اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ اور اینکروں کی عدالت


نواز شریف کی قسمت اچھی تھی جو ٹی وی کے مشہور اینکرز اور تجزیہ کار بذاتِ خود اسلام آباد ہائی کورٹ کی معزز عدالت کے جج صاحبان کے عہدے پر تعینات نہیں تھے اور نہ ہی نیب کے چیرمین یا ڈپٹی چیرمین تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک بینچ کے معزز ججوں نے نواز شریف کے خلاف سزا معطل کر کے اُن کی رہائی کا حکم دیا ہے۔ یہی حکم انہوں نے اُن کی بیٹی مریم نواز شریف اور اُن کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے بارے میں بھی صادر فرمایا ہے۔ اس حکم کے مندرجات اور اُس کے قانونی پہلوؤں کے بارے میں تو کوئی اہلِ علم ہی بتا سکتا ہے مگر ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ کچھ پرائیویٹ ٹی وی چینلز کے اینکرز اور تجزیہ کار اس صورت حال سے مطمئن نہیں ہیں۔

ان میں سے چند تو سکتے کے عالم میں ہیں اور باقی اس امید پر زندہ ہیں کہ بہت جلد کوئی اور فیصلہ آئے گا جو اس فیصلہ کا اثر بھی بہا کر لے جائے گا اور میاں صاحب اور اُن کے عزیز دوبارہ اڈیالہ جیل میں ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ سمجھتے ہوں کہ اڈیالہ جیل میاں صاحب کے بغیر سونی سونی لگتی ہے بلکہ ہمارے ان دانشوروں کی پریشانی کی وجہ جو ہمیں سمجھ آ سکی ہے وہ یہ ہے کہ نیب اور اس کے زعماء نہ صرف نالائق نکلے ہیں بلکہ حقیقی ثبوتوں سے نابلد بھی ہیں۔ وہ ایسے ثبوت اور دلائل عدالت کے سامنے پیش نہیں کر سکے کہ اس قسم کی صورتِ حال سے بچا جا سکتا۔

چونکہ یہ حضرات یعنی مزکورہ اینکرز اور تجزیہ کار، عالمی رینکنگ رکھنے والے دانشور اور مکمل طور پر پیشہ ورانہ کنڈکٹ پر یقین رکھتے ہیں اس لئے اُن کے تبصرے کسی خاص پارٹی یا سیاسی شخصیت کے لئے ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر نہیں ہوتے بلکہ حقیقی پیشہ ورانہ بنیادوں پر ہوتے ہیں، چاہے ان تبصروں کا شکار مسلسل میاں صاحب اور اُن کی جماعت ہی ہے۔ اُنہوں نے ہر طرح سے مکمل تحقیق کے بعد یہ تسلی کر رکھی ہے کہ نواز شریف نے اپنے دورِ اقتدار میں اس ملک کو لوٹا ہے۔

اس بات کا یقین اُن کو محض ہوا میں نہیں ہے بلکہ اُن کے پاس اس کے ثبوت ہیں جو وہ اکثر اپنے ٹی وی ٹاک شوز میں لہرا کر دکھاتے ہیں اور آج تک چیلینج نہیںکیے جا سکے۔ کسی اور کو اس کی خبر ہو یا نہ ہو، انہیں اس بات کا ادراک ہے کہ ملکِ عزیز کے خزانے کس نے لوٹے ہیں اور کتنے؟ اور ظاہر ہے کہ اُن کے مجرم میاں صاحب ہی ہیں۔ حتٰی کہ میاں صاحب اُن کے بچوں کا دودھ تک پی گئے ہیں اگرچہ یہ ایک غیر شائستہ الزام سمجھا جاتا ہے کہ میاں صاحب سے ایسی توقع نہیں ہے اور یہ واحد الزام ہے کہ جس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے مگر اُن کا کہنا بھی ثبوت سے کمتر درجہ نہیں رکھتا۔

پاکستان کے آئین اور قانون میں اس بات کی گنجائش موجود نہیں ہے کہ کوئی کیس اینکرز سن لیں اور اس پر فیصلہ صادر فرما دیں اور وہ فیصلہ سیاستدانوں پر لاگو بھی ہو سکے۔ میری ناقص رائے میں ہماری مقننہ کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا بڑے بڑے سیاسی مقدمات بدستور عدلیہ ہی کو سننے چاہئیں یا چند مخصوص اینکرز اور تجزیہ کاروں کے پینل بنا کر اُن کو فیصلہ کرنے کے اختیارات سونپ دینے چاہئیں؟ چونکہ ان اینکرز کی دیانتداری، حُب الوطنی، غیر جانبداری اور لالچ سے مبرا ہونا شک و شبہ سے بالا تر ہے لہٰذا قوم کو ان کے فیصلوں پر اعتماد بھی ہو گا۔

اس کے لئے کسی اضافی اخراجات کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ اس طرح کے پینل پہلے ہی پرائیوٹ ٹی وی چینلز پر کام کر رہے ہیں اور باقاعدہ ثبوتوں کے پلندوں اور غیر متزلزل استدلال کے ساتھ ہی بات ہوتی ہے۔ اس طرح فیصلے کرنے سے پہلے کسی تفتیش کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ ہمارے مزکورہ صحافی حضرات پوری تحقیق اور مکمل تشفیکیے بغیر کوئی الزام اپنے پروگرام میں زیرِ بحث لاتے ہی نہیں۔ اور فیصلے بھی نہائت ہی سُرعت کے ساتھ محض ایک دو دن میں ہو جائیں گے اورقوم انصاف برپا ہوتے ہوئے دیکھ بھی لے گی۔

البتہ ایسی قانون سازی کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ ایسے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق بھی نہیں ہونا چاہیے اور کسی وکیل وغیرہ کی بھی ضرورت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اینکرز اور تجزیہ کاروں کے فیصلے تو ہوتے ہی غیر جانبدارانہ ہیں۔ اور اپیل کا حق دینا ان کی اہلیت اور دیانتداری پر شک کرنے کے مترادف ہو گا۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ چند ایک مثالیں موجود ہیں کہ اُن کے پیش کردہ ثبوت اور استدلال جب عدالتوں میں پہنچے تو انہیں نہ صرف جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ کئی پیشیاں بھی بھگتنا پڑیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).