کراچی میں خواتین کے لئے ٹوائلٹس کا فقدان


کراچی کے وسط میں واقع جہانگیر پارک میں ایک عمارت میں مردوں کی آمدرفت جاری ہے، اس عمارت کی چھت پر ایک نیلے رنگ کا پانی کا ٹینک موجود ہے جبکہ کوئی چھت نہیں ، باہر ایک کونے میں پبلک ٹوائلٹ تحریر ہے۔

یہ ٹوائلٹ شہر کی قدیم ایمپریس مارکیٹ کے قریب واقع ہے، جس کے چاروں اطراف میں مارکیٹ، کئی بسوں کا اسٹاپ اور آس پاس کئی سو ریڑھیاں موجود ہیں۔

ویسے تو یہ چاروں ٹوائلٹ خواتین اور مرد دونوں کے لیے ہی ہیں لیکن سنیچر کو ایک گھنٹے تک کیے گئے مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی کہ خواتین شاذ ونادر ہی یہاں کا رخ کرتی ہیں۔

ان ٹوائلٹ کی دیکھ بھال پر مامور سلیم مسیح نے بتایا کہ اس ٹوائلیٹ کی فیس پانچ رپے ہے یہاں دن بھر مردوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔

یہاں پورا دن مرد ہی آتے ہیں مشکل سے ایک دو ہی خواتین آتی ہیں اور یہ بھی وہ ہوتی ہیں جن کو بس میں سوار ہونا ہوتا ہے۔‘

اس ٹوائلٹ سمیت سٹیزن پولیس لیژان کمیٹی نے شہر کے مختلف مقامات پر 44 یونٹس تعمیر کرائے ہیں۔ ویسے تو یہ ادارہ پولیس کے بارے میں شکایات اور تاجروں کی مدد کے لیے بنایا گیا تھا لیکن اب یہ شہری سہولیات میں بھی شریک ہو رہا ہے۔ سنہ 1999 میں سی پی ایل سی کی جانب سے یہ منصوبہ شروع کیا گیا جس کے تحت 200 پبلک ٹوائلٹس قائم کیے جانے تھے لیکن اب تک محض 44 ٹوائلٹس ہی قائم کیے جاسکے ہیں۔

سی پی ایل سی ضلع وسطی کے چیف اور عوامی سہولت کے منصوبے کے سربراہ سید عتیق الرحمان نے بتایا کہ بنیادی طور پر تو حکومت کو اس میں آگے آنا چاہیئے۔ مگر ان کی عدم توجہ کےباعث مخیر حضرات عوام کو یہ سہولت فراہم کر رہے ہیں۔

’بلدیاتی اداروں کو اس اہم ضرورت کا علم ہے، تاہم ہو سکتا ہے ان کے پاس فنڈنگ نہ ہو، بلدیاتی اداروں کو بھی جب کسی جگہ پرعوامی بیت الخلا تعمیرکرنا ہوتا ہےتووہ سی پی ایل سی سے ہی رابطہ کرتے ہیں۔‘

ایمپریس مارکیٹ سے تقریبا تین کلومیٹر دُور لکی اسٹار بس اسٹاپ پر کنٹونمنٹ بورڈ کی جانب سے زنانہ اور مردانہ الگ الگ ٹوائلٹس موجود ہیں لیکن زنانہ ٹوائلٹ پر ایک بڑا سا تالا لگا ہوا ہے۔

شہر کے مختلف علاقوں بالخصوص لانڈھی، کورنگی اور سائٹ ایریا سے آنے والی بسیں یہاں پر ٹھہرتی ہیں اور قریب ہی طبی آلات کی مارکیٹ بھی ہے۔ یہاں بھی پانچ روپے فیس مقرر ہے تعینات عملے کے مطابق خواتین کا ٹوائلٹ ایک بڑے عرصے سے بند ہے جس کی وجوہات سے وہ لاعلم ہیں۔

صحت وصفائی، حفظانِ صحت اور محفوظ پانی تک رسائی ممکن بنانے کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے واٹر ایڈ کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک خاتون کے پاس بیماری، ہراساں کرنے اور حتیٰ کہ حملہ ہونے کے خوف کے باعث کوئی جگہ محفوظ نہیں جہاں وہ اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جا سکے اور یہ اعدادوشمار ترقی پذیر ممالک میں بہت بڑے پیمانے پر ملتے ہیں۔

کراچی کے معروف بازار جامع کلاتھ میں بھی خواتین کے لیے ایک بھی ٹوائلٹ موجود نہیں ہے اور انہیں حاجت پوری کرنے کے لیے مساجد وغیرہ کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔ اس مارکیٹ میں کپڑوں، جوتوں سے لے کر جیولری اور خواتین کے عام استعمال کی تمام ہی اشیا دستیاب ہوتی ہیں اور یہاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں خواتین آتی ہیں۔

آرام باغ فرنیچر مارکیٹ کی یونین کے چیئرمین شاہد حسین سے بات کی تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ مارکیٹ میں خواتین کے لیے الگ ٹوائلٹ موجود نہیں ہے وہ اس کی تعمیر چاہتے ہیں لیکن جگہ دستیاب نہیں۔

شاہد حسین نے بتایا “اس مارکیٹ میں روزانہ ستر فیصد خواتین اور 30 فی صد مرد خریدار آتے ہیں۔ عوامی ٹوائلٹ ایک ہی ہے وہ بھی مسجد میں ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کے لیے الگ ٹوائلٹ نہیں ہے۔”‘

شہر کی مختلف مارکیٹوں میں کیے گئے دورے کے مطابق شہر کی ہول سیل مارکیٹ میں بھی خواتین کے لیے ٹوائلٹ موجود نہیں ہیں، یہاں برتنوں کی خریداری کے لیے روزانہ ہزاروں خواتین آتی ہیں۔

آل کراچی انجمن تاجران کے صدر محمد رفیق جدون کا کہنا ہے کہ یہاں ایک ہوٹل ہے اگر کوئی خاتون پوچھتی ہیں تو انھیں وہاں بھجوانا پڑتا ہے۔

“تھوڑے فاصلے پر ایک عوامی ٹوائلٹ موجود ہے لیکن اس متعلق نہ تو کسی کو معلوم ہے اور نہ ہی کوئی بورڈ لگا ہوا ہے۔ مرد حضرات تو مساجد میں چلے جاتے ہیں لیکن خواتین کو بہت مسئلہ ہوتا ہے۔”

کراچی کی شہری سہولیات پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے اربن ریسورس سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2015 میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ 80 لاکھ تھی جو سنہ 2020 میں دوکروڑ 41 لاکھ سے تجاوز کرجائے گی۔ اتنی بڑی آبادی والے شہر میں جہاں خواتین آبادی کے تقریباً 40 فی صد پر مشتمل ہیں وہاں خواتین کے لیے عوامی مقامات پر ٹوائلٹ نہ ہونے کے برابر ہیں۔

پرانے کپڑوں کی مارکیٹ لائیٹ ہاؤس کے تاجروں کی تنظیم کے صدر حکیم شاہ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس آنے والے خریداروں میں خواتین 25 فی صد ہوتی ہیں لیکن ان کےلیے ایک بھی عوامی ٹوائلٹ موجود نہیں ہے۔

واٹر ایڈ کے مطابق اگر دنیا میں نکاسی آب یا صفائی سُتھرائی کا مناسب انتظام ہو تو 1.25 ارب خواتین کی زندگیاں محفوظ اور صحت مند بن سکتی ہیں۔

رُباب شکیل کا کہنا ہے کہ عام مارکیٹوں میں خواتین کے لیے کوئی ٹوائلٹ موجود نہیں ہوتے

’یہ سہولت صرف شاپنگ مال میں دستیاب ہوتی ہے، اس صورتحال میں گھر سے فارغ ہو کر جاتے ہیں اور اگر ضرورت محسوس ہو بھی تو برداشت کر لیتے ہیں۔‘

ایک نوجوان خاتون انیس زہرہ کہتی ہیں کہ “طارق روڈ اور دیگر چند مارکیٹوں میں ٹوائلٹ ہیں لیکن صفائی سُتھرائی کا نظام ناقص ہوتا ہے اس لیے اگر ایسی ضرورت پیش آجائے تو ہم گھر واپس آنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انیس ژہرہ کہتی ہیں کہ کراچی میں اگر کہیں ٹوائلٹ کی سہولت موجود ہو بھی تو وہ اتنی بُری حالت میں ہوتے ہیں کہ اس سے کئی طرح کی بیماریاں لاحق ہونے کے خدشات ہوتے ہیں اور خواتین اسی ڈر سے وہ ٹوائلٹ استعمال نہیں کرتیں”

پروفیسر یورولوجی ڈپارٹمنٹ ڈاکٹر روبینہ نقوی کا کہنا تھا کہ ’اگر ٹوائلٹ صاف ستھرے نہیں ہیں اورخواتین استعمال کریں تو اس صورت میں بھی انفیکشن کا خدشہ ہوتا ہے۔‘

اسی طرح سائرہ کا کہنا تھا کہ جن مارکیٹوں میں وہ جاتی ہیں وہاں ٹوائلٹ کی سہولت موجود ہوتی ہے۔

’کچھ بازاروں میں ٹوائلٹ کی سہولت موجود ہوتی ہے اگر نہیں تو پھر میں جلد فارغ ہوکر گھر لوٹ آتی ہوں۔‘

زینب بھی کہتی ہیں کہ وہ بازاروں میں ٹوائلٹ موجود نہ ہونے کی بنا پر عام طور پر گھر سے فارغ ہوکر جاتی ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی ترقیاتی انڈیکس میں پاکستان کو اُن 162 ممالک میں 127 واں نمبر دیا گیا ہے جہاں ملک کو کم درجے پر لانے کی وجوہات میں پانی کی ناکافی فراہمی اور صفائی سُتھرائی کی کمی شامل ہیں۔

حصار فاؤنڈیشن کی بانی سیمی کمال کا کہنا ہے کہ لوگوں کا خیال ہے کہ خواتین کو عوامی بیت الخلا میں جانے کی ضرورت نہیں ہے اور خواتین خود بھی ایسی جگہ پر جانے سے کتراتی ہیں۔

”اب کسی بڑے پارک میں ایک باتھ روم کھڑا کردیا جائے توکون عورت اس میں جائے گی۔ ظاہر ہے وہ خود کو محفوظ نہیں تصور نہیں کرے گی اور سمجھے گی کہ سب لوگ اسے دیکھ رہے ہیں”۔‘

سندھ میں حال ہی میں دس سال کے بعد بلدیاتی انتخابات منعقد کیے گئے جن میں خواتین کو 33 فیصد نمائندگی دی گئی ہے، اس سے قبل یہ نمائندگی 23 فیصد تھی۔ سیمی کمال کا کہنا ہے کہ ’شروع میں جب خواتین کی مناسب نمائندگی تھی توانہوں نےکام کیا، لیکن ان کا بھی  پہلا تجربہ تھا اور پھر اُن کو ترقیاتی فنڈ میں ان کو حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔‘

کراچی میں اپنی اور گھرکی ساز و سامان کی خریداری کا فریضہ زیادہ تر خواتین سر انجام دیتی ہیں۔ یہ خواتین کم از کم بیس منٹ اور زیادہ سے زیادہ چار گھنٹے تک بازار اور مارکیٹ میں موجود رہتی ہیں۔

ڈاکٹر روبینہ نقوی کا کہنا ہے کہ خواتین گھر سے باہر ٹوائلٹ موجود نہ ہونے کے خدشے کی بنا پر پانی کم پیتی ہیں۔

“کراچی کا موسم ایسا ہے کہ اس میں جسم سے پانی کا اخراج زیادہ ہوتا ہے اور زیادہ پانی پینے کی ضرورت ہوتی ہے۔” ہم گردوں کے ڈاکٹر دن میں دس سے بارہ گلاس پانی پینے کا مشورہ دیتے ہیں لیکن اگر کوئی صبح گھر سے نکلتے وقت ٹوائلٹ دستیاب نہ ہونے کے شُبے کی بنا پر اگلے چھ گھنٹے بھی پانی نہیں پیتا تو اس صورت میں جسم اور جلد سے پانی کا اخراج زیادہ ہوتا ہے جس سے گردوں میں پتھری کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ اور انفیکشن ہونے کے امکانات بھی کافی ہوتے ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ’اگر حاملہ خواتین گھر سے باہر جائیں اور وہ لیٹرین نہ جا سکیں تو اُن میں بھی انفیکشن کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔‘

(بشکریہ نیوز لینز)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments