حق اور باطل


محرم اسلامی کیلنڈرکا ایک اہم مہینہ ہے۔ محرم ہجری کیلنڈر کا وہ مہینہ ہے جس سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ اس مہینے میں کئی اہم واقعات ہوئے ہیں۔ اسی مہینے میں فرعون غرق ہوا تھا۔ ابرہہ کے لشکر (اصحاب فیل ) پر عذاب اترا تھا۔ شعب ابی طالب میں محصور ہونے کی ابتدا ہوئی تھی۔ غزوہ ذات الرقاع اور غزوہ خیبر ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کا حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مختلف بادشاہوں اور سرداروں کو دعوتی خطوط ارسال کیے گیے تھے۔ جنگ ِ قادسیہ لڑی گئی تھی۔ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کی ابتدا ہوئی تھی۔ حضرت عمر قانلانہ حملوں کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ واقعہ کربلا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تھی۔

ان تمام اہم واقعات کے باوجودآج بھی دنیا کے تمام مسلمان حضرت امام حسین کی شہادت کو اب بھی یاد کرتے ہیں اور اپنے اپنے طور پر غم و غصّہ کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ خاص کر ہندوستان اور پاکستان میں شیعوں کے علاوہ سنّی حضرات بھی امام حسین کی شہادت کو بڑے عزت و احترام سے مناتے ہیں۔ تاہم ایران، عراق اور دیگر ممالک میں جہاں شیعہ عقیدے کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ ہیں، وہاں محرّم کافی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ برطانیہ میں بھی شیعہ عقیدے سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے اپنے علاقوں میں امام باڑہ اور گھروں میں مجالس کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی علاقوں میں محرّم کا جلوس بھی نکالا جاتا ہے۔

حضرت امام حسین کی پیدائش تین شعبان چار ہجری 625 عیسوی کو مدینہ میں ہوئی تھی۔ حضرت امام حسین کے والد کانام حضرت علی ابن ابو طالب اور آپ کی والدہ کانام حضرت فاطمہ زہرہ ہے۔ حضرت امام حسین حضرت محمد ﷺ کے نواسے تھے۔ حضرت امام حسین سچائی کے معاملے میں نانا جان کے حقیقی وارث تھے۔ حضرت امام حسین کی شہادت محض اس بات کے لیے ہوئی کہ انہوں نے جھوٹ، مکّاری، دغابازی، شرابی، ظالم کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا تھا۔

حضرت معاویہ کے انتقال کے بعد یزید نے خود سے اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔ یزید کو عیاشی کے علاوہ شراب، عورت، گانے بجانے جیسی چیزوں سے کافی دلچسپی تھی۔ تاریخی نقطہ نگاہ سے یزید ہمیشہ شراب کے نشے میں دھُت رہتا تھا۔ عرب کے لوگوں میں یزید کے خلاف کافی غم و غصّہ رہتا تھا لیکن یزیدی ظلم و جبرکی وجہ سے کوئی بھی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا تھا۔ اس کے برخلاف حضرت امام حسین کو یزید سے کوئی خوف نہ تھا۔ ہمیشہ انہوں نے سچ کا ساتھ دیا اور سچائی کی حمایت میں آواز اٹھائی۔ اس خاص وصف یعنی حق گوئی اور سچائی کے ذریعے لوگوں میں اسلام اور احکاماتِ اسلام کے تئیں بیداری پیدا کی تاکہ لوگوں کا ایمان مزید پختہ ہو۔ حضرت امام حسین نے علانیہ طور پر یزید کی خلافت کو ماننے اور بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ حضرت امام حسین نے یزید کی بد اخلاقی اور عیاشی کی وجہ سے اسے خلیفہ ماننے سے انکار کیا۔ حضرت امام حسین نے لوگوں سے کہا کہ اسلام میں بد اخلاقی اور عیاشی کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

یزید اپنی طاقت کے نشے میں چور تھا اور اسے اسلام کے اقدار اور اہمیت کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ مذہبی باتوں سے ہٹ کر شراب اور عیاشی میں اپنا وقت گزارتا رہتا تھا۔

یزید کو حضرت امام حسین کی بات سے کافی تکلیف پہنچی اور اس نے جنگ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ یزید کے پاس ہزار سپاہی تھیں جبکہ حضرت امام حسین کے پاس صرف 72لوگ، جن میں ان کے افرادِ خاندان کے کنبے بھی شامل ہیں۔ عراق کے کربلا شہر میں یزید اور حضرت امام حسین کے بیچ حق وباطل کی جنگ ہوئی جس میں حضرت امام حسین سمیت ان کے خاندان اور ساتھیوں کو بے دردی سے شہیدکردیا گیا۔ حضرت امام حسین شہید کر دیے گیے لیکن انہوں نے یزید سے نہ ہی تو رحم کی اپیل کی اور نہ ہی یزید کے سامنے گھٹنے ٹیکے۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ محرّم کا مہینہ آتے ہی لوگوں میں بحث چھِڑ جاتی ہے کہ اس مہینے میں غم کا اظہار اس طرح سے نہیں کیا جانا چاہیے جیسا کہ لوگ کرتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ہرایک شخص اپنے فرقے اور گروپ کی رہنمائی اوراثرپزیری پراظہار خیال کرتا ہے جو کہ ایک دانشمندانہ قدم ہے۔ لیکن وہیں کچھ لوگ اس معاملے میں حد سے تجاوز بھی کرنے لگتے ہیں۔ جس سے خواہ مخواہ ماحول میں تناؤ پیدا ہوجاتا ہے اور ہم سب حضرت امام حسین کی شہادت کی اہمیت کو بھول کر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

ہر سال محرّم میں کچھ بیانات اوررپورٹ نظر سے گزرتی ہیں جسے پڑھ کر کافی مایوسی ہوتی ہے۔ حال ہی میں ایک عالم نے محرّم کے دوران ان لوگوں کو ڈانٹ پلائی جو اکھاڑا اور تعزیہ کا اہتما م کرتے ہیں اور انہیں یزید کا حامی بنا دیا۔ ایسی باتوں سے ہمارے ماحول میں بدمزگی پیدا ہوتی ہے اور لوگ فرقوں میں الجھ کر گمراہ ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ عالم دین ان نکات پراطمینان سے بات کرتے ہوئے اسلامی ا قدار اور رواداری کے ساتھ شائستگی کا بھرپور مظاہرہ کرسکتے ہیں۔

میں نے بارہا محسوس کیا ہے کہ روایتی طور پرماہ ِمحرّم میں کچھ لوگ ناروا حرکت و عمل اورغیرسنجیدہ ذہن وفکر کی وجہ سے ایسا کام کرتے ہیں جس سے ہمارا سر شرم سے جھُک جاتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے تعزیہ اور اکھاڑا نکالنے کا رواج چند رئیسوں اور حکمرانوں نے کیا تھا۔ جس کے بعد یہ سلسلہ خاص کر ایشیا کے چند ممالک میں اب بھی جاری ہے لیکن دھیرے دھیرے اس کی اہمیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مذہب میں تعزیہ داری کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

محرّ م کا مہینہ اور حضرت امام حسین کی شہادت کو ہر سال یاد کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا مذہبِ اسلام اور دیگر فرائض کو یاد رکھنا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ کربلا کا واقعہ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ ہم حق اور باطل کے لیے کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری فرقہ بندی اور گمراہی نے ہمیں حضرت امام حسین کی شہادت کو محض ماتم، تعزیہ اور اکھاڑے میں محدود کر کے رکھ دیا ہے۔ جس سے ہم روایتی طور پر ہر سال محرّم تو مناتے ہیں لیکن ایمان کی پختگی میں درس ِکربلا بھول جاتے ہیں۔ ورنہ خاندان، پڑوسی، کاروبار، حکومت، مذہبی معاملات کے علاوہ ہزاروں ایسے مسائل ہیں جہاں ’حق اور باطل‘ کو سامنے رکھ کر ہر مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ اگر آپ تھوڑی دیر کے لیے اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو احساس ہوگا کہ ہم کتنے کمزور ہو چکے ہیں۔ کمزوری اور بزدلی نے ہمیں اپنے رشتہ داروں، دوستوں اورظلم و جبر کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمّت تک چھین لی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم تمیز بھول کرلب کشائی کی بجائے منھ چھپائی کا کام کرتے ہیں۔

کربلا کی تاریخ کو پڑھ کر اور سن کر آنکھوں سے آنسو نکل پڑتے ہیں۔ یزید نے جس بے رحمی سے حضرت امام حسین اور ان کے خاندان والوں کو شہید کیا تھا وہ رہتی دنیا تک ایک بے مثال شہادت کہلائے گی۔ لیکن حضرت محمد ﷺ کے نواسے اور ان کے خاندان والوں نے کربلا میں جامِ شہادت پی کر ہم گنہگاروں کو یہ سبق دیا ہے کہ جب ’حق اور باطل ‘ کی بات ہو تو کبھی خاموش نہ بیٹھو اور اس کے خلاف آواز اُٹھاؤ۔ مجاہدِ آزادی اور قوم و ملّت کے رہنمامولانا محمد علی جوہر نے کیا خوب کہا ہے۔
قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).