خان کا ڈھابہ


ڈھابہ۔ ہٹ۔ کھوکھا۔ چائے ہوٹل۔ چائے خانہ یہ سب ایسی جگہیں ہیں جہاں عام آدمی جاتا اور فرصت کے چند لمحے گزارتا ہے۔ آپ کو وہاں ایک کپ چائے کے ساتھ پراٹھا یا چپاتی کھاتے بہت سے لوگ نظر آئیں گے۔ ڈھابہ کی چائے کا نشہ ہر اس کے دل میں اتر جاتا ہے جسے کسی مجبوری کے تحت یہاں کھانے یا پینے کا موقع میسر آتا ہے۔ سادہ سے انداز، صفائی کی نفی کرتے ڈھابوں پر آنے والے لوگ صفائی سے نہیں بلکہ کھانوں کے ذائقے سے متاثر ہوکر آتے ہیں۔

چند روز قبل وزیر اعلیٰ پنجاب کی ڈھابے سے پی جانے والی چائے، وزیر اطلاعات کا ڈھابے کا کھانا اور وزیر داخلہ کی ڈھابے سے چائے کی چسکی دیکھ کر مجھے ”خان کا ڈھابہ“ یاد آگیا۔ اگر وزیر اعظم ہاؤس کو کسی یونیورسٹی میں تبدیل کیا جائے گا تو اس کے پہلو میں ”خان کا ڈھابہ“ ہونا بہت ضروری ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی کےطلباء و طالبات مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اس یونیورسٹی کو نمبر ون یونیورسٹی بنانے میں جنگل ہٹس (ڈھابہ) قائدین ہٹس، مجید، کراچی، کوئٹہ، بنوں، اور پنجاب ہٹس کا بہت بڑا کردار ہے۔ سستی روٹی اور گڈو کی چائے اس یونیورسٹی کے ہر سٹوڈنٹ کے لئے بہت معنی رکھتی ہے۔

یورپ امریکہ میں بسے بہت سے دیسی اپنے پرتعیش ریستوران بھی ڈھابے کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ وہ غریبوں کو اس کی طرف راغب کرنا چاہتے ہیں یا امیروں کو غربت کا ٹچ دکھانا چاہتے ہیں۔ اسلام آباد کے چائے خانہ اور کراچی کے دو دریا کےمہنگے ڈھابوں میں کھانے والوں کو احساس رہتا ہے کہ غریب کتنی مشکل سے ڈھابے پر گزارا کرتا ہے۔ مہنگے ریستوران تو اکثر نمایاں کر کے لکھتے ہیں کہ ”سرسوں کا ساگ، مکئی کی روٹی اور چاٹی کی لسی دستیاب ہے“۔

کچھ عرصہ قبل ”گرلز ایٹ ڈھابہ“ کے سوشل میڈیا ٹرینڈ نے خوب دھوم مچائی۔ بی بی سی اردو نے اس پر ایک پروگرام بھی نشر کیا۔ ماڈرن لڑکیوں کے اس گروپ کا پیغام تھا کہ مرد حضرات محلے کے ڈھابوں اور کھوکھوں پر بیٹھ سکتے ہیں جبکہ لڑکیوں، عورتوں کے لیے ایسا کوئی انتظام یا مواقع نہیں ہیں۔ واقعی ان کا یہ پیغام قابل توجہ ہے۔ اگر محلے یا قصبوں میں گھروں میں گھٹن کا شکار، چھوٹے کاروبار کی خواہاں خواتین اس کاروبار کو اپنانا چاہیں تو برا نہیں۔

خواتین کے لئے مخصوص کردہ ڈھابوں پر میسر چائے کے اس کپ پر خواتین بہت سے سماجی و معاشرتی مسائل پر گفتگو کر سکتی ہیں۔ پیسے پیسے کو ترستی خواتین پیسے کما کر اپنے بچوں کا پیٹ پال سکتی ہیں۔ شاید اب پر کچھ احباب میری کلاس لیں کہ عورتوں کو چادر اور چاردیواری سے دور کرنے کی ایک اور مذموم کوشش ہے حالانکہ عورتوں کے لیے ذہنی آسودگی بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی میرے اور آپ جیسے کڑھتے، جھڑکیاں نچھاور کرتے اور طعنے اگلتے مردوں کے لیے ضروری ہے۔ ویسے بھی اسلام آباد کی نجی یونیورسٹی میں سگریٹ نوشی کے معاملے پر ہم خواتین کو جرمانہ اور مردوں کو چھوٹ دینے کی بات کرسکتے ہیں مگر چائے خانہ پر خواتین کا مل بیٹھنا ممکن ہے اتنا خطرناک نہ ہو۔

آپ احباب کو کچھ عرصہ قبل اسلام آباد کے چائے والے ڈھابہ سے وہ نیلی آنکھوں والا ارشد چائے والا یقیناً یاد ہوگا۔ ارشد نے انڈیا پاکستان میں بالخصوص لاکھوں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ ”خان ڈھابہ“ کا ایک فرد ہزاروں پر بھاری نظر آیا۔ سوشل میڈیا پر بھونچال آ گیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد خبر آئی کہ ”خان ڈھابہ“ کا یہ نیلی آنکھوں والا سب خواب، رنگینیاں اور مقبولیت چھوڑ کر واپس اسی ڈھابہ پر آگیا ہے۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔

میری ان وزراء، امراء اور شرفاء سے گزارش ہے کہ ان ڈھابوں کو عام آدمی کی عام زندگی کے لیے بچا چھوڑیں۔ آپ کی یہ تفریح اس مزدور کے لئے مشکل پیدا کرتی ہے جو ان جگہوں سے روزانہ کھاتا پیتا ہے۔ اس کے لئے اس ڈھابے سے چائے پینا کسی فوٹو سیشن کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ وہ تو اپنی چائے کے کپ میں سوکھی روٹی کو ڈبو کر کھاتے ہوئے کنکھیوں سے برابر والی میز پر انڈا گھوٹالا کھاتے شخص کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جو سنگل دال اور ”گریبی ” سے اپنی غریبی کو چھپا رہا ہوتا ہے۔ جو چائے کے ”کٹ“ اور ”ٹوکن“ (چائے کے آدھے کپ کے لیے مستعمل) سے اپنا دوزخ بھرتا اور پیسے بچاتا نظر آتا ہے۔ جسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ بزدار صاحب نے ڈھابے سے چائے پی اور سوشل میڈیا پر ان کی سادگی کے قصیدے زبان زد عام ہوئے۔

ڈھابوں پر بیٹھنے والے حکمرانوں اور اہل ثروت سے گزارش ہے کہ آپ اس ملک کے تمام ڈھابوں پہ کھانے والوں کی زندگیاں بدلیں۔ ان کے لئے روٹی روزی کے ذرائع عام کریں۔ ان کی زندگیوں میں آسانی پیدا کریں۔ اپنی صلاحیتیں اور توانائیاں ان کوششوں میں صرف کریں جہاں کوئی معاشرتی و معاشی تبدیلی واقع ہو۔ مجھے اس روز خوشی ہوگی جب ہمارے وزیراعظم، وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم کے بچے کندھے پر بیگ لٹکائے سرکاری سکول میں داخل ہورہے ہوں گے۔ وہاں کی کینٹین سے آلو چھولے کھا کر گھر پہنچیں گے تو ان کا پیٹ خراب نہیں ہوا ہو گا۔ سکول کے کولر سے پانی پی کر ان کو ہیپاٹائٹس نہیں ہوگا۔ ہم تب خوش ہوں گے جب وہ اپنے بیمار بچے کو لے کر اپنے علاقے کے رورل ہیلتھ سنٹر میں داخل ہوں گے اور مکمل علاج اور صحتیابی کے بعد واپس آئیں گے۔ جب ہر سو امن اور خوشحالی کا راج ہوگا۔ وگرنہ ”خان کے ڈھابے“ سے چائے پینا اور ہضم کر لینا کوئی بڑی بات نہیں۔ یہ تو پاکستان کے 99 فیصد عوام ہر روز کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).