ہدایت نامہ زد وکوبی ازدواج


\"anisبس اب جبکہ شیرانی سفارشی کونسل کی سفارشات پیش کی جا چکی ہیں تو تمام عاقل و بالغ مومنین گرامی پر لازم ہوا کہ وہ اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے ان پر نہ صرف عمل شروع کر دیں بلکہ دین کی خدمت اور سربلندی کاجذبہ رکھنے والے اپنے ان تمام برادران و پسران و عم زادگان کو بھی ان سے استفادہ کرنے پر مائل کریں جو ابھی تک بوجوہ، کسی ہچکچاہٹ یا تذبذب کا شکار ہیں۔

خیال رہے کہ اب جب کہ دنیا عورت کے شر کے باعث تباہی کے دہانے پر آ کھڑی ہوئی ہے ، ہم سب پر لازم ہے کہ عورت کو راہ راست پر لانے کے لئے اپنا فرض ادا کریں اور اس سلسلے میں لبرل، سیکیولر، ترقی پسند، آزاد خیال فاشسٹوں کی کسی مزاحمت کو خاطر میں نہ لائیں۔ شیطان کی طرح یہ بھی آپ کو اس نیک کام سے روکیں گے۔ پہلے بھوک، افلاس ، بیروزگاری، جہالت جیسی خرافات کا بہانہ بنا کر ان کا تدارک کرنے پر زور دینے کا گھسا پٹا بہانہ بنائیں گے۔ بین الاقوامی کنوینشن جیسی غیر اسلامی دستاویز پر دستخط ہونے کا عذر لائیں گے۔ لیکن آپ سے امید کی جاتی ہے کہ آپ استقامت سے شیرانی سفارشی کونسل کی سفارشات پر دامے، درمے، سخنے عمل کرتے رہیں گے کیونکہ یہی حرف آ خر ہے ۔ کسی پیر فرتوت کی بڑ نہیں۔ استغفراللہ۔

سمجھدار گھرانوں میں اوائل عمر سے ہی ایسی تربیت کا آغاز کر دیا جاتا ہے تاکہ بچہ جب بلوغت کو پہنچے تو اپنی اس ذمہ داری سے کما حقہ واقف ہو۔ اس مقصد کے لئے والدہ محترمہ کی پٹائی وقفے وقفے سے بچوں کے سامنے ہی کر دی جاتی ہے کوئی عذر ہو نا ہو۔ اس طرح بیٹیاں مار کھانے اور بیٹے چھڑیاں برسانے کا ہنر گھر بیٹھے ہی سیکھ لیتے ہیں۔ تاہم کچھ لبرل سیکیولر ترقی پسند آزاد خیال فاشسٹ اپنے بچوں کو دانستاٌ اس تربیت سے محروم رکھتے ہیں، جس کی بھرپور مذمت کی جانی چاہیئے۔ اس لئے ابا حضور یا دادا حضور اس نیک کام میں اگر چنیں چناں کرنے لگیں تو آپ کی نافرمانی قابل گرفت نہ ہو گی۔ پہلے انہیں آرام سے سمجھائیے ۔ نہ سمجھیں تو حقہ پانی بند کر دیجئے۔ خود ہی سمجھ جائیں گے۔

ہدایات ترتیب وار:

1۔ اپنے ابا حضور سے ، اگر وہ حیات ہو ں تو گزارش کیجئے کہ پہلی چھڑی وہ اٹھائیں اور اماں حضور کی پٹائی کرتے ہوئے تربیت فرمائیں کہ ضرب کی شدت کیا ہو۔ ساتھ ہی اس بات کا تعین بھی فرما دیں کہ جسم کے کس حصے پر ضرب لگانا زیادہ کار گر ہو گا۔

نوٹ : اگر دادا اور دادی حضور ابھی تک حیات ہوں تو تربیت کا پہلا حق ان کا بنتا ہے۔

2۔ حفظ مراتب:

\"sherani\"ایسے مومنین جنہیں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کی سعادت حاصل ہو چکی ہے، اپنی ازدواج میں انصاف قائم رکھنے کے لئے حفظ مراتب کا خیال رکھیں۔ انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ شوہر سے مار کھانے کا پہلا حق بھی پہلی زوجہ کا ہی ہو گا۔ دوسری یا تیسری یا چوتھی بیوی کو پہلے زدوکوب کرنے سے، پہلی بیوی کی دل آزاری ہوگی جو انتہائی ناپسندیدہ فعل ہے۔ پہلی زوجہ اگر از راہ مروت یا رضاکارانہ طور پر اپنے اس حق سے دستبردار ہو جائے تو زوجہ ثانی کو پہلے پیٹ لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ تاہم جبر و اکراہ سے یہ حق حاصل کرنا منع ہے۔ یہی کلیہ تیسری اور چوتھی بیوی کے لئے بھی ہے۔ استثنا صرف دودھ پلانے والی بیوی کے لئے ہے جس کا حق دو سال تک موخر کیا جاسکتا ہے۔ اس پر دو سال تک بچے کو دودھ پلانا لازم ہوگا۔ خواہ دودھ اترے یا نہ اترے۔ یہ گنجائش اس لئے رکھی گئی ہے کہ کچھ سرکش بیویاں مار کھانے کے شوق میں بچے کا دودھ پہلے ہی چھڑوا دیتی ہیں۔

3۔ چھڑی برسانے کا طریقہ:

چھڑی برسانے کا ایک پسندیدہ طریقہ ’’ سوات ماڈل ‘‘ کہلاتا ہے۔ تربیت کے لئے اس کی فلم بھی موجود ہے۔ یہ طریقہ ممتاز عالم دین حضرت مولانا صوفی محمد نے متعارف کروایا تھا۔ اس پر متعدد علماء میں اتفاق پایا جاتا ہے۔ اگرچہ تربیتی فلم میں کسی اور کی بیوی کو تختہ مشق بنایا جا رہا ہے۔ تاہم آپ اسے اپنی بیوی تک محدود رکھیئے۔ واضح رہے کہ فلم میں نطر آنے والی عورت نے دینی خدمت کے جذبے سے مغلوب ہو کر خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا تھا۔ اس ماڈل کی احسن بات یہ ہے کہ اس میں ہڈی نہیں ٹوٹتی۔

4۔ چھڑی کی طوالت:

چھڑی کی ساخت اور طوالت ایک نازک مرحلہ ہے۔ اس کی لمبائی کتنی ہو۔ موٹائی کیا ہو۔ کس درخت سے توڑی گئی ہو۔ لچک ہو یا نہ ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔

ان پیچیدہ مسائل پر تحقیق وتصنیف کا کام جاری ہے اور کئی اہل علم اس کام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر چکے ہیں۔عمومی اتفاق اس بات پر ہے کہ گھر میں کسی بھی دستیاب اور مضبوط چھڑی سے کام چلایا جا سکتا ہے۔ کھجور کی ہو تو بہتر ہے۔ نالیاں کھولنے والی چھڑی ناپاک سمجھی جائے گی ۔ اس کا استعمال ناپسندیدہ ہے۔

نوٹ:

وقت پر چھڑی دستیاب نہ ہو تو چھترول بھی کی جا سکتی ہے۔ عورت ، عورت ہے۔ چھڑی ہو یا چھتر۔ ایک ہی بات ہے۔ اصل مقصد تو اس کم عقل کو راہ راست پر لانا ہے جس کی ذمہ داری مرد ذات پر ڈالی دی گئی ہے۔ اور اب تو سفارشات بھی آ گئی ہیں۔

ظاہر ہے کہ مندرجہ بالا شرائط پر عمل کرنے کے لئے آپ کا شادی شدہ ہونا ضروری ہے۔ تاخیر کی صورت میں لڑکیوں کے مار کھانے اور لڑکوں کے مار پیٹ کرنے کی تربیت کمزور بھی پڑ سکتی ہے۔ شیطان یا لبرل سیکیولر آزاد خیال فاشسٹ آپ کو بہکا بھی سکتے ہیں۔ پس والدین سے شادی پر اصرار کیجئے۔

چونکہ اب زمانہ بدل رہا ہے اور ہمارے لئے عصری تقاضوں کا خیال رکھنا کسی حد تک ضروری ہے لہٰذا والدین اگر بارہ سال کی لڑکی آپ کے لئے منتخب کرنا چاہیں تو انکار کر دیجئے اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کریں کہ آپ تیرہ سال سے کم عمر کی لڑکی سے ہر گز شادی نہ کریں گے۔

ان سفارشات کو زیادہ سے زیادہ کم عقل خوش نصیبوں تک پہنچا کر اپنے حصے کا دیا بجھاتے جائیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments