گم سم بیٹھی اپوزیشن، میڈیا اور فواد چوہدری کا گنڈاسا


آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے 2008 سے دس برس تک مسلسل وزیر اعلیٰ رہنے والے شہباز شریف کا دعویٰ ہے کہ 25 جولائی 2018 کے روز ہونے والے انتخابات ان کی جماعت سے ”چرائے“ گئے تھے۔ میں اس دعویٰ کی تصدیق یا تردید کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔ منگل کی صبح قومی اسمبلی کی کارروائی دیکھتے ہوئے البتہ ایک خیال ضرور ذہن میں آیا ہے اور وہ یہ کہ اگر 25 جولائی 2018 کے روز ہماری دریں ریاست کی چند مبینہ طورپر جمہوریت دشمن قوتوں نے واقعتاً کوئی دھاندلی وغیرہ کی تو اس کا مقصد عمران خان کو وزیراعظم منتخب کروانا ہرگز نہیں تھا۔

اصل توجہ غالباً اس امر کو یقینی بنانے پر دی گئی کہ مبینہ ”دھاندلی“ کے ذریعے پارلیمان میں ہماری سیاسی تاریخ کی نالائق ترین اور تھکی ہاری اپوزیشن بھیجی جائے۔ ایسی اپوزیشن کے ہوتے ہوئے تحریک انصاف کی چند چھوٹی جماعتوں اور کبھی ”آزاد“ مانے اراکین کی مدد سے بنائی حکومت بہت اطمینان سے اپنی آئینی مدت مکمل کرلے گی۔ راوی اس کے لئے ستے خیراں لکھتا نظر آرہا ہے۔

شہباز شریف کے ہاتھ لگی اور کبھی نواز شریف کے نام سے منسوب پاکستان مسلم لیگ کو یہ گماں تھا کہ عمران حکومت 25 جولائی 2018 کے روز ہوئے انتخابا ت کے دوران ہوئی ”دھاندلیوں“ کی تحقیق کے لئے کوئی پارلیمانی کمیٹی بنانے کو ہرگز تیار نہیں ہوگی۔ منگل کا اجلاس شروع ہوتے ہی مگر حکومت نے یہ کمیٹی قائم کرنے پر اتفاق کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد اپوزیشن والے سپیکر اسد قیصر سے فقط یہ فریاد کرنے میں مصروف ہوگئے کہ مجوزہ کمیٹی میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین کو مساوی نمائندگی دی جائے۔ یہ التجا بھی ہوئی کہ اگر مذکورہ کمیٹی کا سربراہ کوئی غیر حکومتی رکن ہوا تو اس پر اعتبار پختہ ہوجائے گا۔

یہ فریاد کرتے ہوئے کسی ایک رکن کو بھی یاد نہ رہا کہ جو کمیٹی تجویز ہوئی ہے اس میں حکومتی اور حزب مخالف کے اراکین کو مساوی نمائندگی مل بھی گئی، اس کا سربراہ حکومتی جماعت سے تعلق نہ رکھتا ہوا تو بھی مذکورہ کمیٹی کون سا پہاڑ کھود لے گی۔ انتخابات میں دھاندلی کی بات ہو تو اصل توجہ روز ِ انتخاب پر نہیں Pre۔ Poll انتظامات و واقعات پر دینا ہوتی ہے۔ ان انتظامات و واقعات کا تذکرہ ہوتو کچھ ”مقامات“ ایسے آتے ہیں جہاں جاتے ہوئے ہمارے تھکے ہارے اور کئی برسوں سے ”چور لٹیرے“ کہلواتے سیاست دانوں کے پر کوتاہی پرواز دریافت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

مکدی گل یہ بھی ہے کہ موجودہ اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھاتے ہی اس ایوان میں موجود تمام اراکین بشمول اپوزیشن نے 25جولائی 2018 کے انتخابی عمل کو ایک حوالے سے بہت ٹھوس انداز میں تسلیم کرلیا ہے۔ ماضی کی لکیر پیٹنے کا لہٰذا اب کوئی فائدہ نہیں۔ اپوزیشن اراکین کو اسلام آباد میں رہائش کے لئے پارلیمانی لاجز میں فلیٹ الاٹ ہوچکے ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے ہوائی ٹکٹ ملتا ہے۔ ہر اجلاس میں شرکت کا یومیہ الاؤنس بھی ہے۔ خدارا اس ”کمائی“ کو حلال کریں اور اپنے کام پر توجہ دیں۔ منگل کے دن ان اراکین کا ”کام“ (فرض /ذمہ داری) یہ تھی کہ وزیر خزانہ کو مجبور کرتے کہ وہ ایوان کے روبرو ریاستی کاروبار اور ٹیکس جمع کرنے کے ان تمام انتظامات کو شق وار پیش کرتے جن کے ذریعے مفتاح اسماعیل کے بنائے بجٹ کو بقول اسد عمر ”مزید غریب پرور“ بنایا گیا ہے۔

تحریک انصاف کے مالیاتی امور کے حوالے سے ہونہار بروا مشہور ہوئے اسدعمر نے کمال رعونت سے ایسی کوئی فہرست تیار کرنے اور اسے ”سب پر بالادست ادارے“ کے روبروپیش کرنے کا تردد ہی نہ کیا۔ بہت سکون اور کمال اعتماد سے ایک لچھے دار تقریر کی جسے اپوزیشن کے تمام اراکین بصد احترام سنتے رہے۔ اپوزیشن میں بیٹھے کئی چہروں پر صاف لکھا نظر آرہا تھا کہ اسد عمر کی تقریر نے ان پر ”وہ کہے اور سنا کرے کوئی“ والا سحر طاری کردیا ہے۔

طلسماتی کہانیوں میں ”نظر بندی“ کا شکار ہوئے مسحور کرداروں کی طرح اسد عمر کی تقریر کے دوران گم سم بیٹھی اس اپوزیشن سے ”تخت گرانے اور تاج اچھالنے“ کی توقع پالنے کے لئے دماغوں کو رخصت پر بھیجنے کی ضرورت ہے۔ میری بدقسمتی کہ اپنے ذہن کو بہت تھکا دینے کے باوجود میں اسے استعمال کرتے رہنے پر بضد ہوں۔ اس کے استعمال نے منگل کے روز مجھے سمجہادیا ہے کہ موجودہ قومی اسمبلی میں بیٹھی اپوزیشن کے پلے کچھ نہیں رہا۔

اسد عمر نے جادو کی چھڑی گھماتے ہوئے جو خوش کن منظر تشکیل دیا ہے اس کے پیچھے چھپے ممکنہ طورپر تلخ حقائق جاننے کے لئے ہمیں کسی اور جانب دیکھنا ہوگا۔ شاید میڈیا اپنی تمام تر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود اس ضمن میں مجھ جیسے معاشی امور کے بارے میں قطعی نابلد شخص کی کوئی مدد کر پائے۔ شور مگر میڈیا ہی میں اٹھا تو وہ ”تخریب کار“ کہلائے گا۔ ”لفافے“ لے کر پاکستان کے دشمنوں کی جانب سے وطنِ عزیز کے خلاف برپا ففتھ جنریشن وار کا آلہ کار بنا میڈیا۔

تھک ہار کر قومی اسمبلی میں اسد عمر کے سحر سے خاموش بیٹھی اپوزیشن کے مقابلے میں ”خواہ مخواہ ٹیں ٹیں کرتا“ میڈیا بالآخر پاکستان کے بارے میں منفی اور مایوس کن باتیں پھیلانے کا مرتکب گردانا جائے گا۔ فواد چودھری کو اس میڈیا کو اپنی اوقات میں رکھنے کے لئے ”جٹ دا گنڈاسا“ استعمال کرنا ہوگا۔ پنجاب میں علم، دانش اور ثقافت کے فرو غ کے لئے فیاض الحسن چوہان صاحب پہلے ہی سے یہ فرض بخوبی نبھارہے ہیں۔ فواد چودھری کو بھی ان کی دکھائی راہ پر چلنا ہوگا۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).