شیرو خوفزدہ ہے


”شیرو“ کی مقبولیت تو پہلے بھی کچھ کم نہ تھی مگر اب تو اس کی شہرت کو چار چاند لگ چکے ہیں۔ ظاہر ہے اگر نسبت وزیرِاعظم سے ہو تو ایک کتا بھی شیر ہوتا ہے، یعنی ”شیرو“ ہوتا ہے۔ سلیم صافی نے تازہ ترین انکشاف یہ کیا ہے کہ فقط عمران خان ہی ہیلی کاپٹر میں نہیں آتے جاتے ان کے ہمراہ ان کا جگری کتا بھی ہوتا ہے۔ خدا جانے سلیم صافی کو کیا سوجھی جو یہ راز طشت از بام کر دیا ابھی تو خدا خدا کر کے ان کے پہلے بیان پر اٹھنے والا طوفان تھما تھا۔ یہ تو انہوں نے“کھلاڑیوں“ کو سنہری موقع عطا کر دیا ہے کہ بلا لے کر ان کے پیچھے پڑ جائیں۔

جو لوگ ”شیرو“ کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ وہ نابغۂ روزگار کتا ہے جو غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ریحام خان اور مسٹر خان کی لو سٹوری میں ایک ولن کی طرح آیا اور شادی کی پہلی سالگرہ سے پہلے ہی طلاق کا سبب بن گیا۔ ریحام خان یہ شکوہ کرتی نظر آئیں کہ مجھ سے زیادہ تو انہیں کتے سے پیار ہے۔ کتاب کے مطابق پیار تو غالباً چند دوستوں سے بھی ہے مگر ان حضرات پر انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ظاہر ہے کوئی جوڑ بھی تو ہوتا ہے، یہ کیا کہ انسان ایک کتے سے پیار کرنے لگے۔

شاید کسی کو یہ باتیں مبالغہ آرائی لگیں مگر ان کی سچائی ثابت کرنے کے لئے ہمارے پاس ایک راوی اوربھی ہے اور وہ ملک کے ایک معتبر صحافی رؤف کلاسرا ہیں۔ ان کے مطابق ایک بار وہ بنی گالا میں کسی انتہائی خاص معاملے پرگفتگو کے لئےعمران خان سے ملنے گئے تھے ان دنوں ریحام خان وہیں ہوا کرتی تھیں۔ اس ملاقات میں مبینہ طور پر شیرو بھی شریک تھا۔ رؤف کلاسرا نے بڑی شدت سے محسوس کیا کہ عمران خان ان کی باتوں پر توجہ دینے کی بجائے شیرو کی طرف متوجہ تھے حالاں کہ ریحام خان نے کئی بار اشاروں کنایؤں میں کہا کہ معروف صحافی کی بات کو توجہ سے سنا جائے مگر عمران خان پر کوئی اثر نہ ہوا تنگ آ کر ریحام خان نے ملازم سے کہا کہ شیرو کو وہاں سے لے جائے مگر عمران خان نے اسے نہ لے جانے دیا۔

اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جس کتے کو وہ اہم ترین گفتگو کے دوران بھی خود سے جدا کرنا پسند نہیں کرتے تھے اس کے بغیر وزیرِاعظم ہاؤس میں کیسے رہ سکتے ہیں۔ چناں چہ اگر وہ ہیلی کاپٹر میں وزیرِ اعظم ہاؤس اور بنی گالا آتا جاتا ہے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ ویسے اگر آپ اعتراض کر بھی دیں تو فواد چودھری اس کا موثر جواب دے کر آپ کا منہ بند کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ ہیلی کاپٹر میں خالی سیٹ تو ہوتی ہے اگر شیرو اس پر بیٹھ کر چلا جاتا ہے تو اس سے خرچ میں تو کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔

یوں تو اس معاملے میں کسی کو بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے لیکن ن لیگی متوالوں کو تو بالکل ہی خاموش رہنا چاہیے کیونکہ ان کے میاں صاحب کو بھینسیں پسند تھیں تو انہوں نے وزیراعظم ہاؤس میں بھینسیں رکھ لیں، خان صاحب کو کتے پسند ہیں انہوں نے کتا رکھ لیا۔ یہ تو اپنے اپنے ذوق کی بات ہے۔ اب اگر سب لوگ لٹھ لے کر شیرو کے پیچھے پڑ جائیں کہ یہ ہیلی کاپٹر میں سفر کیوں کرتا ہے؟ وزیر اعظم ہاؤس میں کیا کرنے جاتا ہے؟ تو اس بے چارے کے نازک سے دل پر کیا گزرے گی۔

کسے خبر ہے کہ خان صاحب نے اسے کتنے پیار سے پالا ہے۔ کبھی اس کی کوئی فرمائش رد نہیں کی، کبھی اس پر دکھ کا سایہ نہیں آنے دیا۔ اب آپ اس پر الزامات لگائیں گے تو اس کا دل ٹوٹ نہیں جائے گا؟ شاید اس کا اعتبار انسانیت سے ہی اٹھ جائے۔ چناں چہ شیرو کے احساسات کی پرواہ کرتے ہوئے اس کی ذات کے حوالے سے ہرزہ سرائی نہیں کرنی چاہیے آخر اس کے بھی جذبات ہیں۔ اور یوں بھی ان دنوں وہ اپنے مالک کی رفاقت سے اکثر محروم رہنے لگا ہے۔ کیونکہ وزیر اعظم بہت مصروف رہتے ہیں۔

ایک مہینے میں انہوں نے اتنے بڑے بڑے کام کیے ہیں جو سابق وزیر اعظم برسوں میں نہ کرسکے۔ جیسے فالتو گاڑیاں نیلام کیں، فضول بھینسیں نیلام کیں۔ جی ایچ کیو میں حاضری دی، مزارِ قائد پر فاتحہ پڑھی اور بھی بہت سے کام کیے۔ سعودی عرب گئے۔ ویسے انہوں نے کہا تو تھا کہ تین مہینے تک غیر ملکی دورہ نہیں کریں گے کیونکہ ملک اس قسم کے اخراجات کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن دس ارب ڈالر امداد منظورکرانے کا معاملہ ایسا تھا کہ بچت کا پہلو ہی ذہن سے نکل گیا اور جلدی میں ہونے کی وجہ سے خصوصی طیارہ لے گئے۔

اتنی افراتفری میں گئے کہ بے چارے شیرو کو بھی چھوڑ گئے۔ شاید انہی حالات کو دیکھتے ہوئے شیرو کچھ دنوں سے پریشان ہے کہ میرا کیا بنے گا؟ اگر پیسوں کے لئے آج کا وزیر اعظم بھینسیں نیلام کر سکتا ہے تو آئندہ وزیراعظم کسی کتے کو بھی نیلام کر سکتا ہے۔ خیر بعد کی بات تو بعد میں سوچی جائے گی فی الوقت توشیرو کو ایک اور مسئلہ در پیش ہےوزیر اعظم کی مسلسل بے رخی شیرو کے دل کو گھائل کر رہی ہے اور جس طرح عمران خان ڈیم فنڈ کے لئے سب کچھ داؤ پر لگانے کے لئے آمادہ ہیں کہیں اسے بھی ڈیم فنڈ میں نہ دے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).