حضرتِ امام نے یزید کی بیعت کیوں نہیں کی؟


حضرت امام حسینؑ نے مثال ثابت قدمی دکھائی، آپ کو ڈرایا دھمکایا گیا، آپ اور آپ کے ساتھیوں کو کئی دنوں تک بھوکا پیاسا رکھا گیا حتیٰ کہ آپ اور آپ کے تقریباً تمام تر خاندان اور ساتھیوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا۔

مگر آپ نے باطل کے ساتھ کسی مداہنت سے کام لیا اور نہ یزید کی بیعت کے لیے راضی ہوئے۔

سوال یہ ہے کہ یہ سب مشکلات، تکالیف اور قربانی انہوں نے کس مقصد کے لیے انگیز کیے؟ کیا آپ تھوڑی مداہنت، نرمی اورسمجھوتہ کرلیتے تو اچھا نہ ہوتا؟

یہ خیال عموماً لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے۔ آئیے اس پر بات کرتے ہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حضرتِ امام اپنی خلافت قائم کرنا چاہتے تھے اس لیے یزیدی فوج سے جا ٹھکرائے۔

یہ درست ہے کہ انہیں کوفہ اور دیگر علاقوں سے بلاوے آئے تھے کہ آپ آئیں تاکہ آپ کو خلیفہ منتخب کیا جاسکے۔ انہیں وسیع عوامی حمایت کا وعدہ کیا گیا۔ بزرگوں نے آپ کوسمجھایا بھی کہ یہ دھوکہ لگتا ہےمگر آپ نے جانے کا قصد کر لیا تو خاندان کے اکثر مرد و خواتین بچوں سمیت آپ کے ساتھ عازمِ سفر ہوگئے۔

تاہم حکومت سے لڑنا آپ کے پیِشِ نظر ہوتا تو آپ مناسب جنگی تیاری کرکے جاتے اور عورتوں اور بچوں کو ساتھ ہی نہ لے جاتے۔

وہاں پہنچنے پر جب حضرتِ امام کو پتہ چلا کہ حکومت کے ظلم و ستم کے خوف یا لالچ دیے جانے کے باعث لوگ آپ کا ساتھ دینے سے پہلوتہی کر رہے ہیں تو آپ نے واپسی کا ارادہ کیا۔ تاہم آپ کو واپس آنے کی اجازت کو اس بات سے مشروط کیا گیا کہ آپ یزید کی بیعت کر لیں۔ آپ مگر ایسا کرنے میں متامل تھے۔ آپ نے مذاکرات کاروں کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ میرا حکومت سے لڑنے یا حکومت حاصل کرنے یا آئندہ بغاوت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں مگر وہ نہ مانے۔

کہا جاتا ہے یزید کا خود امام اور ان کے ساتھیوں کو قتل کرنے کا ارادہ نہیں تھا مگر ان کے سپہ سالار خود کو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے اس لیے انہوں نے صلح کی کوششیں ناکام بنالیں اور با الآخر امام کا سر تن سے جدا اور ان کے ساتھیوں کو خون میں نہلا دیا۔ جب یزید کو امام کا سر پیش کیا گیا تو کہا جاتا ہے انہوں نے آپ کے قتل پر دکھ کا اظہار کیا۔

لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ یزید نے امام اوران کے ساتھیوں کے قتل عام میں ملوث اپنے کسی عامل کے خلاف کوئی کارراوئی کی نہ انہیں کوئی سزا دی بلکہ وہ اسی طرح اپنے عہدوں پر باقی اوران کے معتمد رہے جس طرح قتلِ امام سے پہلے تھے۔

دراصل اس وقت جو حکومت قائم تھی وہ لوگوں کی آزاد مرضی سے منتخب نہیں ہوئی تھی بلکہ ایک موروثی بادشاہت تھی جو لوگوں کو اپنی بیعت پر مجبور کر رہی تھی۔

اس طرح با الجبر حکومت قائم کرنے اور لوگوں کو بیعت و اطاعت پر مجبور کرنے کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ یہ امامتِ برحق نہیں تھی۔

چنانچہ امام علیہ السلام نے سوچا کہ وہ اگر وہ حق پر استقامت اور ثابت قدمی دکھانے کے بجائے یزید کی بیعت کرلیتے اور مصلحت کوشی یا مداہنت سے کام لے لیتے ہیں تو اس بات کا خدشہ تھا کہ رسولِ کریم کا مقدس نواسہ ہونے کی بنا پر اہلِ اسلام آپ کے طرزعمل کو امامِ باطل و فاسق کی زورزبردستی والی بیعت کے لیے حجت سمجھ لیتے اور یہ ایک بڑی نظیر بن جاتا۔

آپ اگر چاہتے تو مداہنت سے کام لے لیتے اور ظاہری طور پر یزید کی نقلی بیعت کر لیتے۔ اس طرح آپ اور آپ کے ساتھیوں کی جانیں بچ جاتیں۔ مگر آپ نے ایمانی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رخصت کے بجائےعزیمت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ یوں انہوں نے سکھا دیا کہ موت یا کسی دوسرے نقصان کے خوف سے حق کو چھوڑ کر باطل کی حمایت کرنا مردوں کا شیوہ نہیں ہے۔

چنانچہ آپ نے امامِ باطل کی بیعت کرنے سے انکار کردیا اور اپنے قولی و عملی شہادت اور عظیم الشان قربانی کے ذریعے قیامت تک کے لیے لوگوں پر راہِ عزیمت واضح کر دی۔

آپ نے سکھادیا کہ اگر آئندہ حق و باطل کے درمیان اس طرح کا معرکہ برپا ہو، حق وباطل میں ترجیح و انتخاب کا موقع آئے یا کوئی فاسق اور ظالم لوگوں پر با الجبر اپنی حکومت مسلط کرنے کی کوشش کرے تو آزادی، قانون کی بالادستی، جمہوریت اور انسانی وقار کے علمبردار کسی مداہنت سے کام نہ لیں، جرات دکھاتے ہوئے حق کے ساتھ سینہ تان کر کھڑے ہوں اور باطل کے ساتھ کسی بھی طرح کی حمایت اور تعاون سے صریح انکار کردیں۔

حقیقت یہ ہے حضرتِ امام حریت، جوابدہ حکومت، انسان دوستی اور حق وصداقت کےلیےکوشاں لوگوں کے لیےمشعلِ راہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).