ناول؛ بہاؤ از مستنصر حسین تارڑ صاحب


بہاؤ تو ایک بہاؤ ہے ان تمام تہذیبی عناصر جو کہ ہزاروں سال پہلے موجود تھے میں لیا پھرتا ہے۔ وہاں لوگ، رہن سہن، معاشرت، زندگی کا دارومدار (پانی اور کھیت)بستی کا اجڑنا اور اس اجڑنے میں زندگی کی امید، ان سب کو عمدہ بیانیے کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ اس ناول کی تخلیق میں بقول تارڑ صاحب کے 12 سال لگے۔

کسی بھی تخلیق کے لیے تجربہ یا مشاہدہ ایک بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس ناول (بہاؤ) میں تخیل کی کار فرمائی بہت زیادہ ہے جس نے، ایک معدوم ہو چکی تہذیب کو اس طرح ہمارے سامنے لا کھڑا کیا۔

ناول کے آغاز میں ہی ایک سفید رنگ کے پکھیرو کی روداد ہے، ساتھ ہی عجب رنگ و حلیہ لیے ہوئے کردار اور مقام (مامن ماسا، سرسوتی، گھاگرا، پکلی، سمرو) وغیرہ۔ جس سے ناول کے آغاز میں قاری کو اس ناول میں (لیو) کرنے کے لیے کچھ وقت لگتا ہے لیکن جلد ہی ناول قاری کو اپنے بہاؤ میں لے لیتا ہے۔

تارڑ صاحب کو کچھ زیادہ نہیں پڑھا بس ان کا نام سنا ہوا تھا پھر پچھلے ہی برس ان کا آنے ولا سفر نامہ ”حراموش ناقابل فراموش“ پڑھا جس میں کچھ خاص چاشنی نا نظر آئی البتہ کچھ معلومات میں اضافہ ضرور ہوا، لیکن جب ناول (بہاؤ) پڑھا تو یہ ہی سمجھ نا آ سکا کہ اب آہ کی جائے یا واہ کی جائے اتنا عمدہ ناول، اس ناول کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ اس ناول کا اختتام ناکامی یا فنا پر نہیں بلکہ ایک مضبوط علامت زندگی کی امید پر ہوتا ہے۔

بہاؤ کو ایک شاہکار ناول تسلیم کیا جاتا ہے۔ میرے خیال مین یہ وہ ٹرن تھا جس سے تارڑ صاحب نے اپنا نام ایک ناول نگار کے حوالے سے بھی منوایا، ان کا یہ ناول صف اول کے ناولوں میں شمار ہونے لگا۔ اگر اس ناول کو موضوع کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس میں ایک پوری تہذیب کی کہانی ہے جو کہ اب معدوم ہو چکی ہے اس ناول کے مطابق اس کی بنیادی وجہ موسمی حالات اور پانی کے زراعے کا سوکھ جاناہے۔ دریائے سرسوتی جو کہ چولستان میں بہتا تھا بعد میں سوکھ گیا ناول میں اس دریا کا ذکر بھی ملتا ہے۔

مختلف حضرات کی رائے کے مطابق ناول میں جو زبان استعمال کی گئی ہے اس میں پنجابی سرائیکی وغیرہ جیسی زبانوں کے الفاط بھی استعمال ہوئے ہیں۔ سہ ماہی استعارہ کو دیے گیے اپنے انٹرویو میں تارڑصاحب نے اس بات کو بیان کیا کہ یہ ناول جس کے ناموں کی فہرست علی عباس جلالپوری نے بنا کر دی اور اس کے ساتھ عین الحق فرید کوٹی کی مدد بھی شامل ہے۔

”جو گلاسری تھی علی عباس جلالپوری نے بنا کر دی، کیونکہ لوگ کہتے کہ بہاؤ میں پنجابی بہت ہے، لیکن بیشتر جو پنجابی ہے وہ دراوڑی کے حوالے سے ہے۔ شاہ صاحب نے ان لفظوں کی گلاسری اس لیے بنا کر دی ان کا ماخد دراوڑی زبان سے ہے ” (1)

ناول میں بہت سے بنیادی کردار اور کچھ زیلی کردار بھی ہیں، جن میں سب سے اہم کردار پاروشنی کا ہے اس کے علاوہ چیوا، ماتی، سمرو، ورچن، مامن ماسا، پکلی، مندرا، ماتی، کومی، گجرو، دھروا، جبو، سکھی، بوٹا، جھوریا وغیرہ شامل ہیں۔ ہر کردار اپنے الگ انداز اور اپنی مخصوص نمائندگی کرتا نظرآتا ہے۔ جس طرح ورچن کے کردار کے اندر ایک سیاح موجود ہے جو اسے ایک جگہ سکون سے بیٹھنے نہیں دیتا ہے، اس طرح ماسا کے اندر درویش کی سی علامتیں موجود ہیں، پکلی ایک ظروف ساز، سمرو ایک کسان، پاروشنی ایک دانش ور وغیرہ۔ ورچن سفر کرنا چاہتا ہے اور اس کی ایک وجہ ان بڑی ناک والوں (آریاء)کو دیکھنا بھی چاہتا ہے جو اونچائی والے علاقوں سے آتے ہیں، ان (دراوڑین) پر حملہ کرتے ہیں اور آگے کو دھکیتے ہیں۔ دوسری بڑی بستی میں پہنچ کر وہ پورن کو دیکھتا ہے اور ان کی دوستی ہو جاتی ہے۔ پورن اس کو ویدوں میں ذکر کی گئی شاندار ندی کے بارے میں بتاتا ہے جبکہ ورچن اس کو کہتا ہے کہ وہ بس صرف ندی ہی ہے۔ جو کہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پانی کب سے کمی کے سلسلے سے گزر رہا تھا جو کہ آخر کار بالکل معدوم ہوگیا۔

پاروشنی جو کہ ناول کا مرکزی کردار بھی ہے اور اس کو بہترین نسوانی کردار کہا جا سکتا ہے، پاروشنی کے ذہن میں زندگی کے حوالے سے ایک سوال ہوتا ہے جس کا اظہار وہ ورچن سے بھی کرتی ہے۔

”۔ جب یہ رکھ نا تھے اور تب تک جب یہ رکھ نا ہوں گے۔ تب تک ہم ایسے ہی کیوں چلے جاتے ہیں۔ اناج کے لیے۔ اپنے بیج کو آگے بڑھانے کے لیے۔ اسی طرح حیاتی کیوں گزارتے ہیں“ (2)

ورچن واپس آتا ہے اور پاروشنی کے ساتھ رات گزارتا ہے، ورچن بھانپ لیتا ہے کہ پاروشنی کے اندر کوئی اور بھی ہے۔ پاروشنی ورچن اور سمرو میں کوئی فرق نہیں کر پاتی اور نا ہی موازنہ، آخر میں جب سب بستی والے چلے جاتے ہیں تو اکیلا لاغر حالت میں سمرو رہ جاتا ہے اور پاروشنی کی حالت بھی نہایت نحیف ہوتی ہے اور پاروشنی سمرو کو اپنا مان لیتی ہے۔
”اور سمرو۔ وہ بھی ورچن تھا۔ اور ورچن سمرو تھا۔ دونوں کے ناموں سے وہ گیلی ہوتی تھی“ (3)

پاروشنی کے پیٹ میں جب بیج ہوتا ہے تو اس کو نہیں معلوم ہوتا کہ یہ کس (ورچن یا سمرو )کا ہے، ساتھ ہی ورچن اور سمرو دونوں کو انتظار ہوتا ہے کہ اس کہ نین نقش کس پر جاتے ہیں تا کہ یہ فیصلہ ہو سکے کہ یہ کس کا ہے۔ پاروشنی اس کو جننے کے لیے دریا پار چلی جاتی ہے تا کہ اکیلے اس تکلیف سے گزر سکے لیکن جب وہ اس دنیا میں آتا ہے تو پاروشنی کو اس کے رونے کی کوئی آواز سنائی نہیں دیتی ہے، جس کے بعد سے پاروشنی کے اندر ایک الگ ڈر بن جاتا ہے۔

بستی کے لوگ بیج بوتے اور بارش اور دریائی پانی کی مدد سے کاشت کاری کر کے گزر بسر کرتے، بستی میں مشروط نظام تھا بستی میں ہر فرد کے ذمے کوئی نا کوئی کام ضرور تھا جس طرح پاروشنی پینے کا پانی مہیا کیا کرتی تھی۔

”۔ جہاں جہاں ندیاں ہیں وہاں ہم جیسے لوگ رہتے ہیں جو زمین کھود کربیج ڈالتے ہیں اور پانی کی اڈیک میں بیٹھے رہتے ہیں اور ساری حیاتی یہی کرتے ہیں۔ سارا پانی کا کھیل ہے۔ مہا میا بھی پانی بنا ہری نہیں ہوتی“ (4)

دوسری طرف ناول کے حوالے سے اس بات کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ دراوڑین میں زیادہ تر کام خواتین کے ہی تھی اور وہ ہی معاشرے کی نمائندہ تھیں مرد کے لیے بس چند ہی کام تھے۔
”مرد ذات کا کیا ہے، چھوٹے اور نیچ کام کرنایا بیج ڈالنا بس“ (5)

ناول میں بہت سی علامتیں بھی موجود ہیں جیسا کہ مور کے بولنے کی آواز، پکھیرو، مامن ماسا۔ پکلی کے آوے کا دھواں وغیرہ۔ ڈوروگا جو کہ ایک بوڑھے کی شکل میں نظر آتا ہے اور برسوں سے زندہ ہے جھکی کمر کے ساتھ ایک بند جگہ پر رہتے ہوئے جب وہ وہاں سے باہر نکل آتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ اس کا جنم ابھی ہوا ہے میرے خیال میں یہ ڈوروگا اس طبقے کی طرف اشارہ ہے جن کوآریاء نے غلام بنا لیا۔ ڈوروگا موہنجو کی بستی چھوڑ کر ورچن کے ساتھ اس کی بستی آجاتا ہے اور یہاں اپنے ہاتھ سے پکی اینٹیں سے گھر بنا کر گھر میں رہتا ہے۔

”میں ان سب کی طرف سے آیا ہوں جو کبھی تمھاری چار دیواری میں تھے، جھکے ہوئے لوگوں کی طرف جو تمھارے لیے اینٹیں ڈھوتے تھے، جس سے موہنجو کے کنک گودام، حویلیاں، تالاب، اور کنوئیں بنتے تھے۔ کسی نے آج تک یہ نہ پوچھا کہ ان اینٹوں کو بناتا کون تھا اور پکاتا کون تھا۔ “ (6)

وادئی سندھ کی تہذیب جس کے اندر رہتے ہوئے اس ناول میں موجود بستیوں کو بیاں کیا گیا ہے اور اس ناول کو وادی سندھ کے اجڑنے اور ایک بار پھر سے آباد ہونے کی کہانی بھی کہا جاتا ہے لیکن تارڑ صاحب اس بارے میں کچھ اور کہتے ہیں۔

”بہاؤپر اس لیے بہت زیادہ تحقیق کی میں نے، ایک تو (انڈس سیویلائیزیشن ) کے متعلق جو کچھ تھا پڑھ لیا (اس تہذیب کو انڈس سیویلائیزیشن نہیں کہا جا سکتا) یہ پاکستان کے بعد رائج ہو گیا (یہ پڑپہ کی تہذیب ہے )تمام علاقہ ادھر سے مہر گڑھ اور موین جوڈرو یہ سب ہڑپن تہذیب کہلاتی تھی“ (7)

پانی ختم ہونے کے باعث بستی کے لوگ اہنے بستی چھوڑ کر جا رہے تھے اس کے علاوہ آخر وہ کر بھی کیا سکتے تھے لیکن پاروشنی وہیں رہتی ہے اور آدھی مٹھی سے بھی کم خوراک کو کوٹ رہی ہوتی ہے
”۔ اب اونچے خالی کنارے تھے اور ان میں پانی کی بجائے ء دھم دھم کی آواز ٹھہرتی تھی اور تیرتی تھی۔ “ (8)۔ ۔ ۔ ۔

حوالہ جات
1) سہ ماہی استعارہ، مدیران:ڈاکٹر امجد طفیل، ریاظ احمد، شمارہ:اپریل 2018ءتا جون 2018ء، مستنصر حسین تارڑ سے ایک ملاقات، پینل:ڈاکٹر امجد طفیل، ریاظ احمد، عقیل اختر، ص24
2) مجموعہ مستنصر حسین تارڑ، مستنصر حسین تارڑ، بہاؤ، سنگ میل پبلیکیشنز لاہور، 2008ء، ص123
3) ایضاً، ص89
4)ایضاً، ص43
5) ایضاً، ص20
6) ایضاً، ص107
7) سہ ماہی استعارہ، مدیران:ڈاکٹر امجد طفیل، ریاظ احمد، شمارہ:اپریل 2018ءتا جون 2018ء، مستنصر حسین تارڑ سے ایک ملاقات، پینل:ڈاکٹر امجد طفیل، ریاظ احمد، عقیل اختر، ص23
8) مجموعہ مستنصر حسین تارڑ، مستنصر حسین تارڑ، بہاؤ، سنگ میل پبلیکیشنز لاہور، 2008ء، ص224


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).