طلاق ثلاثہ کا سانپ پھر بل سے باہر


ایک بار پھر فرقہ پرست حکومت نے شریعت اسلامی کے معاشرے سے متعلق ایک اہم مدعا طلاق ثلاثہ بل کے خلاف ٹھوس قدم اٹھانے کی کوشش کی ہیں۔ دراصل مودی حکومت نے جن ترقیاتی کاموں کا منشور جاری کیا تھا وہ سب ایک دکھاوا تھا خواب خیالی تھی جس کا 2014 کے انتخابات میں بی جے پی نے فأیدہ حاصل کیا۔ جس میں حساس موضوع رام مندر کی تعمیر۔ کالا دھن کی واپسی۔ اور نوجوانوں کو نوکریوں کا حصول۔ اور 15 لاکھ روپے۔ جیسے کئی خوبصورت خواب دکھائے گئے۔ جس میں ہندو ووٹوں کو بٹنے سے بچانے کے لئے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اہم مدعا ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو کانگریس اور بی جے پی۔ دونوں ہی ایک سکے کے دو روخ ہیں۔ کانگریس حکومت میں بھی اقلیتی طبقہ غربت کی سطح کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھا اور آج فرقہ پرست حکومت کے اقتدار میں بھی انہیں ہر جگہ نظر انداز کیا جارہا ہیں۔

کہیں کسی شیعہ کو چھوٹے سے عہدے پر بیٹھا کر۔ بہورے کی مساجد میں تقریر کر کے۔ یا پھر مسلم خواتین کو حق دلانے کی بات کرکے بے بنیاد ہمدردی جتائی جارہی ہیں۔ گزشتہ روز طلاق ثلاثہ کے مدعے کو پھر سے ایشو بناکر اس کا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلے طلاق ثلاثہ کے سانپ کو بل سے باہر نکالا گیا۔ حکومت کا ‌اصل مقصد مسلمانوں کے خاندانی نظام کو درہم برہم کرنا‌ ہے۔ اس بل کے ذریعے خواتین کو اکسانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس بل میں‌ یہ کہا گیا ہے کہ طلاق ثلاثہ جرم ہے اگر کوئی مرد بیک وقت تین طلاق دیتا ہیں تو ان میاں بیوی کے درمیان طلاق واقع نہیں ہوگی اور اس کے شوہر کو 3 سال قید کی سزا ہوگی۔

اور اس کے ساتھ ہی بیوی بچوں کا نان و نفقہ کی ذمہ داری شوہر پر ہوگی۔ اب شریعت کے مطابق تو اس درجے ‌میں طلاق واقع ہو جائے گی۔ اور اگر اس کی بیوی جب شوہر کو جیل بھیج دے گی تو کیا وہ شوہر اسے اپنائے گا۔ بلکل نہیں اور حکومت اس پر یہ کہتی ہیں کے طلاق واقع نہیں ہوئی تو وہ رشتہ تو زنا کے درجے میں ہوگا۔ اور پھر دوسری بات یہ کے شوہر جیل میں رہے کر نان و نفقہ کہاں سے دے گا۔ یہ سب بی جے پی حکومت میں موجود سنگھی ذہنیت کے سسٹم کی دین ہیں اور وہی لوگ اس کے پیچھے کارفرما ہیں۔

اپوزیشن کی طلاق ثلاثہ بل کی مخالفت کرنے کے باوجود حکومت اس بل کو جرم قرار دینے پر آمادہ ہے۔ آرڈیننس جاری کرکے اس پر صدر جمہوریہ کے دستخط ہونے کے بعد یہ بل پاس کرلیا جائے گا۔ جس کا مقصد مسلم خاندانی نظام کو تباہ کرنا ہے۔ ہندو انتہا پسند انہیں ہر طرح سے نشانہ بناکر اس کا سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ 2019 کے انتخابات کے پیش نظر حکومت اپنی ناکام کارکردگی پر پردہ ڈالنے کے لئے اور ملک کی معیشت کی زبوں حالی کو چھپانے کے لئے عوام کا دھیان ان تمام مدعوں سے ہٹانے کے لئے یہ کھیل کھیل رہی ہے۔

طلاق ثلاثہ بل پر آرڈیننس جاری کرکے اسے مسلمانوں پر زبردستی تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جو حقیقت میں آئینی حقوق کے خلاف ہے اور انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔ مسلم پرسنل لاء ہونے کے باوجود مسلمانوں کے عدالتوں کی طرف رجوع ہونے‌ کی‌ وجہ سے یہ مسئلے حکومت تک پہنچتے ہیں۔ اگر مسلمان ان مدعوں کو اپنی مسجد کے امام سے یا شہر کے دار القضاء سے رابطہ کر کے حل کر لیتے تو یہ نوبت نا آتی جس کے ذریعے اسلامی شریعت کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

آج ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے بے حد ضروری ہے کہ وہ اپنے گھریلو مسائیل کو شرعی عدالتوں میں حل کریں۔ اور علماء اکرام کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ وہ مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے شریعت کی حفاظت کے لئے لائحہ عمل تیار کریں۔ ہر شہر گاؤں میں دارالقضاء کا قیام عمل میں لانے کی کوشش کریں۔ اسے اپنا فریضہ سمجھ کر ادا کریں۔ ورنہ حکومت میں موجود سنگھی ذہنیت کے حامل افراد پوری طرح سے اس ملک کو ہندو راشٹر بنانا کے لئے پلان تیار کر چکے ہیں۔

مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ گھر کے مسائیل کو گھر یا بستی کے سمجھدار افراد کے ذریعے حل کریں۔ عدالتوں کے دروازوں پر جا کر اپنی پگڑیاں نہ اچھالیں اور اس سے بڑھ کر اسلام کے مکمل نظام شریعت کو نشانہ بنانے کے لئے ادیان باطلہ کو راستہ نا دکھائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).