علامہ ضمیر اختر نقوی کی جادوئی پیشکش


اپنے بچپن میں خانیوال کی دیکھی ہوئی مجلسیں مجھے یاد ہیں۔ سوز و سلام کے بعد پہلے کوئی ذاکر پنجابی میں خطاب کرتا تھا۔ ایسے ذاکر منبر پر نہیں بیٹھتے۔ کھڑے ہوکر مصائب سناتے ہیں۔ اس خطاب کے دوران امام بارگاہ بھرا رہتا تھا۔ خوب گریہ ہوتا تھا۔ اس کے بعد اردو میں حدیث غم بیان کی جاتی۔ لیکن اس کے سننے والے نسبتاً کم ہوتے۔ میرے تایا مولانا بوعلی شاہ بھی مجلس پڑھتے تھے۔

کراچی آکر پہلی مجلس علامہ طالب جوہری کی سنی۔ تب انچولی کی بارگاہ شہدائے کربلا موجود نہیں تھی۔ جہاں اب روضہ امام حسین کی شبیہہ ہے، وہاں شامیانہ لگاکر عشرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔
پھر عرفان حیدر عابدی سے آشنائی ہوئی۔ ان کی مجلس میں مواد کم اور جوش زیادہ ہوتا تھا۔ نعرے بہت لگتے تھے۔

کئی سال بعد عبدالحکیم بوترابی کا ظہور ہوا۔ ان کا تعلق حیدرآباد سے تھا لیکن عزیز آباد کے بوتراب امام بارگاہ میں انھوں نے ایسا غضب کا عشرہ پڑھا کہ ان کا نام بوترابی پڑگیا۔ کراچی بھر کے عزادار انھیں سننے پہنچتے تھے اور بہت رش ہوتا تھا۔ صرف دو ہی عالم ایسے ہیں، میں نے جن کا تعاقب کیا ہے۔ جہاں جہاں وہ تقریر کرنے جاتے، میں بھی پہنچ جاتا۔

دوسرے عالم کا نام ابھی بتاتا ہوں۔ ذرا صبر کریں۔

مولانا عون محمد نقوی کو میں کافی عرصے سے جانتا تھا لیکن ان سے قربت حج کے سفر میں ہوئی۔ انھوں ہی نے میرے والد کے چہلم کی مجلس پڑھی۔ تقی ہادی شہید کی ایک مجلس میں بیٹھا تھا لیکن اس دن وہ موضوع سے بھٹک گئے اور ایک کے بجائے دو گھنٹے خطاب کرگئے تھے۔ ایک تقریر شوکت رضا شوکت کی اور ایک محسن نقوی شہید کی بھی سنی۔ محسن نقوی نے اس روز وہ یادگار نظم سنائی جس کا عنوان دلہن تھا۔ پتا نہیں اب کسی کو وہ نظم یاد ہے یا نہیں۔

کل شب کو خواب میں اے میرے دورِ پُرفِتن
دیکھی یزیدیت کے قبیلے کی اِک دُلہن
اس نظم کے بعد ایک شیعہ دشمن تنظیم کو نام بدلنا پڑگیا تھا۔ کچھ عرصے بعد محسن نقوی کو لاہور میں قتل کردیا گیا۔

میں نے زندگی میں جتنی تعداد میں مجلسیں کی ہیں، ان میں تمام علما ایک طرف اور علامہ ضمیر اختر نقوی کے خطاب ایک طرف۔ بلکہ ان کی تقاریر زیادہ سنی ہیں۔
پندرہ سترہ سال پہلے کا ایک محرم ایسا تھا جب علامہ صاحب نے چار مقامات پر عشرہ پڑھا۔ مغرب سے پہلے بارگاہ چہار دہ معصومین انچولی، مغربین کے بعد آل عبا گلبرگ، پھر مارٹن روڈ اور اس کے بعد ملیر برف خانہ۔ تب میرے پاس کار تو کیا، موٹرسائیکل بھی نہیں تھی۔ لیکن دوڑتے بھاگتے، بسوں میں دھکے کھاتے اور لفٹ لے لے کر ہر جگہ پہنچا۔

ضمیر اختر نقوی کا تعلق لکھنؤ سے ہے۔ ویسا تعلق نہیں جیسا میرا امروہے سے ہے۔ میرے نانا دادا امروہے سے پاکستان آئے تھے۔ ضمیر اختر خود لکھنؤ کی پیدائش ہیں۔ لکھنؤ کی عزاداری کیسی تھی، علامہ سے سن لیجیے یا ان کو دیکھ لیجیے۔ دبلے پتلے، نازک سی جان لیکن آواز میں گرج ہے۔ پرانی اردو بولتے ہیں اور اساتذہ کی زبان ٹھیک کرتے ہیں۔ شاعر ہیں اور کلام ضمیر کے عنوان سے مجموعہ چھپ چکا ہے۔ انیس و دبیر کا کلام ازبر ہے اور مجلسوں میں موقع کی مناسبت سے سناتے ہیں۔ بلکہ محرم میں ایک دن انیس کے مرثیے کی خاص مجلس کرتے ہیں۔

برسوں پہلے کا ذکر ہے، ایک بار علامہ صاحب نے امام بارگاہ آل عبا میں کوئی واقعہ پڑھا۔ اس میں تاریخی غلطی تھی۔ میں نے براہ راست ٹوکنا مناسب نہیں سمجھا اور ایک کاغذ پر تصحیح کرکے منبر پر بھجوادی۔ علامہ صاحب غصے کے تیز ہیں۔ اکثر دبلے لوگ ہوتے ہیں۔ میں نے انھیں منبر سے لوگوں کو ڈانٹتے اور سخت سست کہتے سنا ہے۔ لیکن اس دن وہ میری جرات کو برداشت کرگئے۔ صرف اتنا کہا، ہاں میاں کبھی کبھی حافظہ ساتھ نہیں دیتا۔ میں شرط لگاکر کہہ سکتا ہوں کہ علامہ صاحب نے کبھی کسی اور موقع پر اپنے حافظے کو الزام نہیں دیا ہوگا۔ بلاشبہ ان کا حافظہ قابل رشک ہے۔

میں جادو، کرشمات اور معجزوں کا قائل نہیں۔ علامہ صاحب اکثر معجزے سناتے رہتے ہیں۔ پھر میں کیوں انھیں سننے کا خواہش مند رہتا تھا، یہ بتانے سے پہلے ان کی ایک مجلس کا ٹکڑا سن لیجیے۔
ایک دن علامہ صاحب نے پڑھا کہ حضرت علی گھوڑے کی ایک رکاب میں پیر رکھ کر قرآن مجید شروع کرتے اور دوسرا پاؤں رکاب میں رکھ کر گھوڑے کی زین پر بیٹھنے تک مکمل کرلیا کرتے تھے۔ علامہ صاحب کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ یہ بات عقل میں نہیں آتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ معجزہ کہتے ہی اسے ہیں جو عقل میں نہ آئے۔ عقل معجزے کو سمجھنے سے عاجز ہوتی ہے۔

میں میڈیا کا آدمی ہوں۔ مجھے صرف کونٹینٹ سے دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ اس کے اظہار کے انداز، اس کی پیشکش پر بھی توجہ دیتا ہوں۔ ضمیر اختر نقوی کی جادوئی پیشکش، ان کی پاٹ دار آواز، ڈرامائی انداز، یہ سب انوکھا ہے۔ منبر پر آپ کو ایسا دوسرا خطیب نہیں ملے گا۔

میں نے بہت سے سیمیناروں، ادبی محفلوں، مذہبی تقریبات میں شرکت کی ہے۔ لوگ اکثر خشک گفتگو کی وجہ سے توجہ کھو بیٹھتے ہیں۔ ضمیر اختر نقوی کی گفتگو سے ایک لمحے کے لیے توجہ ہٹانا ممکن نہیں ہوتا۔ وہ جو بھی کہیں، سننے والا سنتا ہے۔ کچھ نہ کچھ لے کر، سیکھ کر اٹھتا ہے۔

آج کل کچھ لوگ علامہ پر سخت تنقید کررہے ہیں۔ ان کی مجلسوں کے بعض ٹکڑے نکال کر سوشل میڈیا پر شئیر کررہے ہیں۔ میں تیس سال سے بہت سے شیعوں کو ان پر تنقید کرتے دیکھ رہا ہوں۔ اس کے باوجود ان کی مجلس میں آنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اس لیے کہ علامہ کو فقط دو چار ٹکڑوں سے نہیں جانا جاسکتا۔ آپ کسی شاعر کے چار برے شعر سن کر پوری شاعری کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ چار دوسرے شعر آپ کا ذہن بدل سکتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد کچھ اور لوگ ضمیر اختر نقوی کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔ ممکن ہے کہ مذاق اڑانے کی خاطر وہ ان کی چند مجلسیں سن لیں۔ پھر ایسا نہ ہو کہ کایاپلٹ جائے۔ میں نے کئی لوگوں کو پلٹتے دیکھا ہے۔
قُم باذن اللہ کی روایت پر ایمان رکھنے والوں کا ویسے بھی دوسرے معجزوں پر تنقید کرنا اچھا نہیں لگتا۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi