا یونیورسٹی کے قیام کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کیا یہ سرکاری شعبے کی یونیورسٹی ہو گی یا نجی؟ ٹھیکے پر دینے کے مراسلے سے تو ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ نجی شعبے کو دی جائے گی۔

اس اہم فیصلے پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے۔ اگر سرکاری عمارات بیچ کر پیسے کمانا ہی مقصد ہے تو مناسب ہے کہ انگریزوں کے دور کے بنے ہوئے افسران کے کئی کئی ایکڑ پر پھیلے ہوئے بنگلوں سے آغاز کیا جائے جن کی دیکھ بھال کے لئے درجنوں افراد مامور ہیں اور وہ مختلف شہروں کے مہنگے ترین علاقوں میں واقع ہیں۔ ریڈیو پاکستان، وزیراعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤس وغیرہ ہمارے قومی ورثے کا حصہ ہیں۔ ان کو محفوظ رکھنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).