خون کا ماتم جگر لے گیا


بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی
تمھارے نام پہ آئیں گے غم گسار چلے

ایسا لگتا ہے کہ فیض نے یہ شعر کربلا والوں کے نام کہا تھا۔ ادھر کسی نے حسین کا نام لیا، ادھر عزادار جمع ہونے لگے۔ گریہ و ماتم شروع ہوگیا۔ کراچی میں بہت سی ماتمی انجمنیں ہیں، ہر شہر میں ہوتی ہیں، جنھیں لوگ مجالس اور جلوس میں بلاتے ہیں۔ ان میں ایک یا کئی نوحہ خواں ہوتے ہیں جنھیں صاحب بیاض کہا جاتا ہے۔ بیاض کا مطلب ہوتا ہے وہ نوٹ بک جس میں شاعری لکھی جائے۔ انجمن کی بیاض میں نوحے لکھے جاتے ہیں۔

میں آٹھ دس سال تک انچولی کی انجمن فدائے اہلبیت کا سرگرم رکن رہا ہوں۔ میرا لڑکپن کا دور تھا۔ جوش اور جذبات زیادہ تھے۔ ہر شے کو جاننے کی خواہش تھی۔ انجمن بازی میں بہت کشش محسوس ہوتی تھی۔

عام طور پر انجمنیں اپنے نوحہ خواں سے پہچانی جاتی ہیں۔ سچے بھائی ذوالفقار حیدری، ناظم صاحب تبلیغ امامیہ، ندیم سرور گلزار حیدری اور علی ضیا رضوی غم خواران عباس کی پہچان تھے۔ فدائے اہلبیت کے صاحب بیاض قمر بھائی ایک ہنس مکھ سادہ مزاج نوجوان تھے۔ انیس پہرسری، ریحان اعظمی، محشر لکھنوی اور احمد نوید جیسے شاعروں نے انھیں بہت اچھے نوحے دیے لیکن وہ سیلی برٹی بن کر نہ دیے۔

انچولی میں تیس پینتیس سال پہلے بھی کافی ماتمی انجمنیں تھیں، کئی کے نوحہ خوانوں کی اپنی فالووئنگ تھی لیکن فدائے اہلبیت سے زیادہ رکن کسی کے نہیں تھے۔ تب جمعہ کو عام تعطیل ہوتی تھی۔ محرم کی ہر جمعرات کو متعدد مقامات پر مجالس اور شب بیداری ہوتی تھی۔ عام انجمنوں کی ایک بس نہیں بھرتی تھی۔ فدائے اہلبیت کو کبھی کبھی دو بسوں کا انتظام کرنا پڑتا۔

نوے کی دہائی کے وسط میں کراچی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم رہا۔ لسانی اور مذہبی، دونوں طرح کا تشدد ہوا اور مسجدوں، امام بارگاہوں کے علاوہ انجمنوں کی بسوں پر بھی فائرنگ ہوئی۔
نئی نئی دہشت گردی تھی اس لیے لوگ خوف زدہ تھے۔ مجالس میں حاضری کم ہوگئی۔ شب بیداری کے پروگرام اگر کم نہیں ہوئے تو جلد نمٹائے جانے لگے۔ حساس علاقوں میں عزاداری میں باہر سے آنے والوں کی شرکت گھٹ گئی۔ ماتمی کارکن محتاط ہوگئے۔

مجھے 1994 کا محرم یاد ہے جب دو بسیں بھر کے نکلنے والی انجمن فدائے اہلبیت کے لڑکے تین چار کاریں نہیں بھر سکے۔ میں نے اس سال ایک بھی پروگرام نہیں چھوڑا لیکن میرا دل نہیں چاہتا کہ خوف کے ان دنوں کا تذکرہ لکھوں۔
اسی سال میں نے گریجویشن کیا اور ملازمت کا آغاز کردیا۔ عزاداری بھی شام کو ہوتی ہے اور صحافت بھی۔ میرے معمولات بدلتے گئے اور خیالات میں تبدیلی آتی گئی۔ ایک وقت آیا کہ محرم کی مجالس سے بھی دور ہوگیا۔
لیکن سال میں ایک رات ایسی ہوتی تھی جب میں دفتر سے چھٹی کرتا تھا یا جلدی نکل بھاگتا تھا۔ شب عاشور کو انچولی میں مرکزی جلوس برآمد ہوتا ہے۔ مجلس ختم ہوتے ہی سب سے آگے فدائے اہلبیت کا دستہ لگتا ہے۔ میں ہر سال وہاں ضرور پہنچتا تھا۔

میں نے کئی ملکوں کا محرم کیا ہے۔ کربلا بھی جاچکا ہوں۔ لیکن انچولی کی عزاداری سب سے منفرد ہے۔ پورا محلہ ایک رنگ میں دکھائی دیتا ہے۔ قدیم لکھنؤ سمجھ لیجیے۔ یا الف لیلہ کا بغداد ذہن میں لایئے۔ ہر گلی میں عزاخانہ سجا ہوا ملے گا۔ ہر دوسرے گھر سے علم برآمد ہوتا نظر آئے گا۔ ہر فرلانگ پر کسی نئے مشروب کی سبیل لگی ہوگی۔ جگہ جگہ تبرک تقسیم کیا جارہا ہوگا۔

انچولی کے جلوس میں کئی عشروں سے زنجیر لگ رہی ہے۔ احمد نوید کے نوحے ”کربلا یوں بسائی جاتی ہے!‘‘ کے ساتھ زنجیروں کی جھنکار دل پر عجیب تاثر چھوڑتی ہے۔ پندرہ سترہ سال پہلے قمہ کا ماتم شروع ہوا۔ میں نے شام میں لبنانیوں کو یہ ماتم کرتے دیکھا ہے۔ وہ تلوار اٹھاکر سر پر مار لیتے ہیں۔ میں قریب سے وہ ماتم دیکھ کر بے ہوش ہوتے ہوتے بچا تھا۔ پاکستان میں بیشتر لوگ رسان سے سر کی کھال پر کٹ لگاتے ہیں۔ خون نکل آتا ہے۔ اس پر ہاتھ سے ماتم کرتے رہتے ہیں۔

انچولی میں ایک دوست تقی سے قربت تھی۔ محلہ بھی ایک، اسکول بھی۔ نہ وہ کبھی زنجیر کا ماتم کرتا تھا، نہ میں۔ ایک سال اس نے کہا کہ عاشور کے دن خون کا ماتم کرتے ہیں۔ ہم دونوں نے زنجیریں حاصل کیں اور انھیں دھار لگوائی۔ میرا ارادہ بدل گیا اور کسی نے زنجیر مانگی تو دے دی۔ تقی نے ارادہ نہیں بدلا اور اس نے ماتم کیا۔ ایک سال چھوٹے پھل کی زنجیر سے کیا۔ اگلے سال بڑے پھل کی زنجیر سے کیا۔ اس سے اگلے سال اور بڑے پھل کی زنجیر سے کیا۔

شادی کے بعد تقی ادھر ادھر ملازمت کرتا رہا اور روزگار کے پیچھے لاہور چلا گیا۔ وہاں محرم آیا تو اس نے کسی جلوس میں خون کا ماتم کیا۔ زنجیر کا ایک پھل اس کے جسم میں گھس کر پھنس گیا۔ بہت خون نکلا۔ لوگ اسے اسپتال لے گئے لیکن وہ بچ نہیں سکا۔ اب زنجیروں کی جھنکار سنتا ہوں تو دوست کا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi