مغرب کی مذہبی تنگ نظری، تعزیے اور بمبار


دیکھیے میں کوئی مذہبی شخصیت تو ہوں نہیں کہ میرے ایک کالم پر تہلکہ مچ جائے۔ میری سیاست میرے مذہبی افکار کے گرد گھومے۔ سب ٹاک شوز پر میرا طوطی بولے کہ کہیں کوئی بھی بحث ہو میں اپنی مرضی کی تفسیر سے سب کا منہ بند کرا دوں۔ مجھے خود کو معمولی اور ادنی ثابت کرنے کا بھی کوئی خاص شوق نہیں۔ غالب اور ایلیا نے میرا خاصا دماغ خراب کر رکھا ہے۔ مجھے اس بات کا قوی یقین ہے کہ یہ دنیا میرے لئے محض بازیچہ اطفال ہے جہاں تماشا لگا ہی رہتا ہے۔ باوجود اس کے کہ میری گواہی آدھی ہے میں خود کو استہزائیہ ہنسی سے باز نہیں رکھ پاتی۔

جانتی ہوں کہ بات ذرا کنفیوزنگ ہو گئی ہے۔ لیکن کہنے کا مقصد یہ ہے کی خود کو بڑی توپ چیز سمجھنے کے باوجود میں ابھی معرفت کے اس مقام پر نہیں پہنچی جہاں مجھے مذہبی گردانا جائے اور میرا لفظ حرف آخر ہو۔

مجھ جیسے زیادہ تر کنفیوز لوگوں کا مسئلہ یہی ہے کہ ہمیں کوئی بات حتمی نہیں لگتی۔ ہر چیز میں گنجائش نظر آتی ہے۔ شکوک و شبہات کا یہ حال ہوتا ہے کہ اپنی ذاتی کو بھی بری الذمہ نہیں گردانتے۔ بلہیا کی جاناں میں کون! نہ مسیت اچ مومن نہ وچ کفر دی ریت۔ جب اپن اپن کی سمجھ میں ہی نہیں آتا کسی اور کو کیا برا بھلا کہے۔

لیکن ہاں ہمارے ہاں بھی صحیح غلط ہوتا ہے اور ضرور ہوتا ہے۔ بڑے زناٹے سے ہوتا ہے۔ ہمیں مذہبی تفریق اور تفرقے کی سمجھ تو نہیں آتی لیکن اس بات کا بخوبی علم ہے کہ کچھ باتوں پر اگر مگر کرنا انسانی حقوق کے تحت ناقابل قبول ہے۔ فلسطین میں اسرائیل کی ہٹ دھرمی ناجائز ہے۔ فرانس میں حجاب کا حق چھیننا زیادتی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں پر ظلم ناقابل قبول ہے۔ گائے کا گوشت کھانے پر قتل قطعی برداشت نہیں۔ شام کے بچوں کی تصویریں کلیجہ کاٹتی ہیں۔

اصل میں ہمارے ملک کے ترنگے کا ایک حصہ سفید ہے۔ اور ہمارے ہاں مذہبی آزادی کو بہت تکریم دی جاتی ہے۔ قائد کا پاکستان کی تسبیح صبح شام الاپی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں تمام مذاہب کی عبادت گاہیں مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ یہاں سب چین کی بنسی بجاتے ہیں۔ اس لئے ہمیں عادت ہی نہیں کہ کہیں کچھ بھی ایسا سنیں۔ جیسا کہ ہمارے ہاں انسانی حقوق کی بہتات ہے اس لئے ہمارے ہاں ایک وزارت خاص طور پر اسی فراوانی کے لئے مختص کی گئی ہے۔

ابھی چند ہی دن پہلی ہماری وزیر صاحبہ نے مغرب میں مسلمانوں کو مذہبی حقوق نہ ملنے پر گوروں کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا۔ ان کو باور کرایا کہ اگر کسی رول ماڈل کی ضرورت ہے تو ہمیں دیکھو کم بختو۔ ہم سے شام کی ٹیوشن لو۔ عقل ہم ہی سے مستعار لے لو۔ دیکھو ہمارے ہاں سب کتنے چین سے جیے جا رہے ہیں اور مرنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ یہ جو آئے دن لوگ مرتے رہتے ہیں یہ تو آبادی کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ یے۔ یہ لوگ بچے جو پیداکیے جاتے ہیں۔

ہمارے ہاں آو تو تمہیں معلوم ہو کہ سنی مسلمانوں کو کس قدر مذہبی آزادی حاصل ہے۔ آج نو محرم ہے۔ ہم نے جھٹ پورے ملک کے ٹیلیفون سگنل بند کر دیے۔ سمجھ نہیں آتی کہ تعزیہ نکالنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ نقص امن کا باعث کیوں بن رہے ہیں لوگ؟ سب لوگ اچھے سنی مسلمان بن کر کیوں نہیں رہ سکتے۔ امن قائم رکھنے کا بہترین طریقہ ہی یہ ہے کہ سب گھروں میں مقید یو جائیں۔ سمپل۔ خودکش بمبار اور ٹارگٹ کلرز کی روزی بند ہو جائے گی اگر ان پر پابندی لگی۔ آخر کو وہ بھی انسان ہیں۔ ہمارے شہری ہیں۔

سب کو چاہئیے چپ کر کے گھروں میں بند ہو جائیں۔ صرف مغرب سے مذہبی آزادی کا مطالبہ کریں۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہو یہاں مال روڈ بلاک کر دیں۔ لیکن اپنے ہاں تعزیے کو بھی نہ نکلنے دیں۔ یہ نہ سوچیں کہ آخر بمبار بھی انسان ہیں۔
ہائے ری کنفیوژن، تیرا ہی آسرا۔ بلہیا کی جاناں میں کون۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).