تیرے دل میں تو بہت کام رفوکا نکلا


کہتے ہیں کہ پوت کے پاوں پالنے ہی میں نظر آتے ہیں۔ بقول کہ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔ یہ حکومت آئی تو ہم نے شکر کیا کہ سیاسی گدی نشینوں سے (سوائے بلاول) نجات ملی۔ اب وہ ہو گا جس کے انتظار میں پہلے مارکس نے خواب دکھائے، پھر ماوزے تنگ نے، پھر ہوچی منھ نے، پھر نیلسن منڈیلا نے، تھوڑے سے خواب بھٹو صاحب نے بھی اور 1976ء میں ظالمانہ قانونی تبدیلیاں بھی کیں (پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی)۔

جس زمانے سے صوفی میوزک، عابدہ پروین کا اللہ ہو، فیشن بن گیا تھا، اسی زمانے میں میوزک بینڈ بننے لگے ۔ پاکستان ہو کہ انڈیا ، عظیم حضرت نظام الدین، امیر خسرو اجمیر شریف سے لیکر شاہ حسین ، خواجہ فرید، بابا فرید ، وارث شاہ ، شاہ حسین اور سیف الملوک لکھنے والے ہمارے بزرگ ، سب کے فلسفے کو تو نظرانداز کردیا گیا۔ عرس ہوتا ہے۔ بھٹائی صاحب کا ہو کہ سچل سرمست کا، لوگ نذرانے پیش کرنے، منتیں پوری کروانے ،چڑھاوے چڑھانے تو آتے ہیں۔

یہ فرقہ، حنفی سے مختلف ہے اور ان تمام رسومات کو جائز قرار دیتا ہے۔ جب کہ ایک اور فرقہ ان کو بدعت سمجھتا ہے۔ بس یہیں ہماری سیاست کا آلنا پھنسا ہوا ہے۔ پاکستان میں خواتین مساوی حقوق رکھنے کے ساتھ اپنی آواز اٹھانا بھی جانتی ہیں اور ہمارا معاشرہ اس کو قبول ہی نہیں کرتا۔ اس کی تعریف بھی کرتا ہے۔

جہاں معاشرت کا سوال پیدا ہوتا ہے، وہاں بنیادی بات شایستگی کی ہوتی ہے۔ جرات سے فواد چوہدری نے میڈیا کو آزاد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس دن سے تو یہ شتر بے مہار دیکھنے کے لائق ہی نہیں رہا۔ بل گیٹس ، ٹی وی پر کہہ رہے تھے کہ میں اپنے بچوں کو سولہ سال کی عمر سے پہلے،نہ کمپیوٹر ، فیس بک اور ٹی وی دیکھنے دیتا ہوں، ان کو میں کتاب پڑھنے کے لئے کمرے میں بند کردیتا ہوں۔

جبکہ ہمارے یہاں تین ماہ کے بچے کو کارٹون سامنے لگا کر منہ میں دودھ کی بوتل دیکر ، سکون کا سانس لیا جاتا ہے۔ ہر پانچ سال کے بچے کے پاس موبائل فون ہوتا ہے۔ ماں باپ بڑے فخر کے ساتھ بتاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے شیخ رشید صاحب اپنی بے ساختہ زبان کے باعث ٹی وی کی ریٹنگ میں سب سے آگے جاتے ہیں۔ ان کے شگفتہ لہجے کے باعث میں نے بھی نوکری سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی اور اب پھر یہ سلسلہ ہر وزارت میں چل نکلا ہے۔

جو لوگ سیکرٹری بنتے ہیں۔ وہ اپنی عمر کے چالیس برس دفتری کاموں میں جھونک کر آتے ہیں۔ ان کو بھی عجب لگتا ہے جب ایک لمحے میں فواد چوہدری کہہ دیں پیمرا کو ختم کرکے نیا ادارہ بنایا جارہا ہے۔ ٹھیک ہے، پہلے منصوبہ بندی تو کرلو۔ اس کی آئوٹ لائن تو بنالو۔ بس کہہ دیا، یوٹیلیٹی اسٹور بند کررہے ہیں۔ یہ بھی تو بتائو اس کا متبادل کیا ہوگا۔ کہا پی ٹی وی پر سرکاری کنٹرول ختم کررہے ہیں۔ بھئی بی بی سی۔ اور سی این این پر بے شمار آزادیوں کے باوجود سرکار قائم ہے۔

ذرا غور کریں کتنے ادارے ہیں جو بغیر سربراہ کے اپنے محکمے کے جوائنٹ سیکرٹری کے عیش کدے بنے ہوئے ہیں۔ ہو کیا رہا ہے، اکیڈمی میں احمد فراز کی یاد میں پروگرام منعقد کرنے کا کہہ دیا گیا۔ ہر وہ شخص جس کا فراز کے نقطہ نظر اور شعری اسلوب سے کوئی تعلق نہ تھا (سوائے شبلی کے) ان کو بلا کر نئی نسل کو کیا سکھایا جارہا ہے۔ جوائنٹ سیکرٹری صاحبان ، سربراہ کی گاڑی میں عیش کررہےہیں۔

اس طرح دنیا بھر میں بچوں کے ہاتھ میں پستول پکڑا دیتے ہیں۔ وہ پہلے کھیل کھیل میں اور پھر اپنی بے مقصد زندگی کو ختم کرنے کو دس بیس کو مار دیتے ہیں۔ اس لئے امریکہ میں 3گھنٹے کی Happy hour کلاسز شروع کی گئی ہیں۔ بچے اور جوان ہنسیں کھیلیں ، کھائیں ، جنونیت ختم کریں۔ گھروں کو جائیں ، جاپان کی طرح ہمارے ملک میں بھی بزرگوں کے لئے کشادہ لان اور بیٹھنے کے لئے جگہ جگہ کرسیاں ہوں۔ ورزش کروانے والے، روز ہر گروپ کو آدھ گھنٹہ ورزش کروائیں۔ بزرگوں کے لئے سادہ کھانا فراہم کیا جائے۔

ایسے نہ ہو جیسے عورتوں کو انگلینڈ اور امریکہ میں دوپہر 11بجے سے 2بجے تک، انگریزی سکھانے، اخبار پڑھ کر سنانے، ٹی وی پروگرام دکھانے کے علاوہ حفظان صحت کے بارے میں بھی بتایا جائے۔ مگر وہاںہوتا کیا ہے، عورتیں تیار ہو کر بارہ بجے کھانا کھانے پہنچ جاتی ہیں اور دو بجے کبھی کبھی شام کے لئے بھی کھانا لیکر آجاتی ہیں۔ اسی طرح دارالامان کے حالات کو بہتر بنایا جائے کہ وہاں موجود خواتین کو کمپیوٹر اور دفتر کے انتظامی امور دفتر میں مردوں کے ساتھ کام کرنے کی تہذیب (ویسے مردوں کو بھی سکھائی جائے)بتائی جائے۔

ٹرین میں بھی جہاز کی طرح مفت کھانا ، چائے اور بستر فراہم کیا جائے۔ ایسے کاموں میں دیر نہیں لگتی۔ ہر یونین کونسل میں بچوں کے اسکول کھولنے، غریب بچوں کو یونیفارم ، جوتے اور بستے مع کتابوں کے فراہم کئے جائیں۔ غریبوں کو گھر دیتے وقت عورت اور مرد، دونوں کو حصہ دار بنایا جائے، ویسے تو تمام دنیا میں عورت کے نام پر گھر ہوتا ہے۔ طلا ق کی صورت میں گھر عورت کے پاس رہتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم کیساتھ دیرینہ تعلق کا مظاہرہ کرنیوالوں سے اخبار بھرا ہوتا ہے۔

عمران خان کی 22سالہ جدوجہد میں انسان کی شعوری اور مساوی ترقی کا تذکرہ کم کم ہوتا رہا ہے۔ ترس بھی آتا ہے کہ جسکی پارٹی میں 24ممبر میٹرک پاس ہوں، وہاں قانونی تربیت دینا کتنا مشکل کام ہے۔ یہ بھی ہوہی جائیگا، مگر گائوں کے پٹواری کا طریقہ واردات کون ٹھیک کریگا۔ افسروں کو مرغے کھلانے کیسے بند ہوں گے۔ ہمارے یہاں تو آدھے تھانے ، کرائے کی جگہ پر ہیں۔ اور جہاں بلڈنگ ہے وہاں رپورٹ لکھوانے جائیے تو کاغذ اپنے ساتھ لے کر جایے گا۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).