عورتیں اب بے شرمی سے اپنی فطری خواہش کا اظہار کیوں کرنے لگی ہیں


یہ فحش کہانی ہمیں قبول نہیں۔۔۔ یہ کیا لکھ دیا آپ نے جناب؟ بھئی یہ سب ان عورتوں کے ڈرامے ہیں۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ جب اور کوئی بات نہ ملی تو بہانہ یہ بنایا کہ تم مجھے خوش نہیں رکھتے۔۔۔ آوارہ عورتیں آج کل یہی بہانہ بنا رہی ہیں اپنی آوارگی کا۔۔۔ کوئی نیا یار بنا لیا ہوگا۔۔۔ ان عورتوں کو اور دو آزادی۔۔۔ شوہر کافی نہیں پڑتا ان کو۔۔۔ عیش پورے نہیں ہوتے ان کے۔۔۔ خراب عورتیں ہیں یہ۔۔۔ ایک وہ زمانہ تھا جب ماں باپ نے جس کھونٹے سے باندھ دیا ساری عمر وہیں گزار دی۔۔۔ کبھی ایسی بے شرمی کی بات منہ سے نہ نکالی۔۔۔ اف خدایا کیا زمانہ آگیا ہے۔۔۔ بھلا عورت بھی اس چیز کا تقاضا کر سکتی ہے کیا؟ بے شرم عورتیں۔۔۔ نافرمان عورتیں۔۔۔ آوارہ عورتیں۔

یہ الفاظ کوئی 500 سال پرانے نہیں ہیں یہ آج کل کی باتیں ہیں یہ وہی الفاظ ہیں جو آپ اور ہم سب روز سنتے ہیں۔ اور اب سمجھنے بھی لگے ہیں مگر افسوس کہ ماننے کو تیار نہیں اور مان بھی لیں تو سرعام اقرار کرنا ہماری مردانگی کی توہین ہے۔ کچھ عرصہ قبل میں نے ڈاکٹر خالد سہیل کا افسانہ ”دو کشتیوں میں سوار“ پڑھا اور اب تک کئی بار پڑھا اور ہر بار محسوس کیا کہ کیا واقعی یہ سچ ہے کیا یہ ایک مرد کی تحریر ہے؟ کہانی میں بہت سے موڑ ایسے تھے جہاں تھم جانے کو دل کیا اور آہستہ سے ایک پر امید مسکراہٹ نے حیرت کی جگہ لے لی.

ہمارے معاشرے میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو اس قدآور آئینے میں دیکھنے کے لیے تیار ہیں؟ شاید یہ تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے اور کریں بھی تو کیسے؟ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہاں اس موضوع پر لکھنا یا بات کرنا ایک نہایت قابل شرم فعل ہے۔ اور پھر اگر بات عورت کی ہو اور لکھنے والا ایک عورت کے احساسات کی ترجمانی کر رہا ہو تو پھر تو قطعاً شجر ممنوعہ ثابت ہوا۔ کیونکہ اس عمل کے تمام تقاضے اور اطمینان و سکون کی سب منزلیں صرف مرد کی ہی ہیں۔ تو عورت کون ہوتی ہے کوئی تقاضا کرنے والی؟

ہاں عورت کا حصہ اس میں اتنا ہی ہے کے وہ اس عمل میں ساتھی ہے یا پھر کوئی آلہ استعمال بلکہ ساتھی کی اصطلاح اضافی ہے بس ”آلہ استعمال بوجہ کمزوری“ کی اصطلاح زیادہ مناسب ہے اور اس کے عوض اسے روٹی کپڑا مکان اور سب سے بڑھ کر ” نام“ جو مل رہا ہے اور کیا چاہئیے۔۔۔ یہ سب کافی نہیں ہے کیا؟

عورت کو صدیاں لگ گئیں یہ جاننے میں کہ وہ بھی ایک انسان ہے۔۔۔ اس کی بھی وہی ضروریات ہیں جو مرد کی ہے۔ بھوک پیاس لباس چھت کے علاوہ ایک اور بھی کوئی ایسی ضرورت ہے جس پر صرف مرد کا ہی حق نہیں ہے۔ وہ عورت کے لیے بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کے مرد کی لیے

اس حقیقت کو مرد، عورت سے بہت پہلے سے جان چکا تھا۔ اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ عورت جو کہ اس کی نسبت بہت مضبوط اعصاب اور جذبات کی مالک ہے اگر ایک مرتبہ یہ جان گئی کہ وہ کیا ہے؟ وہ کس چیز سے محروم ہے؟ اور اس کی کیا معراج ہے؟ خدا نے کیسے اس کے انگ انگ کو تراشا ہے اور ہر تراش میں کس قدرحساسیت پھونکی ہے۔ تو اسے سمبھالنا میرے(مرد) لیے محال ہو جاتے گا۔ میں تو سمندر کی وہ پْرجوش لہر ہوں جو کسی شیر کی طرح دھاڑتی ہوئی آتی ہے اور چند لمحوں میں سب کچھ مسمار کرتی ہوئی ڈھل جاتی ہے۔ وہ لہر یہ نہیں جانتی کہ وہ پنچھی جو اپنی چونچ کھولے محبت الفت اور اپنایت کے جل سے سیرابی کا منتظر تھا کس قدر قحط زدہ ہے۔ لہٰذا مرد نے بہت ہوشیاری سے عورت کو شرم، حیا، مشرقی اقدار اور روایتوں کا ایک ایسا شکنجہ پہنایا جو عورت نے کسی گہنے کی طرح زیب تن کیا۔ پھر ان گہنوں کی خوبیوں سے اسے آراستہ کیا گیا اور بس کام بن گیا۔ عورت نے سمجھا کہ اس کی ضرورت بس یہی گہنے ہیں۔ جو اس کے وجود کی تکمیل کے لیے کافی ہیں۔

مگر پھر کچھ عورتوں نے اپنے وجود کی کھوج شروع کی تو انہیں بہت حیرانی ہوئی کہ وہ تو گہنوں کے ساتھ کچھ کمی محسوس کرتیں ہیں۔۔۔ وہ گہنے اتارنا نہیں چاہتیں مگر وہ خوش رہنا بھی چاہتی ہیں۔ وہ بھی انسانیت کے ان فطری تقاضوں کو حاصل کرنے کی اتنی ہی مستحق ہیں جتنا کہ اس کا ساتھی۔۔۔ کیوں اپنے ساتھی کی طرح وہ گہری نیند حاصل کرنے سے محروم ہے؟ وہ کیوں اپنی خواہش کا اظہار کرنے سے محروم ہے؟ اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے بعد بھی وہ اطمینان وہ سکوں کیوں نہیں پا سکتی جو اس کا ساتھی روز لیتا ہے۔

اس حققیت کا ادراک تو اس پر ہو گیا مگر اب ایک عجیب نفسیاتی کشمکش کا آغاز ہوا۔ اسے اپنے ساتھی کو یہ بتانا تھا کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ مگر اس میں کئی رکاوٹیں حائل تھیں کہیں اس کے گہنے رکاوٹ تھے جنھیں اس کے ماں باپ اور معاشرے نے پیدا ہوتے ساتھ پہنایا تھا اور کہیں اس کے ساتھی کا بلند اور بہتر ہونے کا احساس جو اس کی نس نس میں پھونک دیا گیا تھا۔۔۔ خیر بہت ہمت کر کے آج کی عورت نے ان تمام دیواروں کو پھلانگا اور اپنے ساتھی کو اپنے فطری حق سے آگاہ کیا۔۔۔ ردعمل کہیں تو بہت برا ملا اور اسے بےشرم، بےحیا اور نہ جانے کیا کیا کہا گیا مگر ساتھ ہی آگاہی کی ایک لہر نے جنم لیا۔۔۔

مرد نے جانا کہ وہ کچھ مطلب پرستی کا شکار ہے اور اس نے اپنی اس کمی کو پورا کرنے کا سوچا۔۔۔ مگر کیسے؟ وہ تو وہی کرنا جانتا تھا جو وہ صدیوں سے کرتا آرہا تھا۔۔۔ اب اسے عورت سے بات کرنے کی ضرورت تھی۔۔۔ مگر یہ شان مردانگی کی خلاف تھا۔۔۔ لہذا حل یہ نکلا گیا کہ عورت کو اس کے نہ مکمل ہونے، کمتر ہونے اور بہت سے دیگر کمیوں کا احساس دلایا جاتے تاکہ نہایت خوش اسلوبی سے اصل معاملے سے بچا جا سکے۔۔۔ اور یہ یونہی چلتا رہے تاکہ مردانگی پر آنچ نہ آ سکے۔

مگر کچھ حقیقتاً کشادہ ذہنوں نے اس حقیقت کا ادراک کیا اور یہ مانا کہ عورت ایک حساس دل رکھنے والی مخلوق ہے۔ وہ صدیوں سے اپنی خواھش میری رضا پر قربان ہی نہیں کر رہی بلکہ مجھے یہ احساس دلاتی رہی ہے کہ میں ایک مکمل مرد ہوں۔۔۔ ہاں میں واقعی صرف مرد ہوں۔۔۔ کاش میں انسان ہوتا۔۔۔

میں یہ جانتا کہ میں کس قدر اپنی خواہش کا تابح ہوں اور یہ جاننے سے قاصر ہوں کہ یہ عورت ایک انسان ہے۔۔۔ جو بدقسمتی سے مجھ سے زیادہ حساس ہے۔ اسے میری ضرورت مجھ سے زیادہ ہے مگر میری طرح صرف چند لمحات کے لیے نہیں بلکہ اس سے بہت پہلے اور بہت بعد تک۔

ہاں ”بہت بعد تک” میں مرد یہ جان ہی نہیں سکا۔۔۔ وہ بھوکی ہے میری محبت کی۔ جب میں اپنا فریضہ زوجیت ادا کرنے کے بعد کروٹ بدل کر مطمئن سو جاتا ہوں تو وہ گھنٹوں اپنی آگ میں جلتی ہے۔۔۔ وہ اپنی تضحیک پر اور اپنے وجود پر شرم محسوس کرنے لگتی ہے۔۔۔ وہ آنسو بہاتی ہے مگر سمجھ نہیں پاتی کی وہ کیوں رو رہی ہے

میں مرد ہوں میں سمجھ گیا ہوں تم کیا چاہتی ہو۔۔۔ تم چاہتی ہو محبت کے بعد کی محبت۔۔۔ تم چاہتی ہو لمس جو محبت کے جام سے لبریز ہو مگر تم اسے صرف پینا نہیں چاہتیں بلکہ اس میں ڈوبنا چاہتی ہو، اس میں دیر تک جینا چاہتی ہو۔۔۔ میں جان گیا ہوں تم کیا چاہتی ہو۔۔۔ میں تم سے عشق کرنے کا دعویٰ تو کر بیٹھا مگر یہ نہیں جان سکا کہ تم عشق کی دیوی ہو جو پوجا تو چاہتی ہے مگر ٹکریں نہیں۔۔۔ یہ فرض عبادت کے دو سجدے نہیں ہیں۔۔۔ میں جان گیا ہوں۔
کاش کہ ہر مرد یہ جان جائے، تو اس کی دیوی خود اس کی پوجا کرے۔

دو کشتیوں میں سوار


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).