دیتی نہ ایک بال بھی جنت سے تول کر


رہ گئی دشت میں تنہا تو وطن یاد آیا
پانی جب پایا ہر اک تشنہ دہن یاد آیا
لے کے ہر چیز مدینے سے چلی تھی زینبؓ
لاش پر بھائی کی پہنچی تو کفن یاد آیا
یہ تاریخ عالم کا سب سے عظیم لانگ مارچ تھا، جو مدینہ سے شروع ہوا اور کربلا کی تپتی ریت کو اپنے کارواں کے خون سے سیراب کرتا شام پہنچ کر ہمیشہ کے لیے ان مٹ نقوش چھوڑ گیا۔ یہ ظلم، نا انصافی، ملوکیت، انسانی حقوق غصب کرنے اور مخلوق خدا کو جبر کے ذریعے اپنا تابع بنانے کے خلاف دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا ، موثر اور بھرپور احتجاج تھا، جو تا قیامِ قیامت بنی نوع انسانی کے لیے مشعل راہ رہے گا۔ فرات کے کنارے یہ اصول ہمیشہ ہمیشہ کے لیے طے ہو گیا کہ حسینیت عدل جبکہ یزیدیت ظلم کا نام ہے ۔ جہاں بھی ، جب بھی کہیں ظلم ، نا انصافی اور جبر ہو گا ‘ وہ یزیدیت کہلائے گا اور اس کے خلاف جو قیام کرے گا وہ حسینیت کا علم بردار ہو گا ۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایسا عظیم رہنما اصول طے کرنے کے لئے یہ کوئی ملین مارچ نہیں تھا ۔ قافلہ بہت مختصر مگر ضعیف رکن کارواں کے عزم صمیم کا بھی یہ عالم:
ہمت و عزم و عمل کا تقاضا ہے کہ رضا
پیریٔ حبیب ابن مظاہر کو جوانی لکھوں
قافلہ سالار نے اپنے لانگ مارچ کے پیغام میں صرف یہ نہیں کہا کہ میں یزید کی بیعت نہیںکروں گا … فرمایا ”کوئی مجھ جیسا، یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا ‘‘ … کوئی ابہام رکھا نہ کوئی وضاحت طلب بات چھوڑی۔ اپنے آفاقی پیغام کو ، اپنے عظیم نظریے اور رہتی دنیا تک کے لئے اپنے وضع کردہ رہنما اصول کو دو ٹوک ، واضح اور صاف الفاظ میں بنی نوع انسان تک پہنچا دیا ، اپنی گفتار سے بھی اور کردار سے بھی۔ اگر کوئی ابہام ہے تو ہمارے دلوں میں ، کوئی فتور ہے تو ہمارے ذہنوں میں ، کوئی چور ہے تو ہمارے اندر ۔ یہاں ہر کوئی اپنی اپنی معاشی ، سماجی اور سیاسی ضروریات کے مطابق اس پیغامِ حق کی وضاحت کر رہا ہے ۔ کوئی اسلام پر رحم کھانے کو تیار ہے نہ مخلوق خدا پر ، ورنہ پیغام دینے والے نے تو بڑی سادہ اور آسان فہم زبان میں ہمارے لیے انقلابی اور فلاحی راہ متعین کر دی تھی کہ ”مجھ جیسا ‘ یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا ‘‘۔
اس واضح اور ٹھوس نظریے کو تاویل در تاویل اور تشریح در تشریح کر کے مبہم بنانا اسلام کی کوئی خدمت نہیں۔ کیا وہ اس پیغام کو لوگوں تک پہنچائیں گے، جو خود تو پُر تعیش زندگی گزارتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ خاتونِ جنت‘ کائنات کی معتبر ترین ہستی کے گھر سے جہیز میں کھجور کے بان سے بنی ایک چارپائی ، کھجور کی چھال سے بھرا ہوا چمڑے کا ایک بچھونا ، دوری چمڑے کی کنال ، ایک مشکیزہ اور آٹا پسینے کی چکی لائی تھیں۔ اے بندگانِ خدا ، وہ تو اپنے پیغام اور نظریے کو بھرپور اور موثر طریقے سے دنیا تک پہنچانے کے لئے اپنا خون ارزاں کرنا ضروری تھا ، ورنہ :
دیتی نہ ایک بال بھی جنت سے تول کر
پوچھو دل بتولؓ سے قیمت حسینؓ کی
جس دین کو بچانے کے لیے شہدائے کربلا نے قربانیاں دیں ‘ ہم گفتار سے تو اسے مکمل ضابطۂ حیات قرار دیتے ہیں مگر کردار سے اس پر جزوی عمل کرتے ہیں ۔ ہم جو دوائیں تک خالص نہیں بیچتے ، حج ، عمرہ کے نام پر فراڈ کرتے ہیں ، ملاوٹی اشیاء ، گھٹیا سامان بیچنے کے لیے جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں ، مریضوں کے گردے چوری کرتے ہیں ، ووٹ لے کر لوٹے بن جاتے ہیں ، دوسروں کا حق مارنا اپنا حق سمجھتے ہیں ، یتیموں کا مال کھاتے ہیں ، رشوت سے کام کرتے ہیں ، ظلم پر خاموش رہتے ہیں ، غاصبوں کی خوشامد کرتے ہیں ، آٹا سمگل کرتے ہیں ، چینی بلیک کرتے ہیں ، جھوٹ کی ترویج پر کمر بستہ ہیں ، حتیٰ کہ مساجد میں نمازیوں کے جوتے چرانے سے لے کر ان کا خون بہانے تک کسی جرم سے نہیں چوکتے ، پھر بھی خود کو اپنے تئیں حسینی صفوں میں کھڑا سمجھتے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ اُمہ کی قیادت کے دعوے دار بھی ہیں ۔ ہمیں کون سمجھائے کہ اسلام نے صرف نماز ہی نہیں ، عدل کا حکم بھی دیا ہے ۔ دین حق میں اگر شراب حرام ہے تو دوسرے مسلمان کا مال اور خون بھی حلال نہیں ۔ جہاں روزے کا حکم ہے وہاں دوسرے کا حق مارنا بھی جائز نہیں ۔ بظاہر ہمارا حلیہ شرعی مگر اکلِ حلال کی تخصیص ؟ سینوں میں کذب ، غیبت ، بخل ، تکبر ، حب جاہ ، چغل خوری ، حرص ، حسد ، خوشامد اور ریا کے دریا ٹھاٹھیں مار رہے ہیں اور دعویٰ ہے تو کس کی وراثت کا ؟ شاعر نے ہمارے طریقۂ واردات کو دو مصرعوں میں بیان کر کے کوزے میں دریا بند کر دیا ہے کہ:
ہر دور کے یزید کی ہے بیعت ہم نے کی
ادب سے لیتے رہے ہیں نام حسینؓ کا
شورش کاشمیری نے کہا:
سوچتا ہوں کہ اسی قوم کے وارث ہم ہیں
جس نے اولاد پیمبر کا تماشا دیکھا
جس نے سادات کے خیموں کی طنابیں توڑیں
جس نے لختِ دلِ حیدر کو تڑپتا دیکھا
برسرِ عام سکینہ کی نقابیں الٹیں
لشکرِ حیدرِ کرار کو لٹتا دیکھا
ام کلثوم کے چہرے پہ طمانچے مارے
شام میں زینب و صغریٰ کا تماشا دیکھا
شہ کونین کی بیٹی کا جگر چاک کیا
سبطِ پیغمبرِ اسلام کا لاشا دیکھا
دیدۂ قاسم و عباس کے آنسو لوٹے
قلب پر عابدِ بیمار کے چرکا دیکھا
توڑ کر اصغر و اکبر کی رگوں پر خنجر
جورَ دوراں کا بہیمانہ تماشا دیکھا
بھائی کی نعش سے ہمشیر لپٹ کر روئی
فوج کے سامنے شبیرؓ کو تنہا دیکھا
پھاڑ کر گنبدِ خضریٰ کے مکیں کا پرچم
عرش سے فرش تلک حشر کا نقشا دیکھا
قلبِ اسلام میں صدمات کے خنجر بھونکے
کربلا میں کفِ قاتل کا تماشا دیکھا
اے میری قوم! تیرے حسن کمالات کی خیر
تو نے جو کچھ بھی دکھایا، وہی نقشہ دیکھا
یہ سبھی کیوں ہے، یہ کیا ہے، مجھے کچھ سوچنے دے
کوئی تیرا بھی خدا ہے، مجھے کچھ سوچنے دے
اور فرازؔ نے آواز دی:
اب جو ہیںجابجا صلیبیں
تم بانسریاں بجا رہے ہو
اور اب جو ہے کربلا کا نقشہ
تم مدح یزید گا رہے ہو
جب سچ تہہ تیغ ہو رہا ہے
تم سچ سے نظریں چرا رہے ہو
قافلہ سالار نے اپنے لانگ مارچ کے پیغام میں صرف یہ نہیں کہا کہ میں یزید کی بیعت نہیںکروں گا … فرمایا ”کوئی مجھ جیسا، یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا ‘‘ … کوئی ابہام رکھا نہ کوئی وضاحت طلب بات چھوڑی۔ اپنے آفاقی پیغام کو ، اپنے عظیم نظریے اور رہتی دنیا تک کے لئے اپنے وضع کردہ رہنما اصول کو دو ٹوک، واضح اور صاف الفاظ میں بنی نوع انسان تک پہنچا دیا۔
(بشکریہ روزنامہ دُنیا)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).